عزمِ نو

204

امی کچن کا کام نبٹاتے ہوئے بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ایسے میں اچانک زور دار آواز سے دروازہ کھلا اور مصحف منہ پھلائے گھر میں داخل ہوا اور بیگ ایک سائیڈ پہ رکھ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ امی نے پوچھا ’’کیا ہوا بیٹا! موڈ کیوں آف ہے؟‘‘ تو مصحف بولا: ’’امی! آپ مجھے یہ بتا دیں کہ ابو کب آرہے ہیں؟ امی اس کا سوال ٹالتے ہوئے بولیں: بیٹا ہوا کیا ہے؟ مصحف بولا: امی آج صفوان اپنے ابو کے ساتھ اسکول آیا تھا اور اس کے ابو نے اسے ڈھیر سا لنچ بھی دلایا۔ اور پتا ہے کہ اس کے ابو نے اسے نئی سائیکل بھی دلائی ہے اور وہ روزانہ اپنے ابو کے ساتھ گراؤنڈ جا کر سائیکل چلانا سیکھ رہا ہے۔ سائیکل تو میرے پاس بھی ہے اور مجھے تو گلی سے باہر تک جانے کی اجازت نہیں‘‘۔ امی نے کہا تم منہ ہاتھ دھولو، میں کھانا لے کر آتی ہوں پھر بات کرتے ہیں۔ اور مصحف منہ لٹکائے کمرے میں چلا گیا۔
کھانا کھاتے ہوئے امی مصحف کو سمجھاتے ہوئے بولیں: ’’بیٹا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ابو ایک فوجی ہیں اور فوجی کے گھر والوں کو اس کے ساتھ خود بھی بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ بات یہ ہے کہ اگلے ہفتے جو آپ کےابو آ رہے تھے اب سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے ان کی وہ چھٹی بھی منسوخ ہو گئی ہے۔‘‘ امی نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ ’’امی اب یہ تو نہ بولیں‘‘، ’’ابو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اب جب وہ آئیں گے تو ہم خوب گھومیں گے میرا سارا پلان خراب ہو گیا‘‘۔ اس نے کھانا چھوڑا اور بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ امی برتن اٹھاتے ہوئے سوچنے لگیں کہ جیسے جیسے مصحف بڑا ہو رہا ہے اپنے ابو کو زیادہ ہی یاد کرنے لگا ہے اور اگلے دن جب مصحف اسکول سے آیا تو نانا، نانی کو دیکھ کر خوش ہو گیا۔
یونیفارم تبدیل کرکے ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ باتوں باتوں میں مصحف اداسی سے بولا: ’’نانا جان! دیکھیں اس بار بھی میرے بابا کی چھٹی منسوخ ہو گئی۔ کیا بابا کے سر کو نہیں پتا کہ میں ان کا انتظار کر رہا ہوں‘‘ نانا ابو اس کی بات پر مسکرا دیئے اور بولے ’’دیکھو بیٹا آپ کے ابو ایک بہادر فوجی ہیں اور آپ کو بھی ان کی طرح بہادر بننا ہے۔ آپ کے ابو سرحد پر نگہبانی کرتے ہیں تو آپ کے دوست اور سب لوگ سکون و اطمینان سے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں آپ کو تو اپنے ابو پر فخر ہونا چاہیے اور ان کی غیر موجودگی میں اپنے امی کا بھی خیال رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے۔‘‘ یہ سن کر مصحف کی آنکھیں چمک اٹھیں نانا نے پیار سے پوچھا ’’ہاں تو بتائو! کیا میرا بیٹا اس قابل ہے؟
مصحف جوش سے بولا! بالکل نانا جان، اب میری سمجھ میں آیا۔ پھر وہ اپنی امی کی طرف منہ کرکے بولا ’’امی، آپ کو میں نے آج تک جتنا بھی پریشان کیا اس کے لیے ’’سوری‘‘۔ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں آئندہ آپ کو تنگ نہ کروں گا بلکہ ایک سمجھ دار اور ذمہ دار بیٹا بن کر دکھائوں گا‘‘۔ ’’اور نانا جان میں نے سوچ لیا ہے کہ میں بھی ابو کی طرح بہادر فوجی بن کر اپنے وطن کی حفاظت کروں گا۔‘‘ سب نے مصحف کی اس بات پر با آوازِ بلند کہا ’’ان شاء اللہ‘‘

حصہ