قدم سے قدم ملاکر

232

’’آپ کو اندازہ بھی نہیں کتنا مشکل ہوتا ہے اس ماحول میں survive کرنا۔ امریکن ایک بہت ہی racist , sexist قوم ہے، دل چاہتا ہے ایسی جگہ چلی جاؤں جہاں میں racism کا نشانہ نہ بنوں۔‘‘
اس نے اپنی بات مکمل کرکے جعلی قہقہہ لگایا تاکہ اپنی آنکھوں میں موجود تیرتے آنسوؤں کو مجھ سے چھپا سکے۔ میں دکھے دل کے ساتھ اُس کے اندر گزرنے والے مدوجزر کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔ اپنے اور بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنا دیس چھوڑ کر آئے تھے لیکن اندازہ نہ تھا کہ اپنے بچوں خصوصاً لڑکیوں کو کس امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے گرجنے سے اندازہ ہورہا تھا کہ کسی بھی لمحے بارش شروع ہوجائے گی۔
ہائی اسکول کے ابتدائی برسوں میں اُس کا موڈ گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ دیکھ کر اندازہ تو مجھے بھی ہوتا رہتا تھا کہ کہیں کچھ گڑبڑ ہے۔ وہ ٹین ایج اور ہائی اسکول دونوں turmoil سے ایک ساتھ گزر رہی تھی۔ کبھی ہنستی تو ہنسی چلی جاتی کہ میں اس کو حیرت سے دیکھتی رہ جاتی، اور کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ ذرا سی بات پر روپڑے گی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اُس سے کب اور کیا بات کروں! اپنی نوجوانی سے موازنہ کرتی تو محسوس ہوتا کہ جوانی تو ایسی ہی ہوا کرتی ہے، اتنی ہی حساسیت ہوتی ہے، ایسے ہی نازک جذبات ہوتے ہیں۔ خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتے جھولتے نہ جانے کب معصوم سے دکھ گھیر لیا کرتے تھے۔ ساری خوشیاں ایک لمحے میں معدوم ہوجاتی تھیں۔ کیسی عمر ہوتی ہے، کیسے مسائل ہوتے ہیں مجھے تو اندازہ ہے… پھر کیوں مجھے اُس کے دکھ سمیٹنے نہیں آتے؟ کیوں اتنی ٹوٹی ہوئی لگ رہی تھی؟ شاید میں ہی اپنی مصروفیات میں اتنا گھر گئی ہوں کہ اُس کے لیے وقت نکالنا ممکن نہیں ہوپاتا۔ شوہر کو وقت نہ دو تو وہ رشتہ کمزور پڑنے لگتا ہے، اس کی کیسے آبیاری کی جائے؟ اس کو کیسے قائم رکھا جائے؟ دوسری طرف بچے ہیں، اور پھر سسرال اور میکہ تو ساتھ ساتھ ہی چل رہے ہیں۔ مجھے آج بہت اچھی طرح سمجھ آرہا تھا کہ کیسے انسان کو مشقت میں پیدا کیا گیا ہے۔
اُس کی باتیں سن کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ میری بیٹی میرے پاس ہوتے ہوئے بھی مجھ سے اتنی دور ہے۔ میری کوکھ میں پلنے والی، میرے سینے سے چمٹنے والی، میرے ہاتھوں میں کھیلنے والی کب سے اتنی بڑی بڑی باتیں کرنے لگی؟ کب یہ جنریشن گیپ پیدا ہوا؟ کہاں پر میں نے غلطی کی؟ میں تو اپنے تئیں سمجھتی رہی کہ میں اُس کے قدم بہ قدم چل رہی ہوں، اس کی انگلی پکڑ کر چلنا سکھا رہی ہوں۔ انجانے میں کب وہ میری انگلی چھڑا کر اتنی آگے بڑھ گئی! زمانے کے گرم و سرد خود ہی جھیلتی رہی!
