محرم الحرام۔۔۔ صبر و شکر کا مہینہ

ماہ محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک سے اسلامی سال کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ ماہ مقدس گوں ناگوں فضائل و خصائص کی بنا پر منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینے کی تقدیس و عظمت ابتدائے آفرینش سے ہے۔ اس مہینے کی عظمت و رفعت کا اندازہ ان حوادث و واقعات سے لگایا جا سکتا ہے جو اس ماہ مقدس سے وقوع پذیر ہوئے۔ اسلامی تاریخ میں بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے زمین‘ آسمان‘ پہاڑ‘ سمندر‘ لوح و قلم‘ جبرئیل امین اور دیگر فرشتوں کو پیدا کیا۔ اسی مہینے میں سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی مہینے میں ان کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی ماہ مقدس کے پہلے عشرہ میں سیدنا نوح علیہ السلام کو طوفان سے نجات عطا ہوئی۔ یہی وہ مقدس مہینہ ہے کہ جس میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر آتش نمرود کو گل گلزار بنایا اور اسی مہینے میں فرعون غرق آب ہوا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اس کے ظلم و تشدد سے نجات ملی تھی۔
یہی وہ ماہ مقدس ہے کہ جس میں سیدنا یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ سے رہائی عطا فرمائی اور اسی مہینے میں سیدنا ادریس علیہ السلام مکان علیا میں پہنچے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں سیدنا ایوب علیہ السلام اٹھارہ سال کی بیماری سے شفا یاب ہوئے اور اسی مہینے میں سیدنا دائود علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کو سلطنت ملی تھی۔ اسی عاشورہ محرم میں اللہ رب العالمین عرق پر مستوی ہوا اور اسی مہینے میں قیامت کا عظیم حادثہ برپا ہو گا۔
(ملخص الحدیث از غنیۃ الطالبین مصنفہ سید الطائفہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ)
اس حدیث سے محرم الحرام بالخصوص پہلے عشرے کی اہمیت ثات ہوتی ہے۔ ماہ محرم الحرام کی اہمیت سورۃ توبہ کی آیت کریمہ سے واضح ہوتی ہے ۔جس میں اللہ رب العالمین نے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے اور چار مہینوں کی حرمت و بزرگی کا اعلان فرمایا۔ ماہ محرم الحرام حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس ماہ مقدس کی حرمت وعظمت نہ صرف اسلام بلکہ قبل از اسلام بھی مسلم تھی۔ چنانچہ اسلام سے پہلے کے لوگ عاشورہ محرم کا روزہ رکھتے تھے اور اس کے اختتام پر عید کی طرح خوشیاں مناتے تھے۔ ابتدائے اسلام میں عاشورہ محرم کا روزہ فرض تھا البتہ جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تب عاشورہ محرم کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکن استحباب کا درجہ باقی ہے‘ جس کا جی چاہے رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر رحمۃ للعالمینؐ تک تمام انبیاء و رسل کا ایک ہی دین تھا اور وہ اسلام ہے۔ لہٰذا جب انبیاء کرام کا تذکرہ ہوتا ہے تو وہ اسلام ہی کا ذکر خیر ہوتا ہے ۔اس لیے اسلامی تاریخ میں عاشورہ محرم الحرام کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام تک بے شمار انبیاء و رسل کی زندگیوں میں اس ماہ مبارک کی مناسبت سے عظیم واقعات کا تسلسل موجود ہے‘ کہ اس کائنات کو خالق و مالک نے اسی مقدس مہینہ میں تخلیق فرمایا۔ سب سے خوبصورت تخلیق انسان کو پیدا کیا اور جب ابوالبشر آدم علیہ السلام نے فطری تقاضوں سے مغلوب ہو کر نادانی کی اور جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیے گئے تو خو ب گڑگڑا کر اپنے رب سے معافی کے طلب گار ہوئے اور اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ اسی طرح اللہ نے تمام فرشتوں‘ زمین‘ آسمان‘ پہاڑ‘ سمندر وغیرہ تخلیق فرمائے کہ جن سے حضرت انسان استفادہ کرتا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے خوبصورت دنیا تخلیق فرمائی لہٰذا یہ ماہ مقدس اپنے رب کی ان نعمتوں کی تخلیق و بخشش پر شکر گزاری کا مہینہ ہے۔ اگر کائنات پر غور و فکرکیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خالق و مالک نے ہماری دل بستگی اور آرام و راحت کے ساتھ ساتھ نفع و استفادے کے لیے ہمہ صفت کہکشائیں تخلیق فرمائی ہیں اور ایک حسین و جمیل گلدستہ سجا کر پیش کر دیا‘ تاکہ ہم ان نعمتوں پر اس کا شکر بجا لائیں اور جتنا بھی احسان مانیں وہ کم ہے‘ اور ماہ محرم الحرام اللہ کی نعمتوں اور بخششوں کے اظہارکا ماہ تمام ہے۔
