مصری ڈکٹیٹر سیسی کے خونی انقلاب کی پہلی شہیدہ

250

تقریباً سات سال پہلے کی بات ہے ، رمضان کا مہینہ اپنی تما م تر برکتوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوا ، ہر طرف روح پرور مناظر دکھائی دینے لگے ، مساجد ہمہ وقت نمازیوں اور قاریوں سے آباد رہنے لگیں، ہر چہار جانب تكبير و تہلیل کے غلغلے سنائی پڑنے لگے ، ہمارے گھروں میں بھی ذکر و اذکار ، تلاوت و تفسیر کا ماحول بن گیا ، مگر یہاں سے دور ، کافی دور مصری سرزمین حق وباطل کی کش مکش کا دوسرا ہی نقشہ پیش کررہی تھی _ وہاں کے تقریباً تمام تفریحی میدان ، احتجاجی رزم گاہوں کی شکل اختیار کرچکے تھے _ کیا بچے ، کیا بوڑھے، سب ہی ایک رنگ میں رنگے ہوئے تھے، عزم و حوصلے کا رنگ ، قربانی و فدویت کا رنگ، حق اور حقِ خود ارادیت کا رنگ رابعہ ہو یا تحریر ، نہضہ ہو یا منصورہ، ہرجگہ ایک ہی سماں تھا _ ہر کوئی اپنے رب سے لَو لگائے ہوئے تھا اور پرامن طریقے سے اپنے مطالبات دنیا والوں کے سامنے رکھ رہا تھا ، مگر دنیا کی قوتوں نے اپنی آنکھوں پر پٹّی باندھ رکھی تھی _ انہیں سب کچھ دکھائی دے رہاتھا ، مگر مصری قوم کے جائز مطالبات کا نہ سننا ہی ان کے اپنے حق میں بہتر تھا ، کیوں کہ یہ لوگ تو ” انتہاء پسند ” تھے ، جو ووٹ کے ذریعے برسراقتدار آگئےتھے _ انہوں نے ایک ہی سال میں مصری قوم کو اپنا اسیر کرلیا تھا _ اگر ان کو پورے پانچ سال کا موقع دے دیا جاتا تو ان کی جڑیں اور گہری ہوجاتیں ، پھر تو ان کو اکھاڑنا اتنا آسان نہ ہوتا _ میڈیا ان کے ہرکام میں میخیں نکال رہا تھا ، عدالتیں ان کے ہر عوامی فیصلے کے خلاف بند باندھ رہی تھیں ، بیوروکریسی ان کو ایک قدم آگے چلنے نہیں دے رہی تھی ، مگر یہ پوری یکسوئی سے دھیرے دھیرے مصر کو ایک رفاہی مملکت میں تبدیل کررہے تھے اور ان کا یہ ‘جرم ناقابل معافی تھا _ ان کو فوراً سے پیشتر اقتدار سے بے دخل کرنے کی اشد ضرورت تھی ، جسے جنرل سیسی نے اپنے بیرونی آقاؤں کی مرضی سے انجام دیا – لیکن اسے اپنے خونی پنجے کو کئی معصوم جانوں کےخون سے رنگنا پڑا _ جنرل سیسی نے مرسی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد جن کلیوں کو مَسل ڈالا ، ان میں سب سے پہلے انٹرمیڈیٹ کی سائنس اسٹریم کی طالبہ ہالہ ابو شعیشع کا نام آتا ہے ۔ ہالہ مصر کے منصورہ شہر میں 27؍ دسمبر 1997 کو پیدا ہوئیں جس وقت انھوں نے شہادت کا لبادہ زیب تن کیا، اس وقت تک انہوں نے اس فانی دنیا کی صرف پندرہ بہاریں دیکھی تھیں ۔
ہالہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھیں اور شہادت کے وقت وہ منصورہ انٹر کالج کے فائنل ایر کی طالبہ تھیں ۔ ان کے والد محمد مجاہد دہقلیہ صوبے کے اخوان کے ذمہ داروں میں سے ہیں اور پیشہ سے انجینئر ہیں اور گورنمنٹ کے زرعی ڈپارٹمنٹ میں اعلیٰ پوسٹ پر فائز بھی ، مگر سات سال قبل وہ اپنی نوکری سے برطرف کئے جاچکے ہیں اور دیگر اخوانی رہ نماؤں اور کارکنوں کے ساتھ مصری قیدخانوں کی رونق میں اضافہ کررہےہیں ۔
