ایمانی غیرت اور سوشل میڈیا

956

ہر بات سوچے سمجھے بغیر بالکل جذباتی انداز سے نہیں لینی چاہیے۔سوشل میڈیا کا کھلے دل و دماغ سے استعمال ہی فائدہ مندہو سکتا ہے۔یہ کھلا دل و دماغ کیا ہے، اس ہفتے ایک بار پھر سمجھنے کوملا۔ویسے تو یہ عاشورہ کا بابرکت ہفتہ تھا۔ شہداء کربلا کا مشن یاد کرنے، عام کرنے اور عمل کی دُنیا میں لانے کا موقع تھا۔افسوس کہ نئے اسلامی سال کے پہلے عشرے میں شہدائے کربلا کی یاد میں مجالس کے نام پر دو افسوس ناک بڑے واقعات ہوئے۔پہلا واقعہ اسلام آباد میں ایک شیعہ ذاکر کی جانب سے صدیق اکبر ؓ کی شان میں گستاخی کا تھا جس پر خوب شور مچایا گیا ، ایف آئی آر بھی کٹی مگر مزید کچھ نہیں ہوسکا۔ دوسرا عین عاشورہ کے دن جلوس میں مرکزی مائیک پر دُعا میں جید صحابہ کرام ؓ کی شان میں گستاخی کر کے کیا گیا جو کئی ٹی وی چینلز جو ریٹنگ کی محبت میں جلوس کو براہ راست دکھا رہے تھے اُن سب پر نشر ہوا ۔شور مچا تو پیمرا نے مذکورہ چینل کا لائسنس معطل کر دیا ۔ چینل نے معافی بھی نشر کی کہ اُن کے عملے کو عربی میں دعا سمجھ نہیں آئی اسلیے وہ نشر ہوگیا اُن کی نیت ایسی نہیں تھی۔مذکورہ واقعہ پر متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی اور جماعت اسلامی کے سندھ اسمبلی میں منتخب رکن سید عبد الرشید نے مذمتی قرارداد بھی جمع کرائی۔تاہم مزید کچھ نہیں ہوا بلکہ شیعہ سنی بھائی بھائی فارمولا ’مسلمان مسلمان بھائی بھائی ‘ کے ہیش ٹیگ کو ٹوئٹر ٹرینڈ کی صورت چلانے کی ایک کوشش کی گئی ۔اتحاد امت، جاگ مسلم جاگ، عقیدے بعدمیں دیکھیں گے پہلے ثابت کرو کہ انسان ہو، شیعہ سنی ایک ساتھ تکفیری خالی ہاتھ، کوئی شیعہ سنی نہیں سب مسلمان ہیں، محبتیں پھیلائیں، سب کا احترام کریں ،اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو جیسے نعروں کو بنیاد بنایا گیا تھا۔مگر بات یہ ہے کہ ’کراچی میں تبت سینٹر پر واقعہ عاشورہ کے جلوس میں مائیک پر بدترین حرکت کرنے والے جانتے ہیں کہ مدمقابل، بریلوی، دیو بندی، اہل حدیث و دیگر ٹکڑوں میں اِس طرح بٹے ہوئے ہیں کہ کسی ایک کی قیادت یا امامت میں کبھی جمع نہیں ہونگے۔ اس کا ٹریلر وہ کورونا ایام میں مساجد و نماز پر پابندی کے ایس او پی کی صورت بھی دیکھ چکے ہیں اس لیے صرف چینل معطل کرنے والی لالی پاپ سے ہی گزارا کرنا ہوگا۔
بات رُکی نہیں ، سوئیڈن کے مرکزی شہر مالمو میں ایک اسلام مخالف تنظیم کے ارکان نے منصوبہ بندی کے تحت قرآن مجید کی بے حرمتی کے 2واقعات کیے۔پہلے میں تو باقاعدہ پولیس کے حصار میں ان افراد نے مرکزی چوک پر قرآن مجید کے نسخے کو (معاذ اللہ )روندا ۔ اس کے بعد پھر اگلے روز صبح کے وقت ایک پارک میں جا کر قرآن مجید کے نسخے کو نذر آتش کیا ۔ ان سب کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلائی گئیں تاکہ من پسند نتائج حاصل ہوں۔ مسلمانوں نے اطلاع ملنے پر جامع رد عمل دیا اور پولیس حکام و انتظامیہ کو سخت متنبہ کیا کہ اس قسم کی حرکات کی اجازت دینا وہاں مقیم مسلمانوں کو سخت تکلیف کا باعث ہے ۔ پولیس نے کسی ہنگامی یا پر تشدد صورتحال سے بچنے کے لیے کارروائی کی اور اُن کے جلسہ کے ایک مرکزی مقرر کو اسلام مخالف ریلی میں خطاب کرنے سے روک دیا۔تاہم چند نوجوانوں نے اپنے جذبات اور پولیس سے بدلہ لینے کا اظہار ہلکی پھلکی ( ہمارے مطابق)سختی سے کیا۔اسلاموفوبیا کی منظم تحریک کا آغاز ڈنمارک کے ایک ناکام وکیل اور نئے سیاست دانRasmus Paldon نے کیا۔
یہ مسلمانوں کو وحشی اور اسلام کو پتھروں کے دور قرار سے کر قرآن اورآقا صلی اللہ وسلم کی مسلسل توہین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یوں کہہ لیں کہ اسلام دشمنی میں یہ بھی مغرب کا نمائندہ ہے۔جسے مشہور ہونے کے لیے اسلام کا سہارا لینا پڑا ۔ مغربی ممالک کی سیاست میں ہماری طرح پانی، بجلی، سیوریج والے مسائل نہیں ہیں یہاں کی سیاست کے ایشوز دوسرے ہیں ۔ انہی میں سے ایک ایشو یورپ میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی کو پورے یورپ، مغربی تہذیب کے لیے خطرہ بنا کر پیش کرنا بھی ہے ۔اس لیے مغربی تہذیب کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے عقائد کی توہین کو برداشت کرنے کی عادت ڈال لیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام مسلمان ابھی اتنا’مہذب‘نہیں ہوا کہ قرآن یا اپنے آقا کی توہین برداشت کرسکے۔توہینِ قرآن کو ابوغریب، گوانتا نامو بے، بگرام اور دوسری جگہوں پر مستقل ہتھیار کے انداز میں استعمال کیا گیا ہے، یعنی جب روایتی تشدد سے بات نہ بنے تو توہینِ قرآن و رسول ﷺ کا حربہ استعمال کیا گیا۔
مغرب میں ویسے بھی سزائے موت کا قانون نہیں ہے ، نام نہاد انسانی اقدار کے نام پر ۔ نیوزی لینڈ میں 51مسلمان شہید کرنے والے انہا پسند کرائسٹ چرچ دہشت گرد کی سخت ترین سزا ’ عمر قید‘ کی صورت ہم نے پچھلے ہفتے ہی دیکھی ۔اسی طرح کوئی بھی کتاب جلانے یا اُس کو روندنے کے خلاف بھی یورپ میں کوئی قانون نہیں۔ اسلیے پولیس صرف ہنگامہ آرائی یا نقص امن کی خاطر کچھ چیزوں کو روک سکتی ہے یا جگہ بدل سکتی ہے اور کچھ نہیں کر سکتی ۔سوئیڈن میں مسلمان مظاہرین کے احتجاج پر ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا RiotsinSweden کمال دیکھیے کہ اس کو ’بلوہ ‘کا نام دے دیا گیا ۔ اس ہیش ٹیگ کے ذیل میں دیکھا تو حیرت ہوئی کہ بھارت نے اپنے مسلم مخالف RSS نظریات کو اس حد تک عوام میں ٹھونس دیا ہے کہ#SwedenRiots کے ہیش ٹیگ تلے بھارتی میڈیا اور کٹر ہندو ذہنیت کے افراد مسلمانوں کو تضحیک کے ساتھ متشدد ہونے ، مذہبی جنونی ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ویڈیو میں جبکہ سب دیکھ رہے تھے کہ پولیس موبائل پر لات مارنے والے چند ہی نوجوان تھے ، جبکہ سوئیڈن میں مسلمانوں کی آبادی 8فیصد کے قریب ہے ، جس میں پاکستانی، ترک، عرب سب شامل ہیں ۔ اگلے دن معاملہ ناروے جا پہنچا اور وہاں بھی پہلے اُسی تنظیم جس کا نام SIAMیعنی Stop Islamization in Europe ہے