ماہ محرم الحرام کی اہمیت کا اندازہ ان عظیم واقعات سے بھی ہوتا ہے جومختلف انبیاء و رسل اور ان کی امتوں کے ساتھ پیش آئے۔ چنانچہ تاریخ و سیرکی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام اسی مہینے میں تولد ہوئے اور اسی مہینے میں دعوت توحید کی پاداش میں سیدنا خلیل اللہ کو آتش نمرود میں دھکیلا گیا تو وہ اللہ کے حکم سے نہ صرف ٹھنڈی ہو گئی‘ بلکہ سلامتی والی بن گئی۔ اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی اور وہ غرق نیل ہو کر دنیا کے لیے سامان عبرت بن گیا اور آج بھی اس کی حنوط شدہ لاش مصر کے عجائب گھر میں درس نصیحت کے طور پر موجود ہے ۔ ان کے علاوہ سیدنا یونس علیہ السلام کو اللہ نے مچھلی کے پیٹ سے نکالا‘ ادریس علیہ السلام مکان علیہا میں پہنچے اور ایوب علیہ السلام شفایاب ہوئے اوردائود علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی‘ سلیمان علیہ السلام کو عظیم سلطنت عطا ہوئی اور اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے کائنات تخلیق فرما کر عرش معلیٰ پر قرار پکڑا اور اسی مہینے میں قیامت کا زلزلہ برپا ہوگا اور یہ تمام کائنات انجام کار کے طور پر تباہ و برباد ہو جائے گی اور بعد ازاں روز محشر میں حساب و کتاب ہو گا۔ جنت و جہنم کو آراستہ کیا جائے گا اور جو جس کا حق دار ہو گا اسے وہاں پہنچا دیا جائے گا۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مہینے کی کیا اہمیت ہے۔ قبل از اسلام بھی حرمت والے مہینوں کا بڑا احترام کیا جاتا تھا اور عرب جہالت کے باوجود ان مہینوں میں جنگ و جدال اور قتل و غارت گری سے باز رہتے تھے‘ البتہ وہ ان مہینوں میں تاخیر و تقدیم کر کے اپنی مطلب برآری کر لیتے تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں وضاحت فرما کر پورے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمادیے اور حرمت والے مہینوں کی تعیین بھی فرما دی جو ابتدائے آفرینش سے اسی ترتیب سے تھے اور ماہ محرم الحرام حرمت والے مہینوںمیں سے ایک ہے۔ اس مہینہ کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے ۔
چنانچہ حدیث میںہے کہ جب رحمت عالمؐ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ محرم کاروزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہماری نجات کا دن ہے ۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی‘ اس دن سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ آپؐ نے فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت رکھنے کے حق دار ہیں اس لیے آپؐ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری و مسلم)۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا! رمضان المبارک کے بعد محرم الحرام کا روزہ رکھنا زیادہ افضل ہے۔ (مسلم)۔
اسی طرح فرمایا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھنے سے اللہ تعالیٰ ایک سال کے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ (مسلم)۔
رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد آپؐ نے اعلان فرمایا کہ اب عاشورہ کا روزہ فرض نہیں۔ جو چاہے رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ لیکن آپؐ نے خود رکھا۔ یہودیوںکی مشابہت سے بچنے کے لیے آپ نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ زندہ رہا تو محرم کی نویں اور دسویں کا روزہ رکھوں گا مگر آئندہ سال آپؐ محرم کے آنے سے پہلے خالق حقیقی سے جا ملے۔ لیکن یہ حکم باقی رہا اور صحابہ کرام ؓ نے عمل کیا‘ لہٰذا نویں دسویں یا دسویں گیارہویں دودن کا روزہ رکھنا چاہیے۔
چنانچہ رحمت عالمؐ نے فرمایا: عاشورہ کا روزہ رکھو یہودیوں کی مخالفت کرو دسویں کے ساتھ ایک دن اور روزہ رکھو‘ چاہے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد ہو۔ (احمد)۔
اسلامی طریقہ غم و خوشی یہ ہے کہ ہر حال میں اپنے رب سے تعلق استوار رکھا جائے اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کا شکر اور مصائب و آلام پر صبر کیا جائے۔ اور ہر دو موقعوں پر نماز‘ ذکر و اذکار‘ صدقہ و خیرات اور دیگر نیک کام کیے جائیں جو شریعت نے واضح فرمائے ہیں۔ یقینا اس طرح اللہ کو راضی کیا جاسکتا ہے اور محرم کا مہینہ ہمیں اسی کا درس دیتا ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ عشرہ محرم الحرام میں نو دس یا دس گیارہ تاریخ کے روزے رکھے جائیں اور فرما ن مصطفیؐ کے مطابق دستر خوان وسیع کیے جائیں اور اللہ کے مفلوک الحال بندوں کے ساتھ خیر خواہی کی جائے اور نمازوں ذکر و اذکار وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ اس کے برعکس غیر مسنون اعمال سے اجتناب برأت کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کوکتاب و سنت کے مطابق شکر و صبر کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقی طور پر دین پر عمل پیرا ہونے کی سعادت نصیب فرمائے۔
آمین یا رب العالمین