برساتی پانی میں ڈوبا سوشل میڈیا

334

مون سون کی برسات تو ملک بھرمیں مختلف وقفوں سے جاری ہے تاہم کراچی اس بار بھی ہر لحاظ سے خبروں کی لپیٹ میں رہا۔لکھا گیا کہ 90سالہ برسات کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، اس لیے جتنی زیادہ برسات ہوئی تباہی بھی اُسی کے مطابق آئی ۔ ایک وقت تھا جب بارش کے موسم میںلوگ سوشل میڈیا پر چائے، پکوڑوں اور دیگر اچھے تجربات شیئر کرتے مگر اب کی بار کے ماحول میںکراچی میں تیرتے ہوئے کنٹینر ، ڈوبی گاڑیاںاور آسمان پر چمکتی بجلی شیئر ہوتی رہی۔ایک مقبو ل جملہ سوشل میڈیا پر یہ رہا کہ ’ اب کراچی کو آرمی نہیںبلکہ نیوی کے حوالے کرنا ہوگا‘۔دوسرا یہ کہ ’کراچی ڈوب گیا مگر ٹائیگر فورس کہیں نظر نہیںآئی۔‘ کراچی ڈوب رہا ہے ، ڈوب گیا کراچی، کہاںہیںکراچی کے رکھوالے،کراچی کو توجہ دو، کراچی صوبہ ناگزیر و کراچی رین، کے عنوان سے کئی ہیش ٹیگ چلتے رہے۔کچھ دن قبل کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی مہم بھی سوشل میڈیا پر مخصوص پلان کے تحت چلائی گئی، اسکے ساتھ ہی جب سندھ حکومت نے ایک نیا ضلع کیماڑی بنانے کا اعلان کیا ، یہ سب ایشوزپوری قوت سے زیر بحث آتے مگرکراچی کی بارش کا پانی سب بہا کر لے گیا۔اہم بات یہ کہ 27اگست کو جس وقت کراچی میں موسلا دھار تاریخی برسات جاری تھی لاہور ، پنڈی میں بھی شدید برسات ہو رہی تھی۔اس برسات کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر اہلیان لاہور کا کہنا تھا کہ اس سے قبل انہوں نے بھی ایسی برسات نہیں دیکھی تھی۔مگر لاہور کی بارش کے اسپیل میں انڈیپینڈینٹ اردو کی تیار کی گئی ویڈیو رپورٹ خاصی وائرل رہی جس میں لاہور بارشوں کا پانی جمع کر کے دوبارہ استعمال کرنے والا پاکستان کا پہلا شہر بننے کا دعویٰ رپورٹ کیا گیا تھا۔ویسے یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا جس میںبارش کے 14ملین گیلن پانی کو استعمال کرنے کی استعداد تھی۔
ویسے سب جانتے ہیں کہ محکمہ موسمیات نے کئی روز قبل بتا دیا تھا،مزید یہ کہ برسات کایہ اسپیل وقفوں وقفوں سے آیا۔اسکے باوجود کراچی کے کئی علاقے بدترین انداز سے زیر آب آگئے،گلیوں،گھروں میں کئی کئی فٹ پانی بھر گیا ۔ کیا گلشن ، کیا پی ای سی ایچ ا یس،کیا ڈیفنس اور کیا سرجانی و ملیرسب کا حال برا ہوا۔انڈر پاس تو ایسے بھر گئے کہ’سڑک کہاں ہے‘ والی میم کے ساتھ تصاویر شیئر کی جاتی رہیں۔تھانوں، حکومت سندھ کے دفتر وزارت داخلہ میں بھی کئی فٹ پانی بھر گیا۔اسی طرحPECHSمیں پولیو زدہ ایک معذور خاتون مدد نہ ملنے کے سبب اپنے ہی گھر میںبارش کا پانی بھر جانے کی وجہ سے ڈوب کر ہلاک ہو گئیں اور گولیمار کے انڈرپاس میں بھی ایک 22سالہ شہری ڈوب کر جاں بحق ہوگیا۔ حب ڈیم بھی 13سال بعد مکمل بھر کے اوور فلو ہو گیا۔کراچی کو آفت زدہ قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔امسال اگست کے پہلے ہفتے تک کراچی کی برسات میں کے الیکٹرک کی غفلت کا شکار ہونے والوں کی تعدادتو15کے قریب رہی مگرتازہ اسپیل میںکوئی اطلاع نہیں پہنچی اور نہ ہی کچھ دن قبل موضوع بنی۔جیل سے رہا ہو کر کراچی کے میئر کی کرسی پر اپنے پانچ سالہ دور اقتدارکو پورا کرنے والے وسیم اختر کی بطور میئر کراچی اپنی ناقص کار کردگی کی وجوہات صوبائی و وفاقی حکومت پر تھوپنے کی پریس کانفرنس کو پورے کراچی نے جھوٹ اور مگر مچھ کے آنسو بہانے کا عمل قرار دیا۔وزیر اعلیٰ سندھ و گورنر سندھ مطلب پیپلز پارٹی و تحریک انصاف بھی تنقید سے نہ بچ سکی، گو کہ سب ایک دوسرے پرالزامات کی کیچڑ اُچھال رہے تھے۔پی ایس پی کے مصطفیٰ کمال کو بھی چائنا کٹنگ کے عنوان سے خوب لتاڑا گیا۔بلاول بھٹو کی کراچی کے حوالے سے تقریر کی ویڈیو میمزبھی بہت پسند کی گئیں جس میں بلاو ل بھٹو کے بڑے بڑے دعوے اوربارش کے بعد کی موجودہ صورتحال کو دکھایا گیا۔اسی طرح میئر کراچی وسیم اختر کے میئر بننے کے بعد کے دعوؤں کی اور آخری پریس کانفرنس کے کلپس بھی بہت پسند کیے گئے ۔اسکے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں جاری بارش کی تباہی اور کئی کئی فٹ پانی بھر ے گھروں، تیرتی گاڑیوں اور پانی میں ڈوبے علاقوں کی ویڈیوزکی سوشل میڈیا پر بھرمار رہی ۔ساتھ ہی اس دوران 2-3فیک ویڈیوز یا غلط کیپشن والی ویڈیوز نے بھی توجہ پائی ۔ ایک تو مبینہ طور پر بھارت کی ویڈیو تھی جس میں ایک شخص اپنے گھر کی چھت سے نیچے گلی میں کئی کئی فٹ جمع پانی میں ڈبکی لگاتا دکھائی دیا۔ اس پر ماہرین سوشل میڈیا نے پس منظر میںکراچی کا حوالہ ڈال کر کمنٹری بھی کر دی جس نے اس ویڈیو کے وائرل ہونے میں بھر پور کرداراداکیا۔بہر حال وہ ویڈیو کراچی یا موجودہ برسات کی کسی طور نہیں تھی۔اسی طرح مگر مچھ والا موضوع جو کہ منگھو پیر سے جوڑ کر بیان کی گیا جس کی وجہ سے عوام نے اُس کو اہمیت دی اور شیئر کرنے میں دیر نہیں کی۔اسی طرح تمام منتخب نمائندگان ایم پی اے ، ایم این اے، میئر و دیگر کی تصاویر تلاش گمشدہ کے عنوان سے لگا کر خوب شیئر کی جاتی رہیں کہ آخری بار اُن کو ووٹ مانگتے جلسوںمیں دیکھا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ دوسری جانب منتخب نمائندے بھی اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے یہ ثابت کرنے پر تلے رہے کہ وہ برسات میں گھر نہیں بیٹھے بلکہ متاثرہ علاقوںکا ’دورہ‘ کر رہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی ایک تازہ ویڈیو میں توہم نے دیکھا کہ کس طرح انہوں نے سڑک پر کھڑی ایک بے یار و مددگار فیملی کو ’پانی، جوس و ٹرانسپورٹ‘سہولت جیسی عظیم’مدد‘ بھی کی ۔سینئر صحافی خالد فرشوری اپنی وال پر یوں تبصرہ کرتے ہیںکہ ،’’بعض غیر ذمہ دار نجی چینلز اور سوشل میڈیا گروپس، کراچی میں بارشوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو دس سے ضرب دے رہے ہیں، بھارتی وڈیوز کو کراچی کی اربن فلڈنگ سے کیوں جوڑا جا رہا ہے، میڈیا عوام کو کیوں نہیں بتاتا کہج بارش کے دوران بجلی کی تنصیبات سے دور رہیں، کچی آبادیوں اور ناجائز زمینوں پر گھر نا بنائیں، برساتی نالوں میں کچرا نا پھینکیں، ورنہ بارش کے دوران مسائل بڑھتے جائیں گے۔ حکمرانوں سے اپنا حق مانگیں، انہیں آئینہ بھی دکھائیں، مگر اپنی کوتاہیوں اور ذمہ داریوں پر بھی توجہ دیں، رم جھم رم جھم میگھا رُت کو انجوائے کرنا سیکھیں، سموسے پکوڑے، کچوریاں اور حلوہ پوری بھی کھائیں اور بارش سے متاثرہ خاندانوں کی جو مدد ہو سکتی ہے وہ بھی کریں۔‘‘اسکے ساتھ ہی فلاحی تنظیموں الخدمت ، دعوت اسلامی، عالمگیر و دیگر کی جانب سے بھی امدادی کارروائیوں کی ویڈیوز بھی شیئر ہوتی رہیں۔اسی طرح ایک اور سماجی خدمت کرنے والے فرد قیس منصور شیخ کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو بے حد وائرل رہی جس میں اُنہوں نے اپنا فون نمبر دے کرکراچی میں بارش سے متاثرہ گھر کی تباہی (چھت، دیوار وغیرہ)کی از سر نو تعمیر کا اعادہ کیا اور سب کو دعوت دی کہ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ اس کار خیر کو انجام دیں گے۔اسی طرح الخدمت کے رضا کار جہاں متاثرہ بستیوںمیںکھانا، ودیگر ریسکیو کے کام کرتے نظر آئے وہاںمسافروں کے لیے اور رستے میں پھنسے افراد کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں میں فری شٹل سروس کی سہولت بھی عوام الناس میں پسند کی گئی۔
اس ہفتے ایک اور افسوس ناک واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا جس میں ایک شیعہ مجلس میںمقر رنے خطاب میں خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی شان اقدس میں گستاخی کی۔ اس واقعہ کو پولیس میں بھی رپورٹ کیا گیا اور سوشل میڈیا پربھی چھیڑا گیا۔مذکورہ ملعون شخص کے عمل کی مذمت کئی اہل تشیع افراد نے بھی شدت سے کی ، دوسری جانب شان ابو بکر صدیق ؓ کئی ہیش ٹیگ کے ذیل میں بیان کی جاتی رہی ۔ ترکی کے صدر کی جانب سے اس ہفتہ کیے گئے دو اہم اعلانات بھی سوشل میڈیا پر موضوع بنے جس میں گیس کے ذخائر کی دریافت اور استنبول میں ایک اور تاریخی میوزیم کو عدالتی فیصلہ کی روشنی میں مسجد بنانے کا حکم شامل تھا۔ آیا صوفیہ کے بعد یہ دوسری بڑی مسجد تھی جسے میوزیم بنا دیا گیا تھا۔ یونان کی جانب سے مداخلت پر ترک صدر کا پھر پور جرأت مند موقف بھی مقبول رہا۔دوسری جانب اسرائیل کے حق میں عرب امارات کے بعد سوڈان و دیگر ممالک کی رائے سازی کا کام بھی ہوتا نظر آیا ،مگر ساتھ ہی غزہ پر بمباری و حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
اسی طرح نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ مسجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برینٹن کو51افراد کو شہید کرنے کے جرم میں سزا ئے عمر قید سنائی گئی۔یہ سز ا ویسے تو انتہائی حیران کن تھی کہ یہ نیو زی لینڈ کی تاریخ میںپہلی بار ایسی سزا سنائی گئی جس میں اپیل یا معافی کا حق نہیں۔ 15مارچ2019ء کو 2مساجد پر حملہ کرنے والاقاتل اقرار بھی کر رہا ہے ، گرفتار بھی ہوا ، گواہ بھی ہیں اسکے باوجودفیصلہ میں ڈیڑ ھ سال لگا دیا گیا اب وہ باقی زندگی یا ’چودہ سال‘ جیل میں آرام دہ زندگی گزارے گا ۔ کئی ممالک میںعمر قید وہاں کی انتہائی سزا ہے ، پھانسی کا قانون ہے ہی نہیں۔اسے دیکھ کر واقعی اس بات کا یقین کروایا جا سکتا ہے کہ دُنیا کسی طور دار الجزا ء کسی طور نہیںہو سکتی۔
وفاقی حکومت بدستور میاں نواز شریف کے پیچھے منہ ہاتھ دھو کر پڑی رہی ، کامران خان کے وزیر اعظم کے ساتھ 2سالہ حکومتی کار کردگی پرلیے گئے انٹرویوکا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔امریکی ادارے PEWکی تازہ تحقیق( 13-19جولائی 2020کے درمیان کرائی گئی )کے مطابق 55فیصد امریکی سوشل میڈیا استعمال کنندگان کہتے ہیں کہ وہ سیاسی پوسٹوں اور ڈسکشن سے بیزار ہو چکے ہیں۔2020کا صدارتی انتخاب سر پر ہے ،امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اُن کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں سماجی میڈیا کا اہم کردار رہا ہے۔ایسے میںسماجی میڈیا استعمال کرنے والی امریکی عوام کی بڑی اکثریت کا اس جانب بیزاری کا اظہار اہم ہے۔10میں سے7افراد کا کہنا ہے کہ یہ بہت stressfulعمل ہے کہ سوشل میڈیا پراُن لوگوں سے سیاست کی بات کی جائے جو آپ کی بات سے متفق نہ ہوں۔اب یہ حال امریکہ کا ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں کب لوگ اپنے سیاسی مباحث سے کب تنگ آتے ہیں۔

حصہ