پیرزادہ قاسم کا شعری مجموعہ ’’بے مسافت سفر‘‘ نشاطِ غم کی شاعری ہے‘ سلمان صدیقی

1278

شاعری کے حوالے سے یہ بحث پرانی ہے کہ اسے کیسا ہونا چاہیے۔ سیدھے سادھے امیر شہر یا غریب شہر کے انداز میں یا غوروفکر میں ڈوبی ہوئی متانت کے ساتھ دل کش پیرائے میں۔ شاعری کے ان دو زاویوں پر مباحث کے نتیجے میں دو نکتہ ہائے نظر وجود میں آئے۔ ایک کا خیال تھا کہ شاعری عام آدمی کے لیے لطف و انبساط کی فراہمی کا ذریعہ ہے اس لیے اس عام فہم اور سدھے سادھے انداز کا ہونا چاہیے تاکہ معمولی سمجھ رکھنے والا فرد بھی اس کا لطف لے سکے۔ جب کہ دوسرا نکتۂ نظر یہ تھا کہ شاعری عام آدمی کا نہیں بلکہ خاص فکری اور ذہنی سطح رکھنے والے ادبی ذوق کے حامل لوگوں کا مسئلہ ہے اس لیے اسے غور و فکر کا حامل‘ تہہ دار طرز کا ہونا چاہیے تاکہ یہ خاص ذہنوں کے ادبی ذوق کی آب یاری کرسکے۔
مندرجہ بالا دونوں نکتہ ہائے نظر مدلل اور قابل فہم ہیں اور ان دونوں سے اتفاق کرنے پر باذوق قارئین آزاد ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو اس ضمن میں ایک تیسرے نکتۂ نظر کی گنجائش بھی ہے‘ وہ یہ کہ اگر شاعری کو ان دونوں عوام کے بین بین رکھا جائے کہ وہ کس حد تک سادہ عام فہم بھی ہو اور اس کے شانہ بشانہ غور و فکر کے عوامل بھی دل کش پیرائے میں بیان کیے گئے ہوں تاکہ شاعری میں سادہ بیانیہ پسند کرنے والوںکی فطری تربیت بھی ہو اور پراز دانش عوامل کی آمیزش سے ادب کی خاص قاری کے ذوق کا سامان بھی ہو سکے۔ اگر اس بحث کہ ’’شاعری کیسی ہونی چاہیے‘‘ کے تناظر میں یہ تیسرا نکتۂ نظر قابلِ اعتنا ٹھہرتا ہے اور ہم ا س طرز کی شاعری کا کوئی فوری حوالہ تلاش کریں تو ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے شعری مجموعے ’‘بے مسافت سفر‘‘ کو اس ضمن میں مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے پہلے مجموعے ’’تند ہوا کے جشن میں‘‘ اور دوسرے مجموعے ’’شعلے پہ زباں‘‘ کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوئے مگر اب نایاب ہیں۔ اردو ادب کی بڑی بڑی اور معتبر شخصیات نے پیرزادہ صاحب کی شاعری پر وقیع رائے دی اور انہیں سراہا۔ دوسرے شعری مجموعے کے کم و بیش 18 سال کے وقفے کے بعد پیرزادہ صاحب کا تیسرا مجموعہ ’’’’بے مسافت سفر‘‘ 2020ء میں سامنے آیا ہے۔ گزشتہ دو شعری مجموعوں کی طرح اپنے خاص اسلوب میں ڈھلا‘ شاعری کی روایت میں رچا بسا‘ دھیما‘ نرم‘ درد آمیز‘ بہت کچھ سمجھتا‘ بہت کچھ سمجھاتا‘ تفکر پر مائل کرتا‘ پرازدانش خلیق لہجہ‘ یہ ثابت کرتا کہ شاعری کی شخصیت کا عکس واقعتاً نظر آتا ہے۔ڈاکٹر پیر زادہ نے ایک کامیاب پیشہ ورانہ زندگی گزاری ہے۔ اس طویل کامیاب سفر میں رکاوٹیں‘ مشکلات اور مخالفین کی سازشیں انہوں نے جھیلی ہیں۔ پیرزادہ کی شاعری میں ان کی جہات تلاش کرنا سخن فہموں کے لیے چنداں دشوار نہیں ہے۔ کتاب کا عنوان ’’بے مسافت سفر‘‘ بجائے خود ایک احساسِ زیاں کا مظہر ہے۔ نارسائی‘ ملال اور ایک ان جانے دکھ کا اظہار اس مجموعے کی شاعری میں آمیز ہے۔ اپنے ہونے اور نہ ہونے کی کشمکش میں خود کو تلاش کرنے کی جستجو زندگی کے فلسفے کا کھوج لگانے والے شعرا کی طرح پیرزادہ صاحب کے ہاں بھی نمایاں ہے۔ شورش مہ و سال‘ پناہ گاہ جمال اور خوشی و غم کا تضاد‘ گویا ہر لحظہ رنگ بدلتی زندگی کے تمام ممکنہ زاویے پیرزادہ کی شاعری میں ان کے خاص اسلوب میں نمایاں ہیں اور ایک خاص عنصر ان کے ہاں نشاطِ غم کی صورت میں غم سے لطف کشید کرنے کا ہے۔ پیرزادہ کے ہاں نشاطِ غم‘ انبساطِ غم اور نشاطِ درد جیسی تراکیب‘ درد و الم اور غم و اندوہ کی منفیت کو زائل کرکے‘ غم سے نشاط کشید کرنے کی تہذیب متعارف کرانے کی کوشش ہے اور یوں درد و غم کے نتیجے میں خود پر مایوسی طاری رکھنے والوں کے لیے یہ ایک درس بھی ہے۔ درد و الم سے نشاط کشید کرنے کا یہ مثبت طرز فکر جس وضاحت اور خوب صورتی سے پیرزادہ صاحب نے اپنی شاعری میں شامل کیا ہے اس کی مثالیں اردو شاعری میں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں۔ فرد میں ناکامی سے پیدا ہونے والی مایوسی کا ازالہ پیرزادہ صاحب کا خاص ہدف ہے۔ وہ اپنے اشعار میں اس نفسیاتی یچیدگی کا کتھارسس اتنی سادگی اور قابل فہم انداز سے کرتے ہیں کہ ان کے شعر کا قاری اثر لیے بغیر رہ نہیں پاتا۔ مایوسی میں حوصلہ‘ مشکل میں امید اور خزاں کی رُت میں بہار دیکھتی آنکھوں کا اجلا پن پیرزادہ کی شاعری میں رجائیت کے عنصر کو خاص انداز سے اجاگر کرتا ہے۔جیسا کہ میں نے اس سے قبل بھی تحریر کیا کہ غم و اندوہ کی تیرگی سے روشنی کشید کرنا پیرزادہ قاسم کی زندگی کا افضل وظیفہ ہے‘ اس شعری مجموعے کی غزلوں میں جہاں جہاں قاری کو کسی غم اور کسی تلخی کا تہذیبی رکھ رکھائو کے ساتھ اظہار ملتا ہے‘ وہیں عزم و حوصلے اور خوش امیدی کی روشنی کا نرم اور دل موہ لینے والا روشن بیان بھی موجود ہوتا ہے۔ دیگر جہات کے ساتھ تخلیق‘ فرد کے داخل کا آئینہ بھی ہے‘ غزل کے اشعار میں‘ نظم کی بنت میں اور نظم کے انفرادی مصرعوں میں شاعری کا لہجہ‘ اس کا فکری رجحان‘ اس کے سوچنے کا انداز اور اس کے سماجی طرز عمل کی تہذیب صاف دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر پیرزادہ کا تہذیبی رویہ‘ منکسر المزاجی‘ رکھ رکھائو اور ان کی گفتگو کی مہذب انداز ان کی شاعری کے خمیر میں گندھا ہوا ہے۔ جس دھیمے اور شائستہ انداز میں وہ بات کرتے ہیں ان کے اشعار میں الفاظ کا انتخاب اس کی گواہی دیتا ہے۔ شعری مجموعے ’‘بے مسافت سفر‘‘ کا ایک تہائی حصہ نظموں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے پہلے شعری مجموعے ’’تند ہوا کے جشن میں‘‘ رائے دیتے ہوئے اخترالایمان نے لکھا ’’ان کا پہلا مجموعہ پڑھنے کے بعد مجھے ان سے مستقبل میں بہت اچھی شاعری کی توقع ہے‘ ان کی توجہ ابھی تک غزل کی طرف زیادہ ہے مگر میں سمجھتا ہوں بڑی شاعری کے امکانات نظم میں زیادہ ہیں۔‘‘
نظم کے حوالے سے اختر الایمان کی یہ رائے بہت اہم ہے‘ نظم بلاشبہ ایک عالمی صنف سخن ہے اور دنیا کی ہر زبان میں لکھی جاتی ہے اور اس میں وسعتِ خیال کی گنجائش لامحدود ہے۔ ڈاکٹر پیرزادہ کی نظمیں ان کی تفہیمی طرز اظہار کا عکس ہیں‘ سادہ الفاظ میں فکر انگیز اور غور طلب بات کہنا ان کا خاص انداز ہے‘ وہ نظم کے لیے منتخب کیے جانے والے خیال کو ایک عام فہم تمہید سے آغاز کرتے ہیں اور سطر در سطر آگے بڑھتے ہوئے موضوع کو واضح کرتے جاتے ہیں اور خیال کو مکمل کرتے ہوئے ایک حتمی مرحلے پر نظم ختم کر دیتے ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے بقول شخصے‘ نظم شروع کرنا آسان مگر ختم کرنا مشکل ہے۔ ڈاکٹر پیرزادہ بڑی خوبی سے اس مشکل کام کو سرانجام دیتے ہیں اور کسی دانش ور کے اس کہے کی لاج رکھ لیتے ہیں کہ ’’نظم کے معنی اگر فوراً سامنے آجائے تو نظم تلف ہو جاتی ہے۔‘‘پیرزادہ کے ہاں نظم کے موضوعات‘ زندگی کے مسائل اور انسانی رویوں سے کشید کیے گئے ہیں۔ ان کی نظم ’’جمع تفریق‘‘ زندگی کے سفر اور حاصل سہولتوں کے تناظر میں زندگی کے بے ثباتی اور رائیگانی کا خوب صورت بیانیہ ہے۔ فرد سے فرد کی تعلق میں ایک دوسرے کو فریب دینے اور فریب کھانے کی تفصیل بتاتی نظم ’’بہروپیے‘‘ فکر انگیز ہے۔ ایک خاص نظم ’’ابھی تک ہم نہیں بولے‘‘ خود نمائی اور اپنی مدح خوانی پر آمادہ اس شخص کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتی ہے جو ایک ایسے شخص کے سامنے اپنی فضیلت آپ بیان کررہا ہے۔ اسی طرح نظم ’’بے مسافت سفر‘‘ جو اس مجموعے کا عنوان بھی ہے‘ قنوطیت پر مبنی عنوان کی حامل یہ نظم ایک رجائیت آمیز اختتام کی حامل ہے‘ ایک بے نام منزل کی طلب میں چلنے والوں کو منزل کی بے نامی کی مایوسی سے نکال کر سفر کے لطف کی جانب متوجہ کرتی ہے بالکل اسی طرح جیسے پیرزادہ صاحب غم کو نشاط کے پیمانے میں ڈھال کر لطف کشید کرتے ہیں۔ اس مجموعے کی نظموں میں ایک سوچنے والا پرازدانش ذہن مختلف عنوانات اور موضوعات کے تحت اپنے محسوسات کا اظہار کررہا ہے۔ ’’بازیافت‘‘ کیا ہے؟ ’’زندگی‘‘ بے قیمت کیوں ہے ’’فنا‘‘ کیا ہے؟ ’’انکار کی روشنی‘‘ کا منصب کیا ہے اور مجموعے میں شامل نظمیں ’’لمحہ‘‘، ’’ڈر‘‘ اور ’’امکان‘‘ کس فلسفے کی تمہید ہیں۔ یہ سب جاننے کے لیے ان نظموں کو ایک خاص توجہ کے ساتھ مطالعے کی ضرورت ہے۔

ادارہ دستک میرپور خاص کا مذاکرہ اور مشاعرہ

میرپور خاص سندھ میں اردو اور سندھی میں ادبی مذاکرے اور مشاعرے ہوتے رہتے ہیں‘ وہاں کئی ادبی تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت سرگرم عمل ہیں ان میں ادارۂ دستک بھی شامل ہے یہ لوگ اب تک 232 شعری نشستیں کر چکے ہیں جس مذاکرے اور مشاعرے کا ذکر آج کے کالم میں کیا جارہا ہے وہ یوسف چوہان کی صدارت میں انڈس پبلک اسکول میں ہوا ۔ نوید سروش نے نظامت کے فرائض انجام دیے جب کہ اعجاز بابو خان نے گزشتہ میٹنگ کی کارروائی کی منظوری کے لیے پیش کی۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے پہلے حصے میں ذیشان عثمانی نی اپنا افسانہ ’’جینی‘‘ پیش کیا اور خوب داد و تحسین سمیٹی۔ عدنان قمر نے کشور ناہید کی کتاب ’’بری عورت کی کتھا‘‘ پر لکھا ہوا اپنا مضمون پیش کیا جس کو بے حد سراہا گیا۔ حافظ حبیب اللہ فیضی نے اپنا مقالہ پیش کیا جو کہ ایم اے اردو کے لیے انہوں نے محمد حسین ماہر اجمیری کی شخصیت اور فن پر لکھا تھا۔ نوید سروش نے تنویر بانو عباسی کا سندھی افسانہ ’’نئی زندگی‘‘ پیش کیا۔ پروگرام کے اس دور میں نوید سروش نے کلماتِ استقبالیہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ادبی تنظیم کے پروگرام کورونا کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں آج بھی ہم نے بہت کم لوگوں کو شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہماریدعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وبا سے ہمارے ملک کو آزاد فرمائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حالات کی شاعری میں تمام شعرا نے کورونا کی اسباب و مسائل پر بات کی ہے کیوں کہ شاعر بہت حساس ہوتا ہے‘ وہ معاشرے کے تمام حالات پر گہری نظر رکھتا ہے اور انہیں اپنی شاعری کا حصہ بناتا ہے۔ شعرائے کرام اپنے اشعار کے ذریعے عوام الناس میں شعور بیدار کرتے ہیں‘ وہ صحیح اور غلط راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں باالفاظ دیگر شعرائے کرام بھی اصلاحِ معاشرہ کے علمبردار ہیں‘ ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان اور اپنی ثقافت کی حفاظت کریں اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آجائیں۔ صدر محفل نے کہا کہ وہ بہت عرصے کے بعد کسی ادبی تقریب میں شریک ہوئے ہیں آج کی تقریب بہت اچھی ہے ‘یہاں بہت اہم گفتگو ہوئی شرکا کی تعداد کم ہے کیوں کہ کورونا کی وجہ سے سب اپنے اپنے گھروں میں قید ہے لیکن امید ہے کہ جلد ہی صورت حال بدلے گی اور ہم پھر پہلے کی طرح آزادانہ گھوم پھر سکیں گے انہوں نے مزید کہا کہ آج جو تحریریں پیش کی گئی ہیں ان میں زندگی سے متعلق بہت سی تلخ سچائیاں نظر آئیں جب کہ کچھ لوگوں نے جمالیاتی حسن کو تحریر کیا ہے یہ بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے یہ بات بھی آپ کے علم میں ہوگی کہ جو قلم کار زندگی کے مشاغل نہیں لکھتے وہ کامیاب نہیں ہوتے کیوں کہ فی زمانہ شاعری میں حسن کے قصے کام نہیں آتے اب ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی لکھنا ہے‘ ہمیں ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی ہے اور مظلوم کی حمایت کرنی ہے یہی شاعری کا نصاب ہے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور واقعات نظم کرنا شاعری کی ضرورت ہے۔ اس پروگرام میں مرحوم قلم کاروں کے لیے دعائے مغفرت کی گئی جب کہ ذیشان عثمانی‘ بشارت علی‘ حافظ حبیب الرحمن اور نوید سروش اور دیگر شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔

رشید خان رشید کی شاعری جدیدت اور روایت سے جڑی ہے‘ شاداب احسانی

رشید خان رشید 70 کی دہائی سے میدانِ ادب میں سرگرم عمل ہیں۔ اگر وہ خود سپردگی کے ساتھ شاعری کر رہے ہوتے تو دنیائے ادب میں ان کی نمایاں شناخت ہوتی‘ شناخت تو اب بھی ہے لیکن دوسرے حوالوںسے مثلاً وہ تقریباً چالیس برس شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے ‘ ایک اسکائوٹ لیڈر کے طور پر بھی انہوںنے اپنی صلاحیتوں کو منوایا‘ وہ بزم آرائی کے فن میں بھی طاق ہیں‘ ایک نظامت کار کی حیثیت سے بھی وہ اپنی نمایاں پہچان رکھتے ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’اعتبار کا موسم‘‘ 2004ء میں شائع ہوا تھا۔ ان کی غزلوں کی دوسری کتاب ’’انتظار کا موسم‘‘ جولائی 2020ء میں شائع ہوا جو کہ فنی اعتبار سے اور خیال آفرینی کے حوالے سے جڑی ہوئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے رشید خان رشید کے دوسرے مجموعے کی اشاعت پر کیا۔ راقم الحروف نثار احمد نثار 29 اگست کو اختر سعیدی اور محمد علی گوہر کے ساتھ رشید خان رشید کی عیادت کے لیے گیا تھا اس وقت رشید خان کی صحت کافی خراب ہے‘ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب انہیں صرف دعائوں کی ضرورت ہے اس موقع پر مجھے محمد علی گوہر نے ان کا دوسرا شعری مجموعہ عنایت کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ رشید خان رشید کی کتاب کا تذکرہ کیا جائے کیوں کہ ان کی کتاب کی تقریب اجرا فی الحال ممکن نہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت عطا فرمائے۔ میں نے ان کی کتاب میں 72 غزلیں‘ ایک حمد‘ ایک نعت اور ایک سلامِ حسینؓ کو شامل پایا۔ 144 کی کتاب کا ٹائٹل عبیدالرحمن عبید نے بنایا ہے اس کی اشاعت ادارۂ فکرِ نو کراچی نے کی ہے۔ انتساب نور احمد میرٹھی کے نام ہے منظوم خراج تحسین پیش کرنے والوں میں اختر سعیدی اور محمد علی گوہر کے نام ہیں جب کہ محسن ملیح آبادی اور قمر وارثی نے تاریخ اشاعتِ کتاب کے قطعات لکھے ہیں۔ میں رشید خان رشید کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں تاہم میرے کالم کا تقاضا ہے کہ آج ان کی شاعری پر ہی بات کروں۔ رشید خان ایک ملنسار اور نیک آدمی ہیں ان کی تاریخ پیدائش 6 جولائی 1953ء ہے وہ 1986ء میں محکمہ تعلیم حکومت سندھ کے ملازم ہوئے اور 60 برس کی عمر ہونے کے باعث اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ وہ اسسٹنٹ لیڈر ٹرینر سندھ بوائے اسکائوٹس ایسوسی ایشن کے عہدیدار تھے انہوں نے طلباء میں نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ تعلیم کی اہمیت بھی اجاگر کی۔ ینگ کلچر ویلفیئر سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری کے تحت انہوں نے سماجی خدمات انجام دیں ادارۂ فکر نو کراچی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ان کے کریڈٹ پر بے شمار تقریبات ہیں انہوں نے اپنی شعر گوئی کا آغاز 1970ء میں کیا وہ ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنے احساسات کو اس لیے نظم کیا کہ دوسرے لوگ ان کے اندر کی باتیں محسوس کریں انہوں نے اپنے فنی دسترس میں رہتے ہوئے معاشرے مسائل بھی رقم کیے اور غزل کے مضامین بھی کہے۔ انہوں نے تمام اصنافِ سخن میںطبع آزمائی کی لیکن غزل ان کی پسندیدہ محبوبہ ہے انہوں نے سادہ اور آسان زبان استعمال کی جس سے ان کے اشعار بہت آسانی کے ساتھ ہر شخص کی سمجھ میں آجاتے ہیں ان کے ہاں تازہ کاری اور روایتی اسلوب نظر آتا ہے وہ سچے جذبوں کے شاعر ہیں انہوں نے غمِ جاناں اور غمِ زمانہ سے نظریں نہیں چرائیں ان کے محسوسات کے پیمانے لطیف اور سبک ہیں ان کے ہاں تشبیہات اور استعاروں کے علاوہ لفظوں کی نشست و برخواست کا سلیقہ نمایاں ہے انہوں نے شاعری کے علاوہ بچوں کے لیے کم و بیش 200 مضامین لکھے جو مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہے انہوں نے بے شمار تقریبات کی نظامت کی اور بہت کامیابی سے ہر پروگرام چلایا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکل آسان فرمائے‘ آمین۔

حصہ