وجودِ زن

278

عورت وہ ہستی ہے جس کی گود میں قومیں پلتی، بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں۔ اسی کے دَم سے دنیا کی رونق ہے۔ زندگی کی ساری خوشیاں عورت ہی کی ذات سے وابستہ ہیں۔
اس کے باوجود ہر زمانے میں اس کو ذلیل اور منحوس گردانا گیا۔ یہ تصور عام تھا کہ مرد حاکم ہے اور عورت اس کی محکوم، اس کی ملکیت ہے، اس کی غلام ہے ۔کسی کام میں بھی اسے بولنے اور رائے دینے کا حق نہیں ہے۔ گویا عورت کی سماجی حیثیت بہت پست تھی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو آپؐ نے عورت کی مظلومیت کو ختم کیا اور علی الاعلان بتایا کہ عورت بھی اللہ کی ویسی ہی مخلوق ہے جیسے مرد۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ النساء میں ارشاد فرمایا ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا، اور دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔‘‘
اسلام کی نظر میں عورت مرد سے کمتر نہیں۔ اسلام نے عورت کو ہر روپ میں ایک اہم مقام دیا ہے۔ سب سے پہلے بیٹی کا روپ ’’رحمت‘‘ ٹھیرایا گیا اور اسے نارِِ جہنم سے آڑ کا موجب بتایا گیا۔
پھر جب یہی بیٹی شادی ہوکر اپنے شوہر کے گھر میں بیوی کی حیثیت سے جاتی ہے تو قرآن کہتا ہے ’’اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کرو۔ وہ تمھارا لباس ہیں اور تم اُن کا لباس ہو۔‘‘
پھر جب یہ بیوی ماں بنتی ہے تو نبیؐ کا فرمان ہے ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔ گویا یہ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اس لیے شیطان کا سب سے شدید حملہ اسی پر ہوتا ہے۔
سورہ البقرہ کے چوتھے رکوع کی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’شیطان نے ان (آدم و حوّا) کو اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔‘‘(یعنی جنت)
جس پھل کو کھانے سے منع فرمایا وہ آدم وحوّا نے کھا لیا، اس کے کھاتے ہی ان کے ستر کھل گئے۔
فحاشی و عریانی شیطان کا سب سے کارگر ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ خاندانوں کو توڑتا ہے، انسانی تعلقات کی اخلاقی، فطری اور فکری بنیادوں کو ڈھا دیتا ہے، جس کے بعد انسانی معاشرے افراتفری اور بربادی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے خاندان ٹوٹتے ہیں، اور جب خاندان ٹوٹتے ہیں تو ملّتیں اور ملک بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس معاشرے کی تباہی کا ذریعہ خواہ نیٹ ہو یا موبائل کا غلط استعمال، ٹی وی، فحش تصاویر اور بے ہودہ گانے یا اسٹیج ڈراموں کے شرم ناک جملے یا لباس کی کافرانہ تراش خراش… ہمارہ معاشرہ بھی ایسے ہی شیطانی حملوں کی زد میں ہے۔ اشتہارات میں عورتوں کا استعمال عام ہے، ہر طرح کے اشتہارات میں عورت کی نمائش کی جارہی ہے، اس کی تقدیس، ستر، پردہ سب کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔
کیا یہ ساری مادر پدر آزاد حرکتیں اس معاشرے میں عورت کو باعزت اور باوقار بنانے کی کوششیں ہیں یا اس کی توقیر اور احترام کو کم کرنے کا باعث بنتی ہیں؟
یاد رکھیں، مسلمان معاشرے میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی پھیلانے والوں کو قرآن حکیم نے دنیا اورآخرت میں سخت سزا کی وعید سنائی ہے:
’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (سورہ نور، آیت 19)۔

حصہ