نے احتجاج رکھا اور ایک شریک خاتون نے قرآن مجید کی سرعام بے حرمتی کی ۔ وہاں بھی مسلم آبادی نے اس پر احتجاج کیا۔ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا مگر اُس میں بھی صرف بھارتی لابی ہی چھائی رہی۔ پاکستان میں اُس وقت عاشورہ والا ایشو، برسات و کراچی کی تباہی کے موضوعات جاری تھے۔دُنیا بھر میں مسلمانوں کو متشدد اور مذہبی جنونی ثابت کرنے کے لیے بھارتی سوشل میڈیا و الیکٹرانک میڈیا سوئیڈن واقعہ کو بنیاد بنا کر، اپنے ملک میں ہونے والے مختلف احتجاج بابری مسجد، شہریت قانون سے لے کر حالیہ دنوں بنگلورو میں ہونے والے احتجاج سے جوڑ کرمسلمانوں کو متشدد، انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کرنے پر تلے ہیں مگر صرف ادھوری معلومات بتا کر۔تمام ویڈیوز و تبصروں میں قرآن مجید کی بے حرمتی کو معمولی بتا کر یا یہ بول کر کہ ہمارے دیوی دیوتاؤں کو بھی تو برا بولا جاتا ہے مگر ہندو امن پسند ہیں ، کچھ نہیں کرتے۔
اب اِس کے بعد فرانس کی باری تھی تو ملعون رسالے چارلی ہیبڈو نے اپنے کارٹونسٹوں کی یاد میں جنہیں غیرت مند مسلمانوںنے انجام تک پہنچایاتھا اُن کے نام سے دوبارہ وہی حرکت کی اور نبی کریم ﷺ کے خاکے چھاپ دیے۔ اب اظہار آزادی رائے کے نام پر کیا جائے یا کسی بھی عنوان سے رد عمل تو یقینی ہے۔ اس پر سب سے پہلے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر تحریک لبیک پاکستان نے سب سے پہلے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ۔ لوگوں نے متوجہ کیا کہ ،’’اگر کافر کافر اور گستاخ صحابہ والے ایشو سے تھک گئے ہیں تو سنیں: ”فرانس کا میگزین ”چارلی ہیبڈو” ایک بار پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے چھاپ چکا ہے۔’اب فرانس کی ایمبسی کے سامنے احتجاج ھو گا یا بس آپس میں کافر کافر کھیلناہے۔جتنے پاکستانی فرانس میں ہیں ان سب کو چاہیے چارلی ہیبڈو کے خلاف احتجاج کریں.ورنہ اُن سب کی پاکستانی شہریت منسوخ کر دیں۔ایسے گستاخانہ مواد کو برداشت کرنے والوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں اور جتنا پیسہ فرانس سے پاکستان آتا ہے اس سب پر بھی پابندی لگا دیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی وجہ سے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے، اپنی اورحکومت کی طرف سے فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈوکی پرزور مذمت کرتاہوں،حکومت پاکستان نے حکومت فرانس کو اپنی تشویش کر دیا ہے۔‘پنجاب اسمبلی میں بھی قرارداد جمع کرا دی گئی ۔
اب ذرا ایک نظر اُن اسلام مخالف مظاہروں کی جو امریکہ تا یورپ مغربی ممالک میں منظم انداز سے منعقد ہوئے۔ ان سب تنظیموں کے مقاصد میں یہ بات واضح کہی، لکھی گئی ہے کہ ہم اپنی Western Civilization مغربی تہذیب کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔ایک اور اہم بات میں نے چند خبروں کی سُرخیوںمیں جمع کیں اور سالوں کی ترتیب کے ساتھ پیش کر رہا ہوں؛آپ بھی سرخیاں نوٹ کیجیے ، طوالت کی وجہ سے مکمل جانبدار خبریں نہیں ڈالیں مگر آپ سُرخی کو گوگل کر کے مکمل خبر باآسانی پڑھ سکتے ہیں ۔آپ سالوں کی ترتیب اور مقامات نوٹ کیجیے ۔
