سیکولر ذہنیت پر سید مودودیؒ کی گرفت

420

دوسری قسط
’’اصطلاحاً عقلی اور مادی فوائد محض ایک اضافی نوعیت کی چیز ہیں‘ لہٰذا‘ ان کی اہمیت ٹھیک ٹھیک متعین نہیں کی جا سکتی۔ ایک شخص کسی چیز کو مفید قرار دے سکتا ہے‘ جب کہ دوسروں کے نزدیک ممکن ہے کہ وہی چیز نقصان دہ ہو۔ ممکن ہے کہ کوئی تیسرا شخص اسی چیز کو جزوی طور پر مفید مگر کم اہم بتائے‘ اور کسی اور چیز کو منافع بخش بتائے۔ کسی چیز کی مادی افادیت کا فیصلہ کرنے میں اختلافات کا امکان اور بھی زیادہ ہے‘ کیونکہ ہر شخص مادی فائدے کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ کوئی تو ایسا ہو گا جو فوری نفع حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہو اور نقصان سے بچنے کا متمنی ہو۔ لازمی بات ہے کہ اس شخص کی پسند‘ نا پسند ان لوگوں سے مختلف ہو گی جن کی نظر اس نفع کی حقیقی افادیت پر ہو گی۔ اسی طرح بعض چیزیں کبھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں اور کبھی نقصان دہ۔ کوئی آدمی ایسی چیز کو حاصل کرنے کی صورت میں ہونے والے عارضی نقصان کو برداشت کرنے پر اس لیے تیار ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے طویل المدت فوائد حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اس کے نقصان کے سبب اس سے بچیں گے‘ جو انھیں اس کے فائدے کی نسبت کہیں بڑا نظر آتا ہے۔ مزیدبرآں‘ خود عقلی اور مادی فوائد میں بھی باہم اختلاف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر تجربے کی رو سے کوئی چیز ضرر رساں معلوم ہوتی ہے‘ لیکن عقل ہمیں سمجھاتی ہے کہ مستقبل میں یہ چیز زیادہ بڑے فوائد کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح تجربے سے جس چیز کا مفید ہونا ثابت ہوتا ہے‘ ممکن ہے ہمارا عقلیت پسند دماغ اسے مسترد کرنے پر تلا ہوا ہو۔ اشیا کی اسی درجے کی موضوعیت (subjectivity) کے پیشِ نظر لوگوں کے نزدیک کسی چیز کی قدر میں کمی بیشی ہو سکتی ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۸۱-۱۱۲)۔
سید مودودیؒ، اسلامی معاشرے میں عقلیت کی طرف نئے نئے راغب ہونے اور اسے ایک سائنسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے‘ یا حد سے زیادہ اہمیت دینے والوں کی سطحیت کو اس طرح طشت از بام کر دینا چاہتے تھے کہ اس میں تعصب اور جذبات کا عمل دخل نہ ہو:۔
ایک طرف عقل و فطرت سے یہ انحراف ہے‘ دوسری طرف عقلیت و فطریت کا دعویٰ ہے اور عقل کے دیوالیہ پن کا حال یہ ہے کہ وہ اس اجتماع ضدّین کو محسوس تک نہیں کرتی — تعلیم اور تہذیب ِفکر کا کم سے کم اتنا فائدہ تو ہر انسان کو حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے خیالات میں الجھاؤ باقی نہ رہے‘ افکار میں پراگندگی نہ ہو۔ وہ صاف اور سیدھا طریق فکر اختیار کر سکے‘ تناقض اور خلط مبحث جیسی صریح غلطیوں سے بچ سکے۔ لیکن مستثنیات کو چھوڑ کر ہم اپنے عام تعلیم یافتہ حضرات کو دماغی تربیت کے ان ابتدائی ثمرات سے بھی محروم پاتے ہیں۔ ان میں اتنی تمیز بھی تو نہیں ہوتی کہ کسی مسئلے پر بحث کرنے سے پہلے اپنی صحیح حیثیت متعین کر لیں۔ پھر اس حیثیت کے عقلی لوازم کو سمجھیں اور ان کو ملحوظ رکھ کر ایسا طریق استدلال اختیار کریں جو اس حیثیت سے مناسبت رکھتا ہو۔ ان سے گفتگو کیجیے یا ان کی تحریریں دیکھیے‘ پہلی ہی نظر میں آپ کو محسوس ہو جائے گا کہ ان کے خیالات میں سخت الجھاؤ ہے — اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ موجودہ تہذیب اور اس کے اثر سے موجودہ تعلیم کا میلان زیادہ تر حسیات اور مادیات کی طرف ہے۔ وہ خواہشات کو بیدار کردیتی ہے‘ اور ضروریات کے احساس کو بھی ابھار دیتی ہے‘ محسوسات کی اہمیت بھی دلوں میں بٹھا دیتی ہے مگر عقل اور ذہن کی تربیت نہیں کرتی — اور صحیح عقلی طریق پر کسی مسئلے کو سلجھانے یا کسی امر میں رائے قائم کرنے کی صلاحیت ان میں پیدا ہی نہیں ہوتی۔ اس غیر ’معقول عقلیت‘ کا اظہار سب سے زیادہ ان مسائل میں ہوتا ہے جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں‘کیونکہ یہی وہ مسائل ہیں جن کے روحانی‘ اخلاقی اور اجتماعی و عمرانی مبادی مغرب کے نظریات سے ہر ہر نقطے پر متصادم ہوتے ہیں۔(ایضاً‘ ص ۱۰۵-۱۰۶)۔
سید مودودیؒ کا مؤقف حقیقت سے قریب تر تھا۔ استدلال سے کام لینا انسان کا امتیازی وصف ہے اگرچہ اس کے کچھ فطری مسائل بھی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ یہ عمل ایک مخصوص سماجی ماحول ہی میں ممکن ہے۔ یہ ایک ایسے انسانی ظرف میں پرورش پاتا ہے جس کی ساخت نفسیاتی و دنیاوی ((psycho-temporal ہے۔ چنانچہ انسان پر اثر انداز ہونے والے امور اس کے طرز استدلال کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں‘ ہر قضیے کا فیصلہ بھی محض استدلال کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا نفوذ اور عمل‘ خط مستقیم میں نہیں ہوتا۔ بسااوقات یہ پیچیدہ بھول بھلیوں میں پھنس جاتا ہے‘ جن سے نکلنے کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔
سید مودودی ؒ اس بات کو غیردانش مندانہ قرار دیتے ہیں کہ کوئی شخص کسی عقیدے کو قبول کرنے کے بعد اسی کے برحق ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس عقیدے کے مسلمہ اصولوں پر بحث نہیں کر سکتا‘ یا کسی کے سامنے اس کے جواز پر استدلال نہیں کر سکتا۔ بے شک اسے یہ سب کچھ کرنے کا حق حاصل ہے‘ لیکن جب وہ اس عقیدے کو قبول کر لیتا ہے تو اسے اس پر شرح صدر ہونا چاہیے۔ کسی حکم کے بارے میں وجۂ جواز مانگنے میں تو کوئی مضائقہ نہیں‘ تاہم یہ بات عقلی اور عملی لحاظ سے انتہائی معیوب ہو گی کہ اسلام کے ہر ہر حکم پر عمل درآمد کے لیے وضاحت طلب کی جائے۔ سید مودودیؒ اس نکتے کو تہذیبی سیاق و سباق میں رکھتے ہوئے اس پر بحث یوں کرتے ہیں:
انسان جس نظام میں داخل ہوتا ہے‘ اس ابتدائی اور بنیادی مفروضے کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ وہ اس نظام کے اقتدار اعلیٰ پر کلّی حیثیت سے اعتقاد رکھتا ہے اور اس کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہے۔ اب جس وقت تک وہ اس نظام کا جز ہے‘ اس کا فرض ہے کہ اقتدار اعلیٰ کی اطاعت کرے خواہ کسی جزئی حکم پر اس کو اطمینان ہو یا نہ ہو۔ مجرمانہ حیثیت سے کسی حکم کی خلاف ورزی کرنا امر دیگر ہے۔ ایک شخص جزئیات میں نافرمانی کر کے بھی ایک نظام میں شامل رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص کسی چھوٹے سے چھوٹے جز میں بھی اپنے ذاتی اطمینان کو اطاعت کے لیے شرط قرار دیتا ہے تو در اصل وہ اقتدار اعلیٰ کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور یہ صریح بغاوت ہے۔ حکومت میں یہ طرز عمل اختیار کیا جائے گا تو اس پر بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیا جائے گا۔ فوج میں اس کا کورٹ مارشل ہو گا۔ مدرسے اور کالج میں فوری اخراج کی کارروائی کی جائے گی۔ مذہب میں اس پرکفر کا حکم جاری ہو گا۔ اس لیے کہ اس نوع کی طلبِ حجت کا حق کسی نظام کے اندر رہ کر کسی شخص کو نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے طالب حجت کا صحیح مقام اندر نہیں باہر ہے۔ پہلے وہ باہر نکل جائے‘ پھر جو چاہے اعتراض کرے‘‘۔(ایضاً‘ص ۱۰۷-۱۰۸)۔
عقلیت پرست مسلمانوں کا پول کھولنے کے لیے‘ جس کا ان کی جانب سے بہت ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا‘ سید مودودی ایک عقلی آزمایش تجویز کرتے ہیں: ’’آپ کسی مذہبی تعلیم یافتہ شخص سے کسی مذہبی مسئلے پر گفتگو کیجیے اور اس کی ذہنی کیفیت کا امتحان لینے کے لیے اس سے مسلمان ہونے کا اقرار کرالیجیے۔ پھر اس کے سامنے مجرد حکم شریعت بیان کر کے سند پیش کیجیے۔ وہ فوراً اپنے شانے ہلائے گا اور بڑے عقل پرستانہ انداز میں کہے گا کہ یہ ملائیت ہے‘ میرے سامنے عقلی دلیل لاؤ۔ اگر تمھارے پاس معقولات نہیں‘ صرف منقولات ہی منقولات ہیں تو میں تمھاری بات نہیں مان سکتا۔ بس انھی چند فقروں سے یہ راز فاش ہو جائے گا کہ اس شخص کو عقلیت کی ہوا بھی چھو کر نہیں گزری ہے۔ اس غریب کو برسوں کی تعلیم و تربیت علمی کے بعد اتنا بھی معلوم نہ ہو سکا کہ طالب حجت کے عقلی لوازم کیا ہیں اور طالب ِحجت کی صحیح پوزیشن کیا ہوتی ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۶)۔
ایک دلیل بڑی کثرت سے دی جاتی رہی ہے کہ انسانی ذہن کے افق پر فکرِ جدید کے طلوع ہونے کے بعد اب مذہب ایک ازکار رفتہ (outdated) چیز بن گیا ہے۔ بہ طرز فیشن یہ بھی کہا گیا کہ علم تو بس وہی ہے جو آدمی اپنے حواس کے ذریعے سے حاصل کرے کیونکہ اس کی ناپ تول کی جاسکتی ہے۔ اس قسم کے تصورات پر انھوں نے تین اطراف سے ضرب لگائی۔ اول یہ کہ انھوں نے علمِ جدید کے احتمالی یا تصوراتی ہونے کے امکان کی طرف اشارہ کر کے اس کی اصلی ہیئت آشکار کی۔ دوم یہ کہ انھوں نے اس دعوے کا لغوا اور مہمل ہونا ثابت کیا کہ اب عقیدے کی جگہ تجربی طریقوں نے لے لی ہے۔ تیسرے ‘انھوں نے ثابت کیا کہ آج کے زمانے میں بھی لوگ غیر مرئی وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ لادین (سیکولر) عناصر کے دلائل کی حقیقت کو کھولتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:۔
علوم جدیدہ اور اکتشافات حاضرہ سے مرعوب ہو کر مذہب کی طرف ایک ترمیم طلب نگاہ ڈالنا تو صرف ان لوگوں کا شیوہ ہے جن کے دل میں یہ تخیل گھر کر گیا ہے کہ نئی چیز علم و اکتشاف ہے‘ اور زمانے کا ساتھ دینے کے لیے اس کو قبول کر لینا یا اس پر ایمان لے آنا ضروری ہے‘ خواہ اس کی حیثیت محض قیاسی و نظری ہو اور خواہ اس کو انھوں نے گہری علمی بصیرت کے ساتھ نقد صحیح کی کسوٹی پر پرکھا بھی نہ ہو۔ ایسے ہی لوگوںمیں ’’عمل و خیال کی نئی طرحیں‘‘ ڈالنے کا شوق پیدا ہو گیا ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ عمل و خیال کی نئی طرحیں کیوں کر پڑتی ہیں‘ اور کون سی طرحیں عاقلانہ ہوتی ہیں اور کون سی محض طفلانہ‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۲۰‘ ۱۲۱‘ ۱۲۳)۔
m ڈاروینی ارتقا — عقیدہ یا سائنس: ڈارون کا نظریہ منظر عام پر آنے سے پہلے مغرب نے کائنات کی وسعت کے بارے میں ایک نیا تصور وضع کر لیا تھا۔ مسیحیت اگرچہ اب بھی ایک قوت تھی مگر فطرت کے اسرار کو سمجھنے کے معاملے میں اسے پہلے جو فیصلہ کن برتری حاصل تھی‘ اب اس کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ڈیکارٹ اور نیوٹن کے پیش کردہ نظریات نے اپنے لادین اثرات ظاہر کرنا شروع کر دیے تھے۔ ڈارون کے نزدیک اب وقت آ گیا تھا کہ مذہبی روایات سے مکمل علیحدگی کو مؤثر بنایا جائے اور کائنات کی تشریح‘ توافق اور فطری انتخاب کے اصولوں پر کی جائے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک نیا نمونہ ابھر کر سامنے آیا۔ اگلی صدی کے لیے سائنسی برادری نے ڈارون کو اپنا بُت بنا لیا۔
ڈارون کی زندگی میں‘ اور اس کے بعد بھی‘ بہت کم لوگ اس کے نظریے سے اختلاف کرنے کی جرأت کرپائے تھے۔ جو کرتے تھے‘ ان کی خوب مٹی پلید کی جاتی تھی۔ آخر ۱۹۵۸ء میں‘ جب فرانسیسی ماہرین حیاتیات نے ’فرانسیسی دائرۃالمعارف‘ (Encyclopedie Francaise) کی پانچویں جلد میں نظریہ ارتقا پر سخت تنقید کی‘ تو پہلی مرتبہ ڈارون پرستوں کو اپنا موقف خطرے میں محسوس ہوا۔ اب تک انھوں نے حیاتیات کا سہارا لے رکھا تھا‘ خصوصاً خوردبینی سطح پر‘ لیکن جب کلاڈ برنارڈ سے لے کر لیوسین کیونو (Lucein Cuenot) تک نے یہ کہا کہ ’’نظریہ ارتقا نا ممکن ہے‘‘ تو ڈارون کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اس سے بھی بڑھ کر ان ماہرین حیاتیات نے اس نظریے کو محض ایک عقیدہ (dogma) قرار دے دیا۔ انھوں نے کہا: ’’نظریہ ارتقا ایک ایسا عقیدہ ہے‘ جس کے مبلغین اگرچہ اب خود اس پرایمان نہیں رکھتے‘ لیکن لوگوں کے سامنے اسے پیش کیے جا رہے ہیں۔ جس معاملے کی تشریح کرنے کی اس نظریے نے جسارت کی ہے‘ اب اس پر اتنی بات ہو چکی ہے کہ ممکن ہے آنے والی نسل کے سائنس دان اپنی تحقیق کسی اور زاویے سے کریں‘‘۔
۱۹۳۰ء کے عشرے میں ایک طالب علم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جو ڈاروینی ارتقا کی ہیبت سے مرعوب ہو کر اپنے ایمان کو متزلزل ہوتا محسوس کر رہا تھا‘ سید مودودیؒ نے ڈارون پر مختصر تنقیدی نوٹ لکھا۔ مسئلے کے قلب میں اترتے ہوئے نظریے اور قانون کے فرق کو اس طرح واضح کیا: ’’نظریے اور واقعے کا فرق کسی تعلیم یافتہ آدمی سے پوشیدہ نہیں ہوسکتا۔ اور یہ بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آدمی کے لیے اپنے ایمان پر نظرثانی کرنے کا سوال اگر کبھی پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اس صورت میں‘ جب کہ وہ چیز جس پر وہ ایمان رکھتا ہے‘ کسی ایسی چیز سے ٹکرا جائے جو ثابت شدہ واقعہ ہو۔ ورنہ جو ایمان قیاسات و نظریات کی ٹکر بھی نہ سہہ سکے وہ ایمان تو نہیں‘ محض ایک حسنِ ظن ہے جو نری افواہوں پر بدگمانی میں تبدیل ہو جاتا ہے‘‘۔(سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ تفہیمات‘دوم‘ ص ۲۷۸)۔
(جاری ہے)

حصہ