سائنس کے امام

388

موجودہ دورسائنس کی ترقی کا دورہے ہماری اجتماعی زندگی ہو یا انفردی زندگی، سائیسی آلات اور مشنری ہماری زندگی کی ضرورت اور لازمی حصہ بن چکی ہیں۔ سائنس کا یہ علم کیسے پروان چڑھا،ان کےپروان چڑھانے میں کن کن شخصیات نے اپنا کردار اداکیا، یہ ایک اہم سوال ہے سائنس کو ترقی کے درجات عطا کرنے میں مغرب کے سائنس دانوں نے اپنا حصہ ڈالا مگر اس علم کی بنیاد بوے جانے والے بیج کاسہرا مسلمان سائنس دانوں کے سرہے، ایسے ہی چند نامور سائنس دانوں کی زندگی کے بارے میں جانتے ہیں جن کاکام موجودہ سائنسی ترقی کے لیے پہلا قدم ثابت ہوا۔

احمد بن محمد علی(ابن سکویہ)۔

تقریبا ایک ہزار سال پہلے 1032ءمیں ’’رے‘‘کے علاقے میں ابن سکویہ نے آنکھ کھولی ۔ ابن سکویہ بہت بڑا دانشور تھا۔اپنےابتدائی دورمیں بالکل گم نام رہامگر جب اس نے علمی دنیامیں قدم رکھا تو بڑے بڑے کارنامے انجام دیے۔ ابن سکویہ کی تعلیم کسی معمولی مدرسے سے ہوئی۔جوانی کے ابتدائی دور میں ابن سکویہ آزاد زندگی گزارنےلگا مگر تھوڑے عرصے بعد روزی کمانے کی فکر ہوئی تو اسے کیمیا گری سے دلچسپی ہوئی اور سونا بنانے کی فکر میں اس نے اپنا بہت وقت برباد کیا۔ مگر جب مطالعے اور خاصے غور وفکر کےبعد بھی وہ کسی طرح سونابنانے کے قابل نہ ہو سکا تو اس کی ناکامیوں نے اسے جھنجوڑا اور اس میں زندگی کا شعور جاگ اٹھا۔ابن سکویہ نے زندگی کے اعلیٰ مقصد کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ انسان کی زندگی کا عظیم مقصد ’’ سعادت‘‘حاصل کرناہے۔ ابن سکویہ کا چرچا چاروں طرف پھیلا تو دربار سے وزارت اعظمیٰ کی پیش کش کی گی جو کہ اس نے قبول کرلی اورنہایت ذمہ داری سے اداکی۔ اس کی ذمہ داری سے متاثرہوکر ایک اور امیرنے وزارت کا عہدہ پیش کیاتو ابن سکویہ نے یہ کہے کر معافی چاہی کہ میری علمی مصروفیات بہت زیادہ ہیں اورمیرامکتبہ اتنا بڑاہے کہ صرف میری کتابوں کو لانے کے لیے چار سو اونٹ کی ضرورت پڑے گی۔ابن سکویہ کسی ایک علم کاماہر نہیں تھا۔ وہ علم نباتات، علم سماجیات، علم نفسیات کا ماہرتھا اس کے علاوہ دیگرعلوم پر بھی گرفت تھی۔ ابن سکویہ کو یہ اعزاز حاصل ہےکہ اس نے نباتات حیوانات اورانسانیت کے ارتقائی عمل کے بارے میں نظریہ پیش کیا اور اسی نظرے پر ڈارون نے اپنی تھیوری پیش کی تھی ابن سکویہ نے 99سال عمر پائی۔

جابر بن حیان

813ءمیں پیداہونے والے کیمیا کے ماہر جابر بن حیان کو کیمیاکا ’’باوا ادم‘‘ تسلیم کیا جاتا ہے۔جابر پہلا سائنس دان اور دانشور ہے جس نے علم کیمیا میں تجربات کو اہمیت دی۔اس کی کہانی کچھ ایسی ہے کہ یہ ایک غریب اور معمولی گھرانے کا لڑکا تھا۔خاندانی پیشہ دوایں بیچنا تھا۔جابر کے باپ کو کسی جرم میں پھانسی ہو گی اس کی تعلیم تربیت کا بوجھ اس کی ماں ان پڑا تھا کم عمری میں جابر کو کوفہ کے باہر دیہات میں بھج دیا گیا وہ دیہات میں آزادانہ زندگی گزار کر جوان ہوا پھر کوفہ واپس آگیا جابر کی طبیعت میں تلاش اور جستجو تھی۔اب اس کے سر سونا بنانے کاجنون سوار ہوگیا گھر تجربہ خانہ بن گیا اس نے کیمیا گری کی دھن میں دواوں کی خاصیت معلوم کرنا شروع کردی وہ مختلف قسم کی دھاتوں لیکر جڑی بوٹیوں سے ملاتا رہتا تجربات کی دھن نے اسے علم کیمیا کاموجد بنادیا اس کے تجربات کی شہرت اتنی زیادہ ہوئی کہ ہارون رشید نے اسے دربای بنالیا جابر نے فلٹر بنانے کاطریقہ بتایا اور تیزاب ایجاد کیا ۔جابر نےبتایاکہ لوہےکو زنگ سے کیسے بچایاجائے ۔خضاب کا نسخہ بھی جابر نے ایجاد کیا۔
(جاری ہے)

حصہ