منکرین ِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اسلامی جمعیت طلبہ

835

ستّر کی دہائی کا چوتھا سال، ماہ مئی کے آخری ایام، نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ ایک تفریحی دورے پر سوات روانہ ہوتے ہیں، جب ٹرین ربوہ ریلوے اسٹیشن پر رکتی ہے تو چند قادیانی نوجوان ٹرین میں سوار ہوجاتے ہیں اور اپنا لٹریچر تقسیم کرنے لگتے ہیں۔ ٹرین میں موجود اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان انہیں اس عمل سے روکتے ہیں، بات تصادم تک جا پہنچتی ہے، اور وہ قادیانی نوجوان اپنی پسپائی دیکھ کر وہاں سے بھاگ نکلتے ہیں۔
اس واقعے کے چند روز بعد جب طلبہ تفریحی دورے سے واپس آرہے تھے، ٹرین کے ربوہ اسٹیشن پر رکتے ہی قادیانی جماعت کے افراد ایک منظم اور طے شدہ پروگرام کے مطابق طلبہ کی بوگی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ طلبہ مقابلہ کرتے ہیں، لیکن یہ ایک منظم حملہ تھا جس میں کئی طالب علم شدید زخمی ہوتے ہیں جنہیں فیصل آباد کے اسپتال پہنچایا جاتا ہے، مرہم پٹی ہوتی ہے اور ٹرین ملتان کے لیے روانہ ہوتی ہے۔ ہر ریلوے اسٹیشن پر طلبہ قادیانیوں کی اس مذموم حرکت سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں۔ ملتان پہنچ کر نشتر میڈیکل کالج طلبہ یونین کے صدر ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے پریس کو حملے سے آگاہ کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ منکرینِ ختم نبوت قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے، ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے، قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔
یہ وہ زمانہ ہے جب طلبہ یونینز ہوا کرتی تھیں اور اسلامی جمعیت طلبہ کراچی تا خیبر ایک منظم اور مضبوط طلبہ تنظیم تھی۔ ملک کی اہم جامعات اور کالجوں میں جمعیت ہی کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے اس مسئلے کو اٹھایا گیا تو صرف ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ہی نہیں بلکہ گائوں، دیہات تک مظاہرے شروع ہوگئے اور جلد ہی جمعیت کے مطالبات کا عنوان لیے ایک تحریک کا آغاز ہوگیا۔ رکاوٹیں آئیں اور قید و بند کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا، لیکن ساتھ ہی تحریک میں تیزی آتی چلی گئی اور ختمِ نبوت کی اس تحریک کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی۔ دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی تحریک میں شامل ہوتی گئیں۔
یہ تحریک 1953ء میں قادیانیوں کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا ہی تسلسل تھی جب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ قادیانیت کے خلاف کتابچہ ’’قادیانی مسئلہ‘‘ تحریر کرنے پر گرفتار ہوتے ہیں اور انہیں پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے تو پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ حکمرانِ وقت کی جانب سے مولانا مودودیؒ کو رحم کی درخواست دائر کرنے کے لیے کہا گیا تو مولانا نے جو تاریخی جواب دیا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، انہوں نے کہا: ’’زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوا کرتے ہیں، اگر موت کا وقت آگیا ہے تو وہ ٹل نہیں سکتا، اگر وہاں یہ فیصلہ نہیں ہوا تو سب الٹے لٹک جائیں، میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘‘
پورے ملک میں احتجاج کا سلسلہ جاری تھا اور حکومتِ وقت کو عوام کے اضطراب، احتجاج اور ایک اسلامی ملک کے دبائو پر انہیں رہا کرنا پڑا، موت کی سزا منسوخ ہوئی۔
21 برس بعد جب نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ کے ساتھ ربوہ اسٹیشن کے واقعے کے بعد تحریک کا آغاز ہوا تو فضا سازگار تھی۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں، تقریروں اور قید و بند کی صعوبتوں سے تحریک کی آبیاری ہوچکی تھی اور تحریکِ ختمِ نبوت نے جلد ہی اپنے ہدف کو پا لیا۔ حکمران اس مسئلے کو حل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ علمائے کرام اور سیاسی رہنمائوں نے بھی اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ قومی اسمبلی میں دینی حلقوں کی مؤثر نمائندگی تھی۔ اس وقت مفتی محمود، علامہ شاہ احمد نورانی اور پروفیسر عبدالغفور احمد جیسی جرأت مند قیادت موجود تھی۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس مسئلے کو کسی آرڈیننس کے ذریعے حل کرنے کے بجائے اسمبلی میں لاکر آئینی طور پر حل کرنے کو بہتر جانا۔ قادیانیوں کے خلیفہ کو طلب کیا گیا، اس کا مؤقف سنا گیا، بحث ہوئی، اور بالآخر قادیانی 7 ستمبر 1974ء کو آئینی طور پر ’’غیر مسلم اقلیت‘‘ قرار پائے۔
قادیانیت وہ فتنہ ہے جس کے پیروکار قیامِ پاکستان سے ہی پاکستان کو ایک قادیانی ریاست بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے بعد وہ کچھ عرصے کے لیے زیر زمین چلے گئے، لیکن اپنی فتنہ پروری سے باز نہ آئے، اپنے سازشی عمل کو جاری رکھا جو آج بھی جاری ہے جس کا مظاہرہ وہ اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ دورِ حکومت میں انہوں نے پھر اپنے پر پرزے نکالنا شروع کردیے ہیں۔ اس کا فوری علاج ضروری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئینِ پاکستان کے مطابق ان پر جو پابندی ہے اس پر سختی سے عمل کرایا جائے، اور توہینِ رسالت کے مرتکب افراد کو فوری سزا دی جائے۔ ان سے نرمی آئینِ پاکستان سے غداری کے مترادف ہے۔

حصہ