’’آپ کو پتا ہے میں نے ڈھائی سال اکیلے لائبریری میں وقت گزارا ہے، اب لگتا ہے کہ اس طرح تو مسئلے حل نہیں ہوتے۔ لوگوں سے ملیں گے نہیں تو وہ کیسے جانیں گے کہ حجاب پہن کر ہمalien نہیں بن گئے ہیں، ان کے جیسے ہی انسان ہیں۔ شروع میں پہلے سال کوشش کرتی رہی کہ غیر حجابی اور غیر مسلم سے دوستی کرنی چاہیے، پھر اندازہ ہوا کہ حجابیوں کے ساتھ ہی دوستی کرنا سب سے آسان ہے، اسی طرح peer pressureکو کم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
میری ننھی شہزادی کو مختصر وقت نے کتنا تجربہ عطا کردیا ہے۔ کیا کیا جھیلا ہے اکیلے اس نے؟ جھیلا تو بہت کچھ میں نے بھی تھا، مگر وقت نے سب پر گرد کی موٹی تہ چڑھا دی۔ میں تو اپنی طالب علمی کا زمانہ بھول ہی گئی تھی۔ اتنی ذمہ داریاں پڑیں کہ ماضی قصۂ پارینہ بن گیا۔ ہوا کے جھونکے اُس کے بالوں کو اڑائے دے رہے تھے اور وہ بھی جھولے پر زور زور سے جھونٹے لیے جارہی تھی۔ شاید اپنی frustration کو نکال رہی تھی۔ میں اس کو یک ٹک دیکھ رہی تھی، شاید اُس کو بھی میری محویت کا اندازہ ہوگیا تھا، کہنے لگی:
’’مجھ کو جج مت کیجیے گا، لیکن میں نے بھی اس ماحول سے relevant ہونے کے لیے خراب لڑکے لڑکیوں کی طرح cursing شروع کردی تھی۔ کیا کرتی، لگتا تھا میں اُن کی طرح بن جاؤں گی تو شاید پھر سب میرے دوست بن جائیں گے۔‘‘
میں اُس کی باتیں سن کر، اور ان آزمائشوں سے گزرنے کے نتیجے میں اُس کے اندر آنے والی مثبت تبدیلیوں کو اپنے الفاظ کے آئینے میں دکھانا چاہ رہی تھی۔ کہاں سے بات شروع کروں؟ اللہ تعالیٰ نے ہی میری زبان پر الفاظ جاری کروا دئیے:
’’میری جان تمہیں یاد ہے جب یہ منگولیا کا پودا ہم نے گملے سے نکال کر دس سال پہلے زمین میں ساتھ لگایا تھا۔ کتنا نازک سا تھا، محسوس ہوتا تھا شاید یہ مر جائے گا۔ یاد ہے سردیوں میں ہم نے اس کو فریز ہونے سے بچانے کے لیے کتنا خیال کیا تھا! شروع میں تو پانی کا بھی کتنا خیال رکھنا پڑتا تھا، اس کی سپورٹ کے لیے ایک لکڑی بھی لگائی تھی۔ ایک آدھ دفعہ تو ایسا محسوس ہوا کہ یہ پنپ نہیں سکے گا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ اپنے ماحول کا عادی ہوتا گیا اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ اس کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی گئیں اور شاخیں مزید پھیلتی گئیں، اور خوبصورت خوشبودار پھول اس کے حسن میں اضافے کا باعث بنتے گئے۔ بس میری بہت عقل مند بیٹی! تم نے بھی وقت کے ساتھ بہت کچھ سیکھا تھوڑا سا غلط بہت کچھ صحیح، اور اس تھوڑے سے غلط نے بھی تمہاری شخصیت کی نمو میں بڑا اچھا اثر ڈالا ہے، کیونکہ تم نے اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنے کردار کو مضبوط کیا ہے‘‘۔ میری بات مکمل ہونے تک میرا اپنا لہجہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا، مگر میں اندر ہی اندر اپنی بیٹی پر فخر محسوس کررہی تھی، اور پھر میں نے اپنا بازو اُس کے شانے پر پھیلا دیا۔ ہم دونوں کے بال تیز ہوا اڑائے دے رہی تھی۔ میں اُس کے قدم سے قدم ملائے کھڑی تھی کہ اگر وہ بارش میں بھیگے تو میں بھی بھیگوں تاکہ اس سب کو محسوس کرسکوں جو وہ محسوس کرے گی۔

حصہ