حجاب ہمارا فخر ہے

1923

حجاب ہمارا فخر بھی ہے اور ہمارا حق بھی۔ یہ ایک تکریم ہے جو ہمارے رب نے ہمیں دی ہے۔ یہ حجاب ہمارا وقار اور ہماری پہچان بھی ہے جو ہمیں کردار کی مضبوطی عطا کرتا ہے۔
ہر سال 4 ستمبر کو ساری دنیا میں ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد دنیا بھر کی خواتین کو حجاب کی اہمیت سے روشناس کرانا ہے۔ اس دن مسلمان عورت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ حجاب کوئی جبر نہیں بلکہ حکمِ خداوندی ہے۔ اور حجاب کا پسماندگی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ ہمارا فخر و وقار ہے۔
باحجاب خواتین کی بہت بڑی تعداد زندگی کے ہر میدان میں موجود ہے اور یہ موجودگی ہمارا اعزاز ہے۔ یومِ حجاب کے حوالے سے ہم نے اپنے قارئین کے لیے بھی کچھ ورکنگ ویمن اور طالبات سے سروے کیا، انہوں نے کیا جوابات دیے، آئیے دیکھتے ہیں۔
(1)کیا حجاب کے ساتھ ترقی کی جا سکتی ہے؟
( 2) آپ کے نزدیک حجاب کا تصور کیا ہے؟
(3 ) حجاب کے نہ ہونے سے طالبات / ورکنگ ویمن کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
گورنمنٹ اسلامیہ کالج فار ویمن کی پروفیسر محترمہ ریحانہ سکینہ نے سوالات کے جواب میں فرمایا :
(1) حجاب عورت کے تحفظ کا ضامن ہے۔ یہ ترقی کی راہ میں قطعی رکاوٹ نہیں، خواتین زندگی کے ہر شعبے میں حجاب کے ساتھ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ نہ صرف بری نظر سے بچاتا ہے بلکہ آپ کے حسن کی بھی حفاظت کرتا ہے۔
( 2 ) شرم وحیا عورت کا زیور ہے اور اسے یہ تقدس حجاب ہی فراہم کرتا ہے۔
( 3) حجاب رکاوٹ نہیں بلکہ یہ تو عورت کو انفرادیت عطا کرتا ہے۔ اس کی حدود متعین کرتا ہے۔ لوگوں کو عورت کی تعظیم پر آمادہ کرتا ہے۔ حجاب تو عورت کے مفہوم کی تفسیر ہے۔
شاداب نسیم مقامی دفتر میں ایک اہم عہدے پر فائز ہیں، انہوں نے کہا:
(1 ) ترقی کا دارومدار عورت کی قابلیت و اہلیت پر ہے، جو پردے وحجاب کے ساتھ بھی نظر آتی ہے۔
(2 ) پردے کا حکم تو اسلام میں بھی ہے۔ بنیادی طور پر یہ عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ جو چیز جتنی پوشیدہ ہو وہ بری نظر سے اتنی ہی محفوظ رہتی ہے۔
(3 ) ملازمت پیشہ خواتین کا دورانِ ملازمت مختلف ماحول اور سوچ کے حامل لوگوں کے ساتھ رابطہ رہتا ہے۔ ہم یہ نہیں جان سکتے کہ کون کس سوچ کا حامل ہے۔ جب عورت حجاب میں ہوتی ہے تب ہی وہ ان بری نظروں یا ہراسمنٹ سے خود کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔
یہی سوالات جب ہم نے محترمہ فرزانہ صاحبہ سے کیے جو ایک پوش علاقے میں اپنا بیوٹی سیلون سے چلا رہی ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا:
(1) حجاب ہماری ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں، پردہ ہم اپنی زیب و زینت کا کرتے ہیں جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن پاک میں دیا ہے، نہ کہ دماغ کا کرتے ہیں کہ ہم سوچنے سمجھنے سے قاصر ہوجائیں۔
(2) پردہ تو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں کیا جاتا ہے۔ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کا فیصلہ قرآن و حدیث کی شکل میں ہمارے پاس ہے تو پھر اس پر اپنی مرضی کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ پردہ تو ایک عورت کی پاکیزگی، پاک دامنی اور طہارت کی علامت ہے۔
(3) آج کل عورتوں کے چست لباس (خاص طور سے اسکن ٹایٹ پاجامے) معاشرے میں بہت سی برائیوں کی جڑ بن رہے ہیں جس کے باعث فحاشی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین ہوں یا گھر سے باہر نکلنے والی… ہر عورت کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانپ کر نکلے تاکہ اس پر پڑنے والی نظر میں برائی نہ ہو۔
وفاقی اردو یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی پروفیسر محترمہ ڈاکٹر رخشندہ نے، جن کا تعلق جیالوجی ڈپارٹمنٹ سے ہے، فرمایا:
(1) حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہی نہیں تو پھر اس کی توجیہ کیسی؟ حجاب کے ساتھ تو زیادہ اچھے طریقے سے ترقی کی جا سکتی ہے۔
(2) حجاب صرف عبایا یا چادر نہیں کہ جس سے آپ اپنے آپ کو ڈھانپ لیں، بلکہ جسم کے ساتھ دل ودماغ کا بھی پردہ ضروری ہے۔