ہالہ کی بڑی بہن صفیہ، جنہوں نے دو سال قبل ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی ہے ، ہالہ کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں :” ہالہ گرچہ مجھ سے عمر میں دوسال چھوٹی تھی، مگر کئی معاملوں میں وہ مجھ سے کہیں آگے تھی ، میرے والد صاحب ہر منگل کی شام کو گھر کے تمام افراد کو جمع کرکے فیملی اجتماع کرتے تھے _ اس وقت ہالہ کا بڑھ بڑھ کر جواب دینا اور قرآن کے موتیوں کو رولنا اس کی قرآن فہمی اور قرآن سے اس کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے ۔ ایک با ر وہ پاپا سے الجھ پڑی اور تربیت کے تین اہم ستون : اخلاص ، فہم اور عمل میں کس کی ترتیب پہلے ہے؟ اس پر بحث کرنے لگی ۔ ہالہ نے ان کے موقف کے برخلاف اپنی بات رکھی کہ اخلاص سے پہلے فہم دین کا درجہ ہونا چاہیے ، کیوں کہ اگر دین کا صحیح فہم نہ ہو تو اخلاص کیسے پیدا ہوگا اور اخلاص بھی تو دین کا حصہ ہے ہمارے گھریلو اجتماع کی وہ مسلّمہ لیڈر تھی تو دوسری طرف گھر کے باہر وہ ایک ساتھ معلّمہ اور طالبہ کا کردار بھی ادا کررہی تھی _ صبح سے سہ پہر تک وہ منصورہ انٹرکالج میں تعلیم حاصل کرتی تھی تو عصر سے مغرب تک قریب کی مسجد سے متصل مرکز ابن لقمان میں دوسری طالبات کو صحت سے قرآن پڑھنا سکھاتی تھی _ “ہالہ اخوان المسلمون کی گرلز ونگ سے منسلک تھی اور بڑھ چڑھ کر اس کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھی _ غزہ میں جب اسرائیلی بمباری شروع ہوئی تو منصورہ کالج میں اس نے دیگر سہیلیوں کے ساتھ مل کر ایک فرنٹ “امناء اقصیٰ ” کے نام سے بنا ڈالا، تاکہ نئی نسل میں اسرائیلی بربریت کو واضح کرسکےاور فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے لیے ڈونیشن جمع کرسکے ‏۔ فوجی بغاوت کے فوری بعد ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ہالہ کے والد محمد مجاہد نے بلکتے ہوئے کہا : “ہالہ کے اخلاق وکردار ، معاشرت و معاملات کے بارے میں مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟ منصورہ کالج میں جاکر پوچھ لو کہ میری بیٹی کیسی تھی؟ اس کی سہیلیاں بتائیں گی کہ وہ اس روئے زمین پر کوئی آسمانی مخلوق تھی ۔ جی ہاں ، آسمانی مخلوق ، کیوں کہ ایک دن کے لیے بھی اس نے اس دنیا سے دوستی نہیں رکھی _وہ اپنے ہر عمل میں آسمان والے کی مرضی تلاش کرتی تھی _ جو لوگ زبردستی ہمارے ملک کے اقتدار پر قابض ہوگئے ہیں اور ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں‏، وہ آخر دہشت گردوں کی کون سی صفات ہمارے اندر پاتے ہیں ، ہاں ہم اپنے دستوری حقوق کے لیے جدّوجہد کرنے والے اور اس روئے زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنے کی کوشش کرنے کے جرم کا ضرور ارتکاب کرتےہیں ، اب کوئی اس کو دہشت گردی سے تعبیرکرے تو اس میں ہمارا کیا دوش ؟! “ہالہ کی امی ، جو ازہر کے ایک کالج سے گریجویٹ ہیں اور تعلیم کی تکمیل کے بعد سے خاتونِ خانہ کی حیثیت میں زندگی گزار رہی ہیں ، ہالہ کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں : ” ایک دن میری بیٹی مرکز ابن لقمان سے روتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی _ میں سمجھی کہ شاید اس کا کسی سہیلی یا استانی سے جھگڑا ہو گیا ہے ۔
میں نے اصرار کرکے پوچھا تو اس نے بتایا کہ حلقے میں ایک لڑکی دوسرے محلے سے آتی ہے ، جس کو میں قرآن حفظ کراتی ہوں _ آج وہ اپنا سبق ( متعینہ سورت ) نہیں سنا سکی تو اس نے بتایا کہ آج اس کے گھر میں والدین کے درمیان کافی جھگڑا ہو ا کہ ان کے گھر میں کوئی بیڈ نہیں ہے _ شاید اس کے والد بیڈ خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ، اس لیے وہ رات بھر ڈسٹرب رہی اور اپنا سبق یاد نہ کر سکی ‏۔ امّی میرے گھر میں تو کئی بیڈ ہیں ، ایک بیڈ تو صرف مہمانوں کے لیے ہے ، جس کی بار ی شاذ و نادر ہی آتی ہے ، ایسا کیوں نہ کریں کہ مہمان خانےکے نئے بیڈ کو اس لڑکی کے گھر ہدیہ کردیں اور میرے کمرے میں جو بیڈ ہے اسے مہمان خانہ میں منتقل کردیں _ مجھے تو فرش پر بہت اچھی نیند آتی ہے ‏۔ آخر میری بیٹی نے مجھ سے ہاں کرالیا اور اس وقت کھانے کے ٹیبل پر آئی جب اسے یقین ہوگیا کہ ڈائننگ ہال کا بیڈ ہدیہ میں چلا جائے گا _ ‏”ہالہ کے والد کا اس سے بہت خصوصی تعلق تھا _ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں :” اس دنیا میں اس کی امیدیں بہت قلیل تھیں ، لیکن اس کے مقاصد بہت جلیل تھے ‏۔ ہالہ جب پانچ سال کی تھی اور ابھی سال اوّل کی طالبہ تھی تو اس کی استانی نے ایک مضمون سنانے کو کہا _ ہالہ نے اپنے چھوٹے سے مضمون کا عنوان لکھا : ” إلى الله ” (الله کی طرف) اور اس کے نیچے ایک جملہ لکھا : ” أحبك يا الله ” (اے اللہ! تیری ذات اقدس مجھے بہت محبوب ہے ۔) ہالہ نے اپنی عدم شعور کی عمر میں جو جملہ لکھا ، منصورہ کے میدان میں شہادت اس کے اسی تمنا اور خواہش کی تکمیل ہے‏۔
صفیہ ، جو ہالہ کی بڑی بہن ہیں اور منصورہ کے مظاہرے میں اس کے ساتھ تھیں ، کہتی ہیں :” ہالہ کو امت کی بڑ ی فکر تھی ، وہ دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کے احوال سے واقف رہنے کی برابر کوشش کرتی تھی _ عشاء کے بعد والد محترم اور ہالہ ڈائننگ ہال میں صوفے پر آ بیٹھتے تھے او رالجزیرۃ کے مشہور پروگرام ‘شاهد على العصر كو ساتھ ساتھ دیکھتے تھے _ درمیان میں ہالہ کا استفسار بھی جاری رہتا تھا ۔ ہالہ نے ایک ڈائری بنا رکھی تھی ، جس میں وہ عالم اسلام کے اہم واقعات کو تاریخ کی ترتیب سے نوٹ کرتی تھی اور ان میں سے بعض واقعات کو اپنے کمنٹ کے ساتھ اپنے فیس بک پیج پر بھی شیئر کرتی تھی ۔19؍جولائی 2013 کو رمضان المبارک کی دس تاریخ تھی _ ہالہ نے اپنے ابو سے اصرار کیا کہ وہ بھی رابعہ کے میدان کے مظاہرے میں ان کے ساتھ شریک ہوگی اور ان کے ساتھ قاہرہ جائے گی ۔ والد نے کہا کہ رابعہ میں میرے ذمے اسٹیج کا نظم وانصرام ہے ، اس لیے رابعہ میں حاضر رہنا میری مجبوری ہے _ صفیہ اور تمھاری امی منصورہ کے مظاہرے میں شریک ہورہی ہیں ، تم اپنی امی کے ساتھ رہنا اور کل اخبارات کے لیے کچھ اچھے فوٹوز بھی کلک کرلینا ، مصری اخبارات تو ان مظاہروں کو دکھانے سے رہے ، ہم اس کو بین الاقوامی میڈیا کو ارسال کریں گے _ڈاکٹر صفیہ کہتی ہیں: ” ہالہ نے اس رات خوب خوب عبادت کی اور تراویح کی نماز میں اپنی والدہ اور بہنوں کی امامت کی _ آج اس کی تلاوت میں کچھ الگ ہی لطف تھا _ سورہ رحمان اور یٰس کی وہ پہلے بھی تلاوت کرتی رہی تھی ، لیکن آج کی تلاوت کچھ اور ہی سرور عطا کررہی تھی _ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ ہالہ کے استقبال کی تیاری ہے ، جوآسمان سے ہورہی ہے اور یہ اس کی الوداعی قرآت ہے _ہالہ کی ڈائری کو میں نے بہت سنبھال کر رکھا ہے ، کیوں کہ اس ڈائری میں اس نے اپنا مشن جلی حروف میں لکھ رکھا ہے _ وہ تو اپنے مشن کے راستے میں شہید ہوگئی ، ہم نے بھی اسی کے راستے کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے ‏۔ہالہ ! میری غم خوار و غم گسار ، تم تو حقیقت میں میری استانی تھی ، تم جیتے جی بھی مجھے سکھاتی رہی اور شہید ہوکر بھی تم میری رہنمائی کررہی ہو ۔ اللہ کی بے شمار رحمتیں ہو تم پر ۔ اللہ کی نعمتیں اور نوازشیں تمھاری ضیافت کا سامان ہوں ۔”

حصہ