حیات بلوچ اور سماجی میڈیا

678

چلیں بھئی کراچی کے بعد لاہور بھی بارش میں ڈوب ہی گیا۔لوگوں نے لکھاکہ ’ لاہو رمیں بھی سی ویو کا نظارہ‘مفت میں ۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسا لاہور میں بھی پہلی بار نہیں ہوا مگر سوشل میڈیا کی دُنیا میں امسال کئی بار بارش میں چونکہ کراچی کی تباہی کو موضوع بنایا گیا تو لوگوں نے دیگر شہروں سے موازنے پر بھی اصرار کیا ۔ موسم تو مون سون کا ہے برسات صرف کراچی ہی میں نہیں ہو رہی تو کیوں ایسا ماحول بنایا جائے کہ صرف صوبہ سندھ یا کراچی پر حکومت کرنے والی سیاسی قیادت ہی کرپٹ ہے ۔ اس لیے بیلنس کرتے ہوئے اس ہفتے برسات بھی کراچی کے بجائے پنجاب و ملک کے دیگر حصوںمیں ہوئی ۔ LahoreRain کے ٹرینڈ جبکہ اور ’لاہور ڈوبا بزدار سوتا رہا‘ یا ’پنجاب ڈوب رہا ہے ‘کے ہیش ٹیگ کے ذیل میں بہر حال عوام نے اپنی سیاسی حریف قیادت کے کاموں پرحصہ ملایا اور لاہور بھرمیں بارش کے پانی سے ہونے والی تباہی کے نئے پرانے مناظر خوب شیئر کیے ۔ویسے اس ساری ایکسرسائز کا مطلب یہی سامنے آیا کہ تا حال ’ سب چور ہی ہیں‘۔
اس ہفتہ پاک فوج سے تعلق رکھنے والی دو اہم ترین شخصیات کا یوم شہادت سماجی میڈیا پر ظاہر ہوا۔17اگست کو سابق صدر وجنرل ضیاء الحق شہید کی بھی برسی منائی گئی جو امریکی خفیہ کارروائی کے نتیجے میں دوران ہوائی سفرطیارہ کی تباہی میں شہید ہوئے ۔ اس میں خاصے اہم تاریخی صفحات کو کھولا گیا، خصوصاً افغانستان میں روس کی شکست کی داستان مگر ہماری نئی نسل کو اس سے شاید زیادہ دلچسپی یا معلومات ہی نہیں تھی ۔دوسری کم عمر ترین پائلٹ راشد منہاس شہید (نشان حیدر )کا یوم شہادت (20اگست1971 )تھا جو سماجی میڈیا پر جوش و خروش سے منایا گیا ۔, OurMartyrsOurHeroes, RashidMinhasShaheedاور ’شہداء ہمارا فخر ہیں‘ کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ پر کئی گھنٹہ نمودار رہے۔پانچویں یا چھٹی جماعت میں اُردو کی درسی کتاب میں پہلی مرتبہ مجھے شہید کا تعارف ہوا ۔ شاید یہ سبق میرے لیے نہیں بلکہ ہر اُس طالب علم کے لیