کراچی کو مزید معیاری ہسپتالوں کی اشد ضرورت ہے

650

کسی بھی ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے میں ریاست کو ماں کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صحت، تعلیم، روزگار اور رہائش ایسی بنیادی ضروریات ہیں جن کو پورا کرنا ریاست اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں صورتِ حال انتہائی افسوسناک ہے۔ عوام صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ملک کے بجٹ کی بات کی جائے تو سب سے کم رقم صحت اور تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کی جاتی ہے۔18ویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کے حوالے کردیا گیا تھا، جس کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ اس شعبے میں بہتری آئے گی۔ لیکن صورتِ حال جوں کی توں رہی۔
اسی طرح کراچی جو کہ پاکستان کا سب بڑا شہر اور معاشی حب کہلاتا ہے، یہاں مختلف زبانیں بولنے والے افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس منی پاکستان میں شہریوں کو جہاں بجلی، پانی، روزگار اور دیگر مسائل کا سامنا ہے وہیں صحت کی سہولتوں کا فقدان بھی ان کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہے۔ کراچی شہر کی آبادی میں گزشتہ تین دہائیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بہتر روزگار، اعلیٰ تعلیم اور کاروبار کے سلسلے میں لاکھوں لوگ چاروں صوبوں سے نقل مکانی کرکے شہر کے مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے۔ آبادی میں اضافے سے صحت، تعلیم، پانی اور دیگر مسائل میں بھی اضافہ ہوا۔ شہری ادارے اور صوبائی حکومتیں ان مسائل کو بروقت حل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ آج سے 35 سال پہلے شہر میں تین بڑے اسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، سول اسپتال کراچی اور عباسی شہید اسپتال تھے، جو کہ شہر کی 50 سے 60 لاکھ آبادی کی طبی ضروریات کے لیے کافی تھے۔ 1985ء کے بعد بڑی تعداد میں دوسرے صوبوں سے لوگوں نے نقل مکانی کی، جس کی وجہ سے صحت اور دیگر مسائل میں اضافہ ہوا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ کراچی کے بڑے اسپتالوں کی تعداد میں 30سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی اضافہ نہیں ہوسکا۔ اس مدت کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی،مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم سمیت مختلف جماعتیں برسراقتدار رہیں، لیکن انہوں نے عوام کو صحت جیسی بنیادی سہولت کی فراہمی کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
اس وقت کراچی کے اسپتالوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ ایک مریض کے مکمل چیک اپ کے لیے دو سے تین دن درکار ہوتے ہیں، جبکہ کسی معمولی آپریشن کے لیے بھی ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ بڑے اسپتالوں میں مریضوں کے رش کی وجہ سے ڈاکٹروں اور دیگر عملے پر کام کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب شہر کے ہر ضلع میں اسپتال موجود ہیں، جس میں سندھ گورنمنٹ نیو کراچی اسپتال، لیاقت آباد اسپتال، لیاری جنرل اسپتال، سعود آباد اسپتال، قطر اسپتال، کورنگی اسپتال اور ابراہیم حیدری اسپتال شامل ہیں۔ مگر عوام بہتر طبی سہولتوں کے لیے ان بڑے اسپتالوں کا ہی رخ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان اسپتالوں میں مریضوں کا رش ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ ضلعی اسپتالوں میں ایمرجنسی کی سہولیات دستیاب نہیں۔ ادویہ کی بھی قلت ہے اور دیگر طبی سہولتیں بھی ناکافی ہیں، جبکہ اندرون سندھ، جنوبی پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختون خوا سے بھی عوام بہتر علاج کی غرض سے کراچی کے ان تین بڑے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔
شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، جبکہ طبی اور دیگر سہولیات آبادی کے لحاظ سے کم ہیں، جس کی وجہ سے روز بروز صحت کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ صاف پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ٹائیفائیڈ اور پیٹ کے دیگر امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ شہر میں مچھروں کی بہتات ہے۔ ملیریا اور ڈینگی کے کیسز بھی اسپتالوں میں رپورٹ ہورہے ہیں۔ سندھ حکومت نے وفاق کے تعاون سے حال ہی میں شہید بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر مکمل کیا ہے، جس میں 500 مریضوں کو بروقت طبی امداد فراہم کرنے کی سہولت موجود ہے، مگر ٹراما سینٹر صرف ایمرجنسی کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہے، جس کی وجہ سے شہر کی ایک بڑی آبادی ان تین بڑے اسپتالوں پر انحصار کرتی ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور ڈاکٹروں کی دیگر تنظیمیں کئی سال سے مطالبہ کرتی آرہی ہیں کہ شہر میں آبادی کے لحاظ سے مزید تین بڑے اسپتالوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ موجودہ اسپتالوں پر مریضوں کارش کم کیا جا سکے اور ڈاکٹروں اور دیگر عملے پر بھی کام کا بوجھ کم ہوسکے، لیکن حکومت ان مطالبات پر کان نہیں دھرتی۔
یہ صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ شہر میں تین مزید جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال قائم کیے جائیں، ضلعی اسپتالوں کو سہولیات فراہم کرکے اپ گریڈ کیا جائے، صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، عوام کو بیماریوں سے بچانے کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے اور خصوصی فنڈ جاری کرکے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے غیر فعال اسپتالوں کو فعال بناکر صحت کی سہولیات کو مثالی بنایا جائے، تاکہ اسپتالوں میں مریضوں کے بڑھتے ہوئے رش کو کم کیا جا سکے اور انہیں بروقت طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔

حصہ