کراچی سے بیر کیوں۔۔۔۔؟۔

613

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں مے میرے صحن میں رستے بنا لیے

کراچی سے بغض و عناد‘ نفرت اور کدورتوں کا موجودہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ یہ نفرت‘ عناد اور بغض سال ہا سال سے کراچی کے شہری بھگت رہے ہیں۔ کبھی کوٹا سسٹم‘ کے نام پر کراچی کے شہریوں اور نو جوانوں کی نوکریوں پر ڈاکا مارا جاتا ہے تو کبھی سرکاری نوکریوں میں اندرونِ سندھ سے سرکاری ملازمین کو کراچی کی خالی نشستوں سے عارضی طور پر بھرتی کرکے ان کی جگہ سندھ میں خالی ہونے والی نشستوں سے دوبارہ اپنی مرضی اور پرچی کے افسران کو بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کے دور سے شروع ہونے والی نفرت کی یہ دیوار اس قدر دبیز ہو چکی ہے کہ اب عالم یہ ہے کہ کراچی کے نوجوان سرکاری نوکریوں پر دکھائی ہی نہیں دیتے۔
آخر یہ ظلم کب تک چلتا رہے گا؟ اور بھٹو صاحب کا معاملہ کیا تھا؟ 180 نشستیں تو پورے ملک میں شیخ مجیب الرحمن نے جیتی تھیں۔ بھٹو صاحب نے صرف مغربی پاکستان سے 80 نشستوں پر (غالباً) کامیابی حاصل کی تھی۔ جب کہ ایوب خان کو ’’ڈیڈی‘‘ کہنے اور چاپلوسی کی جزا پانے پر شیخ مجیب الرحمن کو غدار ثابت کروا دیا اور خود مغربی پاکستان کے حکمران بن بیٹھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں ’’اِدھر تم اُدھر ہم‘‘ کا نعرہ خود بھٹو اور ان کے حواریوں کا تخلیق کردہ تھا۔
اس نفرت کی سیاست میں متحدہ پاکستان ایسی تیسی تو ہوئی مگر جو حشر اردو زبان کے ساتھ ہوا اس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
اردو بولنے والے مشرقی پاکستان میں بھی قابلِ تعزیر ٹھہرے اور مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب نے کوٹہ سسٹم کو نافذ کرکے اردو بولنے والوں کو اچھوت بنا دیا۔ وہ سندھ میں نفرت کی سیاست کا تسلسل تھے‘ وہ نفرت جو بھٹو صاحب سے پہلے سندھ نیشنلسٹ رہنمائوں نے بوئی تھی‘ بھٹو صاحب نے اپنے اقتدار کے دوام کے لیے اسی نفرت کی فصل کو پروان چڑھایا۔
اس نفرت اور تعصب کے بطن سے اردو زبان اور سندھی زبان کو آپس میں متصادم کروانے کے بعد مہاجروں کے نام سے ایک نیا بت تراشا گیا۔ اس نئے ’’سومنات‘‘ میں بھی مہاجروں کے حقوق کے نام پر مہاجروں‘ دوسرے الفاظ میں اردو بولنے والوں کا ہی استحصال ہوا۔ نہ ہی سرکاری نوکریوں میں ان کے لیے جگہ رکھی گئی اور نہ ہی کوٹا سسٹم کے کالے قانون کو ختم کیا گیا۔ اگر ماضی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ پہلی مرتبہ کوٹہ سسٹم بیس سال کے لیے لگایا تاکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے طلباء کو پسماندگی سے نکال کر انہیں تعلیمی سہولیات فراہم کی جاسکیں اور وہ دیہی علاقوں کے طلباء شہری علاقوں کے طلباء کے ساتھ مقابلے کی پوزیشن پر آسکیں۔
مگر بیس سال میں چور حکومتوں نے کوئی تعلیمی پالیسی وضع نہیں کی اور پھر ضیا الحق نے دیہی سندھ کو خوش رکھنے کے لیے مزید دس سال کی توسیع کردی۔ یہی عمل نواز شریف نے اپنی حکومت میں کیا۔ انہوں نے بھی پارلیمنٹ میں لائے بنا اس کالے قانون میں مزید توسیع کردی اب جب کہ اس کو ختم ہو جانا تھا‘ آخری کیل ’’تبدیلی کے سرخیل عمران خان‘‘ نے اس دیوار برلن کو کراچی کے سر پر ہمیشہ کے لیے نافذ کر دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی شب خون ہی مارا گیا اور بالا بالا ہی اس قانون کی کچھ شقوں میں ترمیم کرکے اس سسٹم کو برقرار رکھا گیا ہے۔
کراچی کے شہری ایک عذاب سے نکلتے نہیں کہ دوسرا عذاب سر اٹھائے کھڑا ہوجاتا ہے۔
پہلے اردو زبان کے نام پر اپنا سب کچھ ’’اپنوں کے حوالے‘‘ کرنے کے بعد:۔

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

کے مصداق معلوم ہوا کہ ’’کوٹا سسٹم کی کالی گھٹا‘‘ کو دوام دینے میں ان کی بائیس قومی اور تمام صوبائی نشستوں کے ووٹ بھی شاملِ گناہ تھے۔
پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ ‘متحدہ قومی موومنٹ اور اب تحریک انصاف ’’باہمی مفاہمت‘‘ کے تحت لوٹ مار کے پروگرام میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ سانجھے کی یہ ہانڈی اس وقت تو زوروں پر ہے۔ سب کی تمام انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے ابھی تو:۔

یہ صرف گنتی کے چار دن ہیں
بڑے مزے آرہے ہیں صاحب
ابھی تو یہ خاک ہو رہے گا
جو جسم چمکا رہے ہیں صاحب

یہ خوب صورت شعر اجمل سراج صاحب کا ہے۔ اور پوری غزل ہی سننے اور سنانے سے تعلق رکھتی ہے اس کا ہر مصرع موجودہ حالات کی مکمل عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
کراچی کا قصور یہ ہے کہ اس نے جس پر اعتماد کیا ’’دل‘‘ سے کیا۔ مہاجروں کے نام پر دھوکا بھی دل سے کھایا۔ عالم یہ تھا کہ تعصب کی آگ میں میرپور خاص‘ حیدرآباد‘ کراچی ان تینوں شہروں سے تمام قومی اور صوبائی نشستیں متحدہ کی جیب میں تھیں مگر کیا حاصل ہوا؟
کوئی نیا تعلیمی ادارہ؟ کوئی نیا اسپتال؟ کوئی نئی یونیورسٹی؟ کوئی نئی ٹرانسپورٹ؟ ہاں چنگچی کلچر ضرور متعارف ہوا۔ ’’ٹی وی اور وی سی آر بیچو اور اسلحہ خریدو‘‘ کے نام پر خوب مال بنایا گیا۔ جس کی مثال بابر غوری‘ مصطفی کمال‘ فاروق ستاراور بے شمار دوسروں کی صورت مل جاتی ہے۔
چلیے ماضی کو چھوڑیے‘ آج کی بات کرلیں۔ تبدیلی اور انصاف کے ٹھیکیداروں نے کراچی کے لیے کیا کیا؟ برسات‘ قدرتی آفات اور برے وقت وبائی امراض اور کورونا میں ان سب کا کیا کردار رہا؟ آپ کو سب کچھ معلوم ہے مگر کراچی کا المیہ تو جون بھائی کہہ گئے کہ:۔

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
زباں پہ پڑ گئے ہیں چھالے کیا‘‘

آج متحدہ کے میئر رونا دھونا مچا کر گئے۔ فائلیں (سرکاری) زمین پرمار کر ٹسوے بہاتے رہے کہ ’’میرے پاس اختیارات نہیں تھے‘ میں کیا کرتا؟‘‘
ان کے یہ رنگ ڈھنگ صرف ان کے نہیں ہیں بلکہ ان کے جو ’’بڑے‘‘ تھے اُن سب کے رنگ ڈھنگ ایسے ہی تھی‘ اس میں ایسا نیا کیا ہے؟
آج کی جنریشن کو جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی تو شاید یاد نہ ہوں مگر نعمت اللہ خان (بابائے کراچی) ناظم اعلیٰ بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ان کی خدمات تو یاد ہی ہوں گی۔
چار ارب روپے کے بجٹ سے بلدیہ عظمیٰ کا اختیار سنبھالا اور اسی میں لیاری ایکسپریس وے‘ نادرن بائی پاس‘ متعدد پل اور انڈر پاسز‘ اربن ٹرانسپورٹ کے پراجیکٹس میں 300 گرین لائن ائر کنڈیشن بسیں (جس کا کرایہ صرف بیس روپے تھا) عالم یہ تھا کہ گاڑیاں رکھنے والے ان بسوں میں سفر کرنے میں خوش محسوس کرتے۔ یہ بسیں کراچی کے پندرہ روٹس پر چلتی تھیں ان کے لیے شاندار بس اسٹاپ اور شاندار سہولتوں سے آراستہ بس ٹرمینل موجود تھا۔
کورنگی‘ شاہ فیصل طویل ترین پل‘ جناح برج کا عظیم پراجیکٹ یہ سب سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے تعاون سے یہاں تک کہ غیر ملکی حکومتوں کے تعاون سے کراچی کے شہریوں کے لیے فراہم کیا گیا۔
دل کے امراض کاجدید اسپتال گلبرگ اور عائشہ منزل اور تیس نئے کالجز‘ ایک یونیورسٹی اور ہر سہولت سے آراستہ دوسو فیملی پارکس‘ لائبریریاں‘ اسلامک ثقافتی سینٹر یہ سب کچھ نعمت اللہ خان مرحوم اور جماعت اسلامی کی ٹیم نے چار سال کی قلیل مدت میں کر دکھایا۔ یہ کراچی کے لیے تعمیر کراچی پروگرام کی بدولت ہوا۔ اس وقت کے جنرل پرویز مشرف نے بھی کہا کہ یہ نعمت اللہ خان کا برین چائلڈ پروگرام ہے اس میں کے پی ٹی‘ سول ایوی ایشن‘ اسٹیل ملز اور دیگر اداروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ کراچی سے صرف کمانے کی فکر نہ کریں بلکہ یہاں پر کچھ لگائیں بھی۔
نعمت اللہ خان جب میئر بنے تو کراچی بلدیہ کا بجٹ 4 ارب روپے تھا‘ آخری بجٹ 2005 میں 42 ارب سے زیادہ تھا۔ بظاہر یہ ناممکن لگتا ہے لیکن اگر نیت صاف ہو اور جماعت اسلامی کی مخلص ٹیم کا ساتھ ہوتو پھر یہ سب ممکن بھی ہو جاتا ہے۔
ایسا نہیں تھا کہ نعمت اللہ خان کو فری ہینڈ ملا ہوا تھا۔ ایم کیو ایم نے ہر ممکن رکاوٹیں ڈالیں‘ نالوں میں بوریاں اسی دور کی ایجاد اور ایم کیو ایم کا کارنامہ تھا تاکہ نعمت اللہ خان اور ان کی ٹیم کو رسوا کیا جاسکے۔
اگر کراچی کے عوام کے ووٹوں پر ڈاکا نہ ڈالا جاتا تو یہاں کے شہریوں کو کٹی پہاڑی پر ’’دامنِ کوہ‘‘ جیسا پراجیکٹ دیکھنے کو ملتا۔ ملیر ندی کے دونوں طرف باغات دیکھنے کو ملتے۔
2008 میں بلدیہ نے مصطفی کمال کے دور میں 72 بسیں چلائیں مگر 2013-14 میں پیپلز پارٹی نے وہ بھی بند کروا دیں۔
نعمت اللہ خان صاحب نے جو بجٹ چھوڑا وہ 200 ارب روپے سے زیادہ تھا جو مصطفیٰ کمال کے حصے میں آیا اسی کی بدولت انہوں نے نعمت اللہ خان صاحب کے پراجیکٹس کو آگے بڑھا کر اپنے نام کی تختیاں لگائیں ’’خیر ہو‘ سب چلتا ہے‘ یہ دھندا ہے پر گندا ہے۔‘‘
مگر مصطفیٰ کمال کا اصل کارنامہ تو چائنا کٹنگ ہے اور وہ ’’کٹنگ کنگ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
نعمت اللہ خان کی جماعت اسلامی نے پانی کا عظیم منصوبہ K-3 دیا‘ اس کے بعد K-4 منصوبہ دیا بجٹ تک رکھوایا مگر پیپلزپارٹی+ متحدہ مفاہمت نے سب کو کچھ ملیا میٹ کر دیا ۔

حصہ