تبدیلی کا سفر

325

پاکستان میں کورونا وائرس کی شدت میں کمی آتے ہی معمولاتِ زندگی بحال ہونے لگے ہیں۔ کاروباری مراکز، ریسٹورنٹ، شادی ہال،اور تفریحی مقامات سمیت آٹھ ماہ سے بند تمام تعلیمی ادارے کھولنے کے لیے بھی سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ عرفان نے بھی اِس سال ایف اے پاس کرلیا ہے، اب مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسے یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہے، اس لیے وہ کچھ زیادہ ہی خوش دکھائی دے رہا تھا۔ ظاہر ہے نئی کلاس، نئے دوست، اور خاص کر یونیورسٹی کا بہترین ماحول… بات تو خوشی کی ہی تھی۔ وہ اگلی کلاس میں داخلے کے لیے کچھ زیادہ ہی جذباتی ہورہا تھا۔ یونیورسٹی میں داخلے سے متعلق معلومات لینے کے لیے وہ اپنے دوستوں کے پاس جاتا، تو کبھی یونیورسٹی کے چکر لگانے لگتا۔ بس اسی سلسلے میں وہ آج پروفیسر شمشاد صدیقی سے ملنے جا پہنچا جو اس کے محلے میں ہی مقیم ہیں۔ پروفیسر شمشاد نے اس کی تمام روداد سننے کے بعد پوچھا ’’مزید کیا پڑھنے کا ارادہ ہے؟‘‘
’’پروفیسر صاحب ایم اے سیاسیات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ایم اے سیاسیات! سیاست دان بننے کے لیے بھی ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے؟ میرا مطلب ہے اگر مکینکل انجینئر بننا ہے تو انجینئرنگ کی ڈگری لینا ہوتی ہے، اسی طرح ڈاکٹر بننے کے لیے ایم بی بی ایس کی ڈگری لینا ضروری ہے، یا پھر ایم اے جرنلزم کرنے کے بعد صحافت سے جڑا جا سکتا ہے، سیاست تو اَن پڑھ آدمی بھی کرسکتا ہے، اس کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی، یہاں تو آٹھ جماعت پاس شخص بھی وزیر تعلیم لگا دیا جاتا ہے، تم کس چکر میں پڑے ہو!‘‘
’’نہیں نہیں پروفیسر صاحب ایسی کوئی بات نہیں، یہ میرا شوق ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اسی مضمون میں ایم اے کروں۔‘‘
’’ہاں یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو، ویسے تمہارا ذہن بھی سیاسی ہے۔ پڑھو اور خوب پڑھو، تعلیم حاصل کرنا اچھی بات ہے۔‘‘
’’پروفیسر صاحب آپ کی دعاؤں کا طالب ہوں، میری کامیابی کے لیے دعا کیجیے گا۔‘‘
’’اِن شااللہ ضرور۔‘‘
’’اچھا یہ بتائیں ملک کے سیاسی حالات میں جو بے چینی نظر آرہی ہے اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ اور موجودہ حکومت سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟کیا یہ حکومت اپنی مدت پوری کرپائے گی؟ پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ حکومت کی کارکردگی کس حد تک تسلی بخش ہے اور کیا تبدیلی کے ثمرات عوام تک پہنچے؟‘‘
’’واہ عرفان تم نے تو ایم اے سیاسیات کرنے سے پہلے ہی سیاسی داؤ پیچ سیکھ لیے ہیں، ایک ہی سانس میں کئی سوالات کر ڈالے! خیر تم نے جو کچھ بھی پوچھا ہے اس پر اپنی رائے ضرور دوں گا۔ سنو، سابق حکمرانوں نے جو کیا وہ ماضی کا حصہ ہے، اس پر بات کرنا سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے، ہمیں آج کے حالات پر بات کرنی چاہیے۔ دیکھو انہوں نے اس ملک کے ساتھ جو کیا، عوام نے انتخابات میں اس کا بدلہ لے لیا، یعنی جمہوریت بہترین انتقام ہے، لہٰذا ماضی کے قصے دہرانے سے بہتر ہے کہ آگے بڑھا جائے۔ جس انداز میں تحریک انصاف نے الیکشن سے قبل عوام میں امید کے دیئے جلائے تھے وہ اقتدار ملنے کے بعد سے لے کر اب تک اپنی لوکھونے لگے ہیں۔ اگر سیدھے طریقے سے کہا جائے تو وہ دیا اب بجھنے کو ہے، بلکہ اب تو موجودہ حکومت کے وزرا کو بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں یہ چراغ بجھ ہی نہ جائے۔ اس حکومت کے پائوں تو پالنے میں ہی نظر آچکے ہیں۔ ان کی طرزِ حکمرانی سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے اقتدار کا بچہ اس قدر آسانی سے چلنے کے قابل نہیں لگتا۔ سابقہ ادوار میں لوگ جن پریشانیوں میں گھرے رہے وہ پریشانیاں اب بھی عوام کا پیچھا کررہی ہیں، بلکہ ان پریشانیوں میں مزید اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ تحریک انصاف نے انتخابات جیتنے سے قبل تبدیلی کا جو نعرہ لگایا تھا وہ بھی دھویں کی طرح فضاؤں میں بکھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ کیوں ہوا، اس بارے میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ یا تو موجودہ حکمران انتقامی سیاست کے لیے حکومت میں آئے ہیں، یا پھر ان سے حکومت ہی نہیں چل رہی اور یہ بلیم گیم کی سیاست کے ذریعے وقت گزارنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ کہتے ہیں اگر ریاست کا ایک آدمی بھی خوشحالی کو محسوس کرلے تو سمجھو حکومت کامیابی سے اپنا سفر طے کررہی ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ موجودہ حکومت اس وقت ان تمام باتوں سے عاری ہوکر صرف تنقید برائے تنقید کے کاموں میں زیادہ مصروف دکھائی دیتی ہے۔ ان کی دو سالہ حکمرانی میں اب تک ایسا محسوس نہیں ہوا کہ آگے چل کر ہی کچھ اچھا ہوجائے۔ یہ حکومت ہر آنے والے دن کے ساتھ خود ہی ایک نیا بحران پیدا کردیتی ہے، پھر اس سے نبرد آزما ہونے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرنے لگتی ہے۔‘‘
’’پروفیسر صاحب، موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون تو مشکلات میں ہیں جبکہ تحریک انصاف کی حکومت بھی ٹھیک طرح سے سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی ہے، ایسی صورت میں معاشی بحران اور بین الاقومی دباؤ سے ملک کو کون نکالے گا؟‘‘
’’اگر یہی حالات رہے تو عوام کا اعتماد سیاسی جماعتوں اور جمہوری نظام سے اٹھ جائے گا، پھر لوگ ایک ایسی تروتازہ جماعت کی راہ دیکھیں گے جو انقلابی ہو۔ ظاہر ہے جب کئی دہائیوں سے حکومت کرنے والی دونوں بڑی جماعتیں اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت پی ٹی آئی بھی عوام سے کیے وعدے پورے نہ کرسکے تو اسی قسم کی تبدیلی آئے گی، یہی دنیا کی تاریخ ہے۔ جب سیاست دان اپنی کارکردگی پر توجہ دینے اور عوامی فلاح وبہبود کے کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرتے ہیں تو ان کے ایسے رویوں سے نہ صرف عوام بددل ہوجاتے ہیں بلکہ کئی پارلیمنٹرین بھی اپنی جماعتوں اور رہنماؤں سے مایوس اور ناامید ہوکر نئے راستے تلاش کرنے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں عوام میں بے چینی اور مایوسی بڑھتی ہے، پھر ایسی تحریکیں چلتی ہیں جو سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں۔‘‘
’’آپ نے پاکستان پر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ اور ملکی معاشی صورتِ حال پر کچھ نہیں کہا؟‘‘
’’ہاں ہاں بالکل، تمہارا یہ سوال حقائق پر مبنی ہے۔ پاکستانی معیشت کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، اسے جانچنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ کسی بازار کا چکر لگا کر دیکھ لو، یا گھر گرہستی والی کسی خاتون سے معلومات حاصل کرلو، گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تمام اشاریے تمہارے سامنے آجائیں گے۔ اس لیے اس پر کیا بات کی جائے! ہاں جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے جسے تم بین الاقوامی دباؤ کہہ رہے ہو، وہ ہمیشہ سے ہی نکمی رہی ہے، ہم نے کبھی بھی آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی بنانے کی کوشش نہیں کی، اس محاذ پر ہم نے ہمیشہ امریکا اور سعودیہ کے مفادات کا ہی تحفظ کیا ہے، شاید یہ ہماری معاشی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ جو بھی ہے، اگر دیکھا جائے تو یہ ہماری بڑی ناکامی ہے۔ میری بات چھوڑو، اس حوالے سے موجودہ حکومت کی وزیر شیریں مزاری کے اس بیان کو ہی دیکھ لو جس میں وہ خود اعتراف کرتی ہیں کہ ’’دفتر خارجہ اور دیگر اداروں نے خارجہ پالیسی پر کوئی کام نہیں کیا، چاہے عالمی سیاست جو بھی ہو، دفترخارجہ کام کرتا تو دنیا کشمیر پر ہماری بات ضرور سنتی، مگر ہمارے سفارت کار آرام کرنے، تھری پیس سوٹ اور کلف لگے کپڑے پہننے، ٹیلی فون کرنے کے سوا کچھ کرنے کو تیار نہیں‘‘۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’’پاکستان برکینا فاسو جتنا وزن بھی نہیں رکھتا جس نے امریکا کے خلاف قرارداد منظور کرالی؟کشمیر پر آواز بلند کرنے کے لیے ہمیں روایتی سفارت کاری سے نکلنا ہوگا، سیاسی یا سفارتی نوعیت کا بیان دینے سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوگی، امریکی صدر ساری ڈپلومیسی ٹویٹر پر کررہا ہے لیکن ہمارے وزرا اپنے پُرتعیش ہوٹل سے باہر نہیں جاتے، کپڑوں پر شکن نہیں پڑنے دیتے، ہم نے کشمیریوں کو مایوس کیا ہے۔‘‘ مجھے امید ہے کہ اس بیان کے بعد ہماری ساری سفارت کاری تمہارے سامنے عیاں ہوگئی ہوگی۔ یہ بیان تو کشمیر سے متعلق ہے، اب تو سعودی بھی ناراض ہیں، وہ کیوں ناراض ہیں؟ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس وقت دنیا دو حصوں میں تقسیم ہورہی ہے، سب کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ چین، روس، ایران، ترکی جیسے ممالک ایک طرف، جبکہ امریکا، اسرائیل، سعودیہ، یوں اے ای دوسری جانب کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں طرف کی پالیسیوں میں واضح فرق ہے۔ دنیا بدل رہی ہے، اب ہمیں بڑے فیصلے کرنا ہوں گے، اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنا ہوگا، یہ فیصلہ جتنی جلد کرلیا جائے، بہتر ہے۔ جہاں تک ملک کو معاشی بھنور سے نکالنے کا معاملہ ہے، تو اس پر ہمیں اپنے حکمرانوں کے لیے دعا ہی کرنی چاہیے۔‘‘
’’یعنی مسائل فقط دعاؤں سے حل ہوں گے؟‘‘
’’ارے نہیں برخوردار، ایسا نہیں ہے۔ دعائیں بھی ان ہی کی قبول ہوتی ہیں جو دلجمعی کے ساتھ کوششں کریں، تم نے پڑھا ہوگا

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ہمیں بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی، یا یوں کہیے کہ ان کی نااہلی اور خراب طرزِ حکمرانی کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ حکومت بھی صاف نیت کے ساتھ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی کوشش کرے تو اس کے مثبت نتائج ضرور برآمد ہوسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے حکومت کو یہ سوچنا ہوگا کہ پگڑی اچھالنے کی سیاست کسی بھی لحاظ سے عوام کی خدمت نہیں کہلائی جاسکتی۔ عوام مشکلات میں ہوں تو حکمرانوں کو سیاسی بدلے لینے کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اپوزیشن کو ساتھ لے کر عوام کی بھلائی کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی، پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ ایسے انتظامی اقدامات کرنا ہوں گے جس سے عوام کا اعتماد حکمرانوں پر بحال ہوسکے۔ عالمی برادری سے رابطے بڑھانا ہوں گے۔ آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی بنانا ہوگی۔ دنیا بھر کے ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا ہوں۔ بڑے صنعت کاروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے تاجروں کے مسائل کا سدباب بھی کرنا ہوگا۔ ترقی کی شرح بڑھانے کے لیے خودانحصاری کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ اس سے پہلے کہ عوام مزید بددل ہونے لگیں، اس سے پہلے کہ سیاسی جماعتوں سے ناراض ہونے والے کسی اور سمت دیکھنے لگیں، اس سے پہلے کہ عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کسی آتشں فشاں کا روپ دھار کر پھٹ پڑے حکومت کو اپنی سمت درست کرلینی چاہیے۔‘‘

حصہ