-AntiIslam rallies held across Melbourne Australia: 2015
-by PEGIDA German antiIslam Rally hits record numbers: 2015
-Armed Anti Islam Protesters Rally At Phoenix Mosque,US: 2015
USA: Armed protesters stage anti-Islam rally in Texas: 2016
-AntiMuslim rally outside Toronto mosque as possible hate crime: 2017
-Farright antislam rally met with huge counter-Demo in Edinburgh: 2017
-AntiIslam rallies in Berlin on Xmas market attack: 2018
Democratic Football Lads Alliance protest in Sunderland against Muslim grooming gangs has turned violent. 2018
Thousands Protest Islamophobia in France: 2019
یہ سلسلہ اس لیے تواتر سے بھی جاری ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے ایسی تنظیموں اور اداروں کے لیے خصوصی فنڈنگ کی جاتی ہے ۔ اس فنڈنگ کے ساتھ ساتھ یہ سب افراد دُنیا بھر میں سستی شہرت پاتے ہیں ہمارے پر تشدد احتجاج کی وجہ سے کیونکہ باقی عوام تک تو آدھی بات پہنچتی ہے اصل بات تو پہنچتی ہی نہیں کہ یہ مسلمان کیوں بپھرے ہوئے ہیں ۔ اب اگر کسی کو بتا بھی دی جائے کہ وہ اسلیے ناراض یا غصہ میں ہیں کہ اُن کی مذہبی کتا ب کو جلا دیا گیا کیونکہ اُس میں لکھا ہے کہ ’غیر مسلموں کو قتل کر دو‘ تو اب آپ اندازہ کرلیں کہ وہ کیا سوچے گا۔ یورپ ہو یا امریکہ وہ اپنے مذہب سے خود بڑی حد تک دور ہیں ، وہاں تو چرچ فروخت کر دیئے جاتے ہیں کہ لوگ نہیں آتے تو ایسے میں وہ کیا کسی اور کے مذہبی جذبات کی قدر کر سکتے ہیں ۔ اسلیے مسلمانوں کی یورپ میں موجودگی کو با آسانی خطرہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے ۔ مغرب اس کے ذریعہ کئی فوائد سمیٹتا ہے ۔ اب بات ساری یہی ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر غصہ نکال رہے ہیں ، جبکہ دماغ سے سوچنے والی بات یہی ہے کہ اُن کے قوانین میں تبدیلی اور متعلقہ حکومتوں تک ، سفارتی تعلقات سے اس احتجاج کو، غم و غصہ کو ریکارڈ کرایا جائے ۔ اس کا ہی فائدہ ہوگا وگرنہ ۔۔ اسلیے ہم کچھ ای میل اور ویب سائٹ اپنے مضمون میں شامل کر رہے ہیں کہ آپ ضرور اپنا احتجاج اور مطالبہ ان افراد کو لکھ کر بھیجیں ۔ یہی ایمانی غیرت کا تقاضہ ہے ، یہی فائدہ مند سوشل میڈیا سرگرمی ہوگی۔ یورپی یونین کے عہدیداران کو لازمی لکھیں ۔
https://europa.eu/،
سوئیڈن حکومت کو بھی www.government.se/
سوئیڈن ایمبیسی میں
ambassaden.islamabad@gov.se،
سوئیڈن حکومت کے نام
statsradsberedningen.registrator@gov.se،
ناروے کے وزیر اعظم کو postmottak@smk.dep.no ،
فرانس ایمبیسی
ambafrance.islamabad-amba@diplomatie.gouv.fr ،

حصہ