(3) بے حجابی کی وجہ سے مسائل تو بہت ہیں، جن میں ہراسمنٹ اب عام بات ہے۔ اس کے علاوہ مخلوط محافل اور بے جا آزادی کی وجہ سے مسلمان عورت کا دل اور روح بھی پاک نہیں، چہرے اور دل سے ایمان کا نور بھی ختم ہوجاتا ہے، جس کا اثر پورے معاشرے پر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ارم جو سربراہ ہیں بائیو ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کی، اور ان کا تعلق بھی وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے ہے، انہوں نے اپنے جوابات میں فرمایا:
(1) میرے اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فرمان ہے اس پر چل کر ترقی ہو تو سکتی ہے، رک نہیں سکتی۔
(2) لبرل اور جدت پسند طبقہ جو آج حجاب کا خوفناک نقشہ کھینچتا ہے یا پھر آنکھوں کے پردے کی بات کرتا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ سورہ نور میں اللہ کا صاف حکم ہے، ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ حجاب کے تصور سے نہ کوئی ہمیں پیچھے کرسکتا ہے اور نہ ہم پیچھے ہوسکتے ہیں۔ حجاب کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم اپنا چہرہ اور ہاتھ پاؤں چھپالیں، بلکہ اپنے ذہن کو بھی اللہ کے حکم کے مطابق پاکیزہ رکھیں۔
(3) اگر ہم اپنی حدود بنالیں تو کوئی اسے پار نہیں کرسکتا۔ خاص طور پر پبلک مقام پر، یہ ہمیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنی بہنوں کو یہ بھی بتانا ہے کہ حجاب کس طرح ہمارے وقار میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
گریجویشن کی طالبہ انعم مزمل نے ہمارے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا:
(1)اسلام دینِ فطرت ہے اور حجاب اسلامی عورت کا شعار۔ آج کے معاشرے میں عورت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مکمل حجاب کے ساتھ اپنے کام بہترین طریقے سے سرانجام دے رہی ہے اور اپنی تعلیم اور ٹیلنٹ کو اپنے خاندان اور ملک کی ترقی کے لیے استعمال کررہی ہے۔
(2) باپردہ عورت غیرت مند قوم، معاشرے اور خاندان کی نشانی ہوتی ہے۔ شرم و حیا معاشرے کی زینت ہے۔ عورت کا تحفظ حجاب میں ہے۔ حجاب کا مقصد عورت کو غلامی کی زنجیر میں جکڑنا یا اس کی تمنائوں کا خون کرنا نہیںُ بلکہ اس کو عزت و عصمت اور عظمت و وقار کی دولت سے نوازنا ہے۔ حجاب معاشرے میں پاکیزگی، فروغِ شرم و حیا اور تقدس و تحفظ کا ضامن ہے۔
(3)حجاب کا حکم بالکل اصولی اور منطقی ہے، جس طرح بیماری کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر ہوتی ہیں اسی طرح معاشرے کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے حجاب ضروری ہے۔ حجاب کی غیر موجودگی سے سب سے پہلا مسئلہ مخلوط تعلیمی نظام کے زیراثر بے حیائی کے ماحول میں نشوونما پانے والے بچے ہیں جو بے راہ روی کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔
وفاقی اردو یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طالبہ سدرہ عمران کہتی ہیں:
(1) جی ہاں حجاب کے ساتھ کامیابی ممکن ہے۔ ہمارے پاس لاتعداد مثالیں ایسی ہیں جو ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ حجاب اور پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ اسلامی تاریخ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مثال، اس کے علاوہ جدوجہدِ آزادی میں باحجاب خواتین کا کردار ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ موجودہ دور میں شہناز لغاری، پہلی باحجاب پائلٹ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حجاب کے ساتھ کامیابی ممکن ہے۔ کیونکہ کامیابی کی ضمانت بے حجابی نہیں بلکہ صلاحیت و جدوجہد ہے۔
(2) میری نظر میں حجاب کے معنی اپنے آپ کو پورا ڈھانپنا ہے، جس کا حکم اسلام میں ہے۔
(3) بغیر حجاب کے عورت مرد کی بری نگاہ اور رویّے کا شکار بنتی ہے۔ لہٰذا دوسرے کی نظر میں باعثِ احترام بننے کے لیے ہمیں پہلے خود اپنے آپ کو عزت دینی ہوگی، جس کا بہترین ذریعہ حجاب ہے۔
فاطمہ کامران، کیمبرج سسٹم کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا:
(1) حجاب لینے والی لڑکیاں بھی اتنی ہی اہلیت اور قابلیت رکھتی ہیں۔ حجاب آپ کے سر کو ڈھانکتا ہے۔ آپ کی دماغی صلاحیتوں کو قید نہیں کرتا۔
(2) مجھے نہیں محسوس ہوتا کہ حجاب لینے سے ہم تنگ نظر ہوجاتے ہیں۔ حجاب تو دینِ اسلام کا مظہر ہے۔ یہ ہمارا تشخص ہے۔ جب ایک لڑکی حجاب لیتی ہے تو وہ دوسروں کو خبردار کرتی ہے کہ وہ ایک مسلمان عورت ہے جس کی کچھ حدود وقیود ہیں اور جو قابلِ احترام وقابلِ عزت ہے۔ اس کا حجاب اس کی جدت و مضبوطی کی علامت ہے۔
(3) حجاب پہننے والی مسلمان خاتون اپنی قدر و قیمت جانتی ہے۔ اس کی حیثیت اسلام میں ملکہ کی ہے اور اسے اپنا یہ وقار بہت عزیز ہے۔

حصہ