اچھا بھئی اب ہم تو چلے

398

آتے جاتے جب کبھی اُن کی طرف نظر پڑتی تو سگریٹ کے دھویں کے مرغولوں کے درمیان ہمیشہ انھیں کچھ لکھتے یا پڑھتے پایا۔کبھی کبھی مجھے ان پر رشک آتا تھاکہ کیا بندہ ہے مسلسل آٹھ آٹھ دس،دس گھنٹے لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتا ہے۔یہی نہیںدفتر سے گھر جاکر بھی علی الصباح تک ان کا یہی معمول تھا۔
ہاشمی صاحب کے شعبہِ صحافت میں بے شمار شاگرد ہیں،جنھیں سنوارنے ،نکھارمیں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔کئی معروف کالم نگار آپ کے زیر تربیت رہے۔نام یوں نہیں لکھ رہا کہ فی زمانہ اس مردہ معاشرے کا ایک چلن یہ بھی ہے کہ کسی کا تھوڑا سا نام کیا ہوا وہ اپنے محسنوں کو فراموش کردیتا ہے،اُن کا نام لینا توکجا اُن کی اہلیت سے بھی انکاری ہوجاتا ہے۔کالج،جامعات کے طلبہ بھی رہنمائی حاصل کرنے ہاشمی صاحب کی چوکھٹ پر حاضری دیتے رہتے تھے۔
ہاشمی صاحب کے منہ سے کبھی کسی کی غیبت نہیں سنی۔ایک بار ایک صاحب کاجسارت میں کالم پڑھا ،ہاشمی صاحب کو بتایا کہ یہ کالم تو اسلام آباد کے اخبار میں شائع ہونے والے کالم کا چربہ ہے ،صرف کچھ سطریں اوپر نیچے،آگے پیچھے کردی ہیں توہاشمی صاحب نے کہا ’’میاں جب آپ نہیں لکھوگے تو ایسے ہی لوگ سامنے آئیں گے ،یا تو مستقل لکھنا شروع کردو یا پھر شکایت کرنا چھوڑ دو‘‘۔
ہاشمی صاحب کا چھوٹے بڑے سب احترام کرتے تھے ،احترام بھی دلی احترام،وہ احترام نہیں جو منصب کومدنظررکھ کرفارملیٹی پوری کرنے کیلیے کیاجاتاہے۔ وہ تھے ہی ایسے کہ دل میں احترام کے جذبات از خود انگڑائی لینے لگتے تھے۔ایک بار رمضان کے دنوں میں ایڈمن سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ افسر اُنکے کیبن میں گئے معلوم نہیں کس بات پر ہاشمی صاحب اُ ن صاحب پر بُری طرح برس پڑے،مگروہ افسربھی بڑے اعلیٰ ظرف تھے کہ ہاشمی صاحب کے احترام میں کچھ بولے نہیں سرجھکاکر صرف سنتے رہے اور ہاشمی صاحب کے چُپ ہونے پر چُپ چاپ چلے گئے۔پورادفترحیران تھا۔ایک بہت سینئر کارکن نے بتایا کہ چالیس برس میں آج پہلی بار ہاشمی صاحب کوغصے میںدیکھاہے۔اس سے زیادہ حیران کن منظر تو صرف ایک گھنٹے بعد ہی دیکھنے کوملا جب افطار کے وقت ہاشمی صاحب اور اُس افسر کوایکساتھ خوش گپیاں کرتے اور روزہ کشائی کر تے سب نے دیکھا۔کیا آج کے اس دور میں کوئی ایسا فرد دکھائی دیتا ہے جسے اتنی جلدی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ منصب اعلیٰ و ادنیٰ کو خاطر میں لائے بغیر اپنی غلطی پر معافی مانگ لے؟۔

مرتبہ آج بھی زمانے میں
پیار سے،عاجزی سے ملتا ہے

ہاشمی صاحب مشکل اور سخت وقت میں بھی ہمیشہ صابر اور ثابت قدم رہے۔مشکل کا اظہار کسی سے نہیں کرتے تھے اور اگر کرتے تو مزاح کاتڑکا لگا کر اس طرح کرتے کہ سننے والا تاسف کے اظہار کے بجائے مسکرانے لگتا۔ایک بار بیمار پڑے آغا خان اسپتال میں کچھ دن رہ کر آئے تو آتے ہی ایک کالم لکھ دیا جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔جب صحت یاب ہوکر دفتر آئے تو کہنے لگے’’ میاں آج میں نے اپنی بیگم سے کہہ دیا ہے کہ پہلے تم بیمار پڑی اور اب میں ،اب ہم دونوں میں مقابلہ ہے کہ پہلے کون اوپر جاتا ہے‘‘۔برجستگی میں بھی ہاشمی صاحب کا کوئی ثانی نہیں تھا۔جمعیت الفلاح میں اُردو زباں کے حوالے سے سیمینار ہورہا تھا ایک صاحب اُردو کی زبوں حالی پر مضمون پڑھ رہے تھے۔مضمون میں کئی غلطیاں تھیں اور کئی لفظوں کا تلفظ اُن صاحب نے غلط پڑھا۔جب وہ یہ کہنے لگے آج کی نسل اُردو زبان سے نا واقف ہے،رومن میں اُردو لکھتی ہے ،ان کا تلفظ تک ٹھیک نہیں ہوتا۔یہ سنتے ہی ہاشمی صاحب نے برجستہ کہا ’’جی وہ تو دکھائی دے رہا ہے‘‘ ۔
ہاشمی صاحب کے مضامین طنز و مزاح سے بھرپور ہوتے تھے ۔طنز کرتے تھے مگر لطیف طنز۔لطیف طنز وہ ہوتا ہے جس میں کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو اور اپنا مدعا اور سامنے والی کی خامیاں بھی اُجاگرکردی جائیں۔بہت سے شعرا،ادیبوں کی کتابوں پر بھی تنقید سے بھرپور مضامین لکھے ۔بہت سی کتابوں کے پیش لفظ بھی لکھے۔ہاشمی صاحب خود بھی شاعر تھے مگر درویشانہ طبیعت کے باعث تسلیم نہیں کرتے تھے۔کسی بھی کتاب میں بے وزن اشعار کو نشان زد کردیتے اورمجھے آزمانے کے لیے پوچھتے کہ فیضِ عالم اس شعر کا وزن دیکھو ناپ تول میں پورا ہے یا نہیں؟ میں تو فعل فعولن جانتا نہیں ہوں۔جب میں تصدیق کردیتا تو کہتے ہاں اب یقین آگیا ہے یہ بے وزن ہی ہے۔ مجھے از خود اس بات کی تصدیق ہوجاتی کہ یہ خود بھی علم العروض کی شد بد اور موزونیِ طبع رکھتے ہیں۔کئی بارکوئی لفظ دیتے تھے کہ اس کی سندلاکر دو جب میںاشعارپیش کردیتاتو کالم میں میرا حوالہ دے دیتے ۔میرے منع کرنے کے باجود انہوںنے حوصلہ افزائی کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔
کبھی کبھار مجھے شرارت سوجھتی کہ کوئی ایسی بات کروں کہ یہ بھڑک جائیں مگر ہمیشہ ناکام رہا۔ایک بار ایک ظالم اور سفاک مسلم حکمران کا ذکر چھیڑ دیا ۔اُس کے مظالم گنوانے شروع کیے ،ہاشمی صاحب سنتے رہے اور پھر بولے اُس نے یہ نیک کام بھی تو کیا ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔میں نے کہا کہ مگر خدا کا انصاف یہ تو ہے نہیں کہ ہزاروں بے گناہوں اور قابل ہستیوں کے قتل کی سزا نہ ملے اور ایک نیکی کے بدلے سب گناہِ کبیرہ معاف کردیے جائیں۔یہ سنتے ہی ہاشمی صاحب کی ٹون تبدیل ہوگئی مگر بھڑکے نہیں ،کہنے لگے ہم ہوتے کون ہیں خدا کے انصاف پر بات کرنے والے،ہماری حیثیت ہی کیا ہے،خدا کی مرضی وہ جسے چاہے بخش دے۔میاں خدا سے صرف رحم طلب کیا کرو۔
ایک بار کورونا کے حوالے سے ایک نظم کہی اُن کو سنائی تو ایک مصرع ’’ خدا ناراض ہم سے ہوگیا ہے‘‘ پر اعتراض کردیا۔پوچھا کہ کیا خامی ہے اس مصرع میں؟ تو بولے خامی تو کوئی نہیں بس مجھے پسند نہیں آیا۔ذرا سوچو جب خدا ناراض ہوگیا تو اس دنیا اور انسانوں کا کیا حال ہوگا؟کیا کوئی بچے گا؟۔میں نے فوری مصرع بدل کر ’’ خدا سے دُور سارے ہوچکے ہیں‘‘ سنایا تو بولے ہاں یہ ٹھیک ہے۔
ہاشمی صاحب میں بے شمار خوبیاں تھیں جنھیںلکھنے کی مجھ میں سکت ہی نہیں ہے۔اب تک کی زندگی میں مجھے صرف دو عظیم انسانوں سے شرفِ قربت حاصل رہا جن میں سے ایک سید اطہر ہاشمی تھے۔
ابدی نیندسونے سے دوتین دن قبل دفتر سے گھر جانے لگے تو خلاف توقع آدھے راستے سے پلٹ کر میری طرف آگئے اور کہنے لگے فیضِ عالم تم نے بہت دن سے کچھ لکھا نہیں ہے،کوئی کالم،کوئی تنقید،کوئی نظم ،کوئی غزل۔میں نے کہا کہ ارے سر ابھی پرسوں تو آپ کو دو تازہ غزلیں سنائی تھیں،کہنے لگے کون سی؟ یاد دلایا تو بولے پھر سے سنادو،جب سنادی تو حسبِ روایت تعریف کی ۔کچھ دیر تک سر جھکا کرزمین کی طرف دیکھتے رہے ،میں سمجھا کہ کچھ کہنا چاہ رہے ہیں مگر کچھ نہیں کہا اورکہا تو بس اتنا کہا اور چل دیے ’’ اچھا بھئی اب ہم تو چلے‘‘ ۔

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

(غالب)

ہاشمی صاحب کے مضامین طنز و مزاح سے بھرپور ہوتے تھے ۔طنز کرتے تھے مگر لطیف طنز۔لطیف طنز وہ ہوتا ہے جس میں کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو اور اپنا مدعا اور سامنے والی کی خامیاں بھی اُجاگرکردی جائیں۔بہت سے شعرا،ادیبوں کی کتابوں پر بھی تنقید سے بھرپور مضامین لکھے ۔بہت سی کتابوں کے پیش لفظ بھی لکھے۔ہاشمی صاحب خود بھی شاعر تھے مگر درویشانہ طبیعت کے باعث تسلیم نہیں کرتے تھے۔کسی بھی کتاب میں بے وزن اشعار کو نشان زد کردیتے اورمجھے آزمانے کے لیے پوچھتے کہ فیضِ عالم اس شعر کا وزن دیکھو ناپ تول میں پورا ہے یا نہیں؟ میں تو فعل فعولن جانتا نہیں ہوں۔ جب میں تصدیق کردیتا تو کہتے ہاں اب یقین آگیا ہے یہ بے وزن ہی ہے۔ مجھے از خود اس بات کی تصدیق ہوجاتی کہ یہ خود بھی علم العروض کی شد بد اور موزونیِ طبع رکھتے ہیں۔کئی بارکوئی لفظ دیتے تھے کہ اس کی سندلاکر دو جب میںاشعارپیش کردیتاتو کالم میں میرا حوالہ دے دیتے ۔میرے منع کرنے کے باجود انہوں نے حوصلہ افزائی کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔

حصہ