مصلحت الٰہی برحق ہے

302

عزیر: ماسی آپ اریبہ کا خیال رکھیے گا، مجھے ضروری کام ہے، ایک گھنٹے میں آتا ہوں۔
ماسی: صاحب جی! اس کی طبیعت خراب ہے، یہ مجھ سے بھی نہیں سنبھلتی… میں نے دوپہر میں بھی بہت کوشش کی، اس نے بمشکل دو نوالے کھائے ہیں۔
عزیر: (سوچتے ہوئے) ٹھیک ہے، اس کو تیار کرو، میں راستے میں ثمینہ بہن کے پاس چھوڑتا جا رہا ہوں، منیب کا ٹیوٹر آئے گا، آپ خیال رکھیے گا۔
٭…٭
ثمینہ: بھائی تقریباً ایک سال ہوگیا ہے، بچوں کو ماں کی ضرورت ہے۔ آپ خود بھی پریشان رہتے ہیں۔ نہ کاروبار کی طرف توجہ دے پا رہے ہیں، نہ اپنا خیال رکھ رہے ہیں۔ شہلا اچھی لڑکی ہے، اس کی ماں کل بھی مجھ سے پوچھ رہی تھی… ہم سب چاہتے ہیں کہ آپ اپنا گھر دوبارہ آباد کریں، کہاں تک یہ بکھری بکھری زندگی گزاریں گے!
اماں: ثمینہ صحیح کہہ رہی ہے عزیر بیٹا… میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں، میں تو خود محتاجی کی زندگی گزار رہی ہوں۔ بچوں کو اور تمہیں دیکھتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
عزیر: (ماں کے دونوں ہاتھوں کو چومتے ہوئے) اماں… اب یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ نہ جانے دوسری عورت کیسی ماں ثابت ہو۔ میرا گھر تو شاید بس جائے لیکن میرے دونوں بچے…
ثاقب: بھائی معذرت کے ساتھ، آپ کے بچوں کی سگی ماں نے کیا برتائو کیا ہے ان معصوموں کو بیچ منجھدار میں چھوڑ کر… اسے آپ کی محبت اور نوازشوں کا احساس تو نہ تھا، کم از کم اپنے بچوں کا ہی خیال کرلیتی… کتنی منت سماجت کی آپ نے… وہ بے حیا عورت دوسرے مرد کی محبت میں گرفتار ہوکر آپ سب کو چھوڑ گئی، لوگ ہم سب سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کی بھابھی اپنے… محبوب کے ساتھ چلی گئی…
شرم آتی ہے ہمیں…
٭…٭
عزیر: لیپ ٹاپ پر اپنا کام کررہا تھا، دونوں بچے بڑی مشکل سے سوئے تھے۔ سیل کی گھنٹی سن کر وہ چونکا، گھڑی کی طرف دیکھا، رات کے بارہ بج چکے تھے۔ اللہ خیر کرے، اماں کی طبیعت تو خراب نہیں! اس نے فوراً فون (موبائل) کان سے لگایا… ”ہیلو السلام علیکم“… لیکن دوسری طرف سے آواز ندارد۔ خاصی دیر تک آواز نہ آئی تو اس نے اپنا سیل بند کردیا۔ نہ جانے اس وقت کون تھا…! حالانکہ لائن پر تھا… وہ انہی سوچوں میں تھا کہ ایک مرتبہ دوبارہ گھنٹی کی آواز کمرے میں گونجی… اس نے سیل کانوں سے لگایا۔ اس کے ہیلو کہنے پر چند ساعت دوسری طرف سے خاموشی رہی، پھر سسکیوں کی آواز اسے سنائی دی۔ یقیناً یہ سسکیوں کی آواز کسی خاتون کی تھی… ”کون ہیں آپ…؟ اور… اور… کیوں فون کیا ہے آپ نے؟“
دوسری طرف سے اب سسکیوں کے ساتھ گھٹی گھٹی رونے کی آواز آرہی تھی… اپنی بات کا جواب نہ پاکر عزیر سیل بند کرنے ہی والا تھا کہ دوسری طرف سے آواز آئی… یہ آواز کیا تھی اس کے لیے ایک دھماکے سے زیادہ تھی… ”نرمین، کیا تم نرمین ہو…؟“
سسکیوں کے ساتھ اس کی آواز آئی… ”ہاں… عزیر مجھے معاف کردو… میں تمہاری گنہگار ہوں۔ پلیز فون بند نہ کرنا… مجھے میرے گناہوں کی سزا مل چکی ہے، نہ پیروں تلے زمین رہی ہے اور نہ سر پر چھت۔ شاید میرے جیسی عورتوں کا یہی انجام ہوتا ہے، جس کے لیے میں نے تم سب کو چھوڑا وہ بھی میرا نہ ہوا…“ عزیر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا جواب دے۔ یہ وہی عورت تھی جس کو اس نے دل کی گہرائیوں سے چاہا تھا، اس کی زندگی میں آنے والی وہ واحد عورت تھی جو بے وفا نکلی… نہ صرف بے وفا بلکہ اس کی عزت کو سرِ بازار روند کر کسی اور کی بن گئی۔ اس نے ’’سیل‘‘ بند کرکے سائلنٹ پر رکھ دیا… نیند اس سے کوسوں دور تھی، کانوں میں اب بھی نرمین کی سسکیوں کی گونج تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس پر غصہ کرے، اس سے نفرت کرے یا رحم کرے…! کروٹیں بدلتے بدلتے صبح ہو گئی۔
٭…٭
بچوں کو اسکول سے لینے کے لیے وہ آفس سے نکلا۔ گھڑی دیکھی، چھٹی میں دس پندرہ منٹ تھے۔ اس نے سوچا کوئی بات نہیں، اگر کچھ دیر پہلے بھی پہنچ گیا تو انتظار کرلوں گا۔
اس کا اندازہ صحیح نکلا، جب وہ اسکول پہنچا تو چھٹی ہونے میں ابھی چھ سات منٹ تھے۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ وہ اپنے خیالوں میں گم تھا کہ اس کے ساتھ والا دروازہ (گاڑی کا) کھلا اور ’’وہ‘‘ اس کے برابر سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اس کے حلیے سے ہی کرب اور ویرانی ٹپک رہی تھی، آنکھوں کے گرد حلقے.. جیسے کئی دن سے سوئی نہ ہو۔ وہ اس صورتِ حال کے لیے تیار نہ تھا۔
”تم… تم… یہاں… کیوں آئی ہو؟“
نرمین: عزیر میرا گناہ ایسا تو نہیں، مگر میں معافی مانگتی ہوں تم سے… (روتے ہوئے) میرا اس وقت واحد سہارا اور امید تم ہی ہو۔ مجھے معاف کردو… میں … میں تمہاری زندگی میں… کیا تم مجھے دوبارہ اپنا سکتے ہو؟ بے شک تم مجھ سے کوئی تعلق نہ رکھنا، میں اپنے بچوں کے ساتھ (اس کی آواز ہچکیوں میں دب گئی)
عزیر نے سامنے سے بچوں کو آتے دیکھا تو نرمین سے کہا ”اس وقت اس طرح تمہیں دیکھ کر بچوں کا نہ جانے کیا حال ہو۔ ابھی تم چلی جائو۔“ نرمین نے جاتے جاتے التجائی نظروں سے اپنی بات دوبارہ دہرائی۔
٭…٭
ثمینہ: بھائی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں! کیا ایسا…؟
ثاقب: بس اسی چیز کی کسر رہ گئی تھی، مجھے تو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ عزیر بھائی آپ کی عقل اور غیرت کو کیا ہوگیا ہے کہ اب اسے دوبارہ اپنے دل کی رانی بنا کر گھر لے آئیں گے… معافی مانگتے ہیں ہم سب… ہمارا اب اُس عورت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا اور آپ سے بھی۔
عزیر نے بھائی بہن کی بات سن کر ماں کی طرف امید بھری نظر ڈالی اور دروازے کی طرف پلٹ گیا۔ پیچھے سے ماں کی آواز نے اس کے قدم روک دیے۔
ماں: میرے خیال میں اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہے، میرا مطلب ہے کہ….نرمین کو اس کے شوہر نے طلاق دے کر اسے عزیر کے لیے حلالہ کیا ہے عزیر کے لیے… شاید اس میں ہی عزیر اور اس کے بچوں کی بھلائی ہو۔ میرا خیال ہے عزیر نے صحیح فیصلہ کیا ہے۔
عزیر کو ماں کی بات سے بڑی ڈھارس بندھی، وہ پلٹ کر واپس آیا اور ماں کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اماں! نرمین کے اس قدم نے سب سے زیادہ مجھے دکھ پہنچایا ہے، میرے بچے رل گئے، یہ سال ڈیڑھ سال کا عرصہ میں نے اور بچوں نے بڑی اذیت میں گزارا ہے۔ میرے اس قدم اٹھانے میں میرا بھلا نہیں ہے، بچوں کو ان کی سگی ماں مل جائے گی، اس کے علاوہ نرمین کو سزا مل چکی ہے، وہ اس وقت بے آسرا ہے اسے… چھت چاہیے، گھر چاہیے۔ جب میرا رب ہم بندوں کو معاف کردیتا ہے تو ہم گہنگار اس کے ہی بندے ہیں، شاید میرے اس قدم سے میرا رب راضی ہوجائے مجھ سے۔
٭…٭
اس طرح نرمین ایک دوبارہ عزیر کی زندگی میں داخل ہو گئی۔ گرچہ عزیر کے دل میں اب اُس کا پہلا والا مقام نہ تھا لیکن مطمئن ضرور تھا کہ اس کے بچوں کو ان کی حقیقی ماں مل گئی…
٭…٭
مذکور بالا واقعہ (حقیقی) میری نگاہ سے گزرا تو قارئین کرام سے اس لیے شیئر کیا کہ زندگی میں ہر رشتے کی اہمیت ہے۔ اور رب العزت نے جو شرعی قوانین نافذ کیے ہیں اس کے پیچھے بھی مصلحتیں پوشیدہ ہیں جو وقت آنے پر بندے پر واضح ہوتی ہیں جیسا کہ حلالہ… نرمین دوسرے نکاح کی وجہ سے اور اس کے ٹوٹنے پر عزیر کے لیے حلال ہوگئی۔
اللہ رب العزت تمام خواتین کو اپنے گھروں میں شکر و صبر سے رہنے کی توفیق عطا کرے۔

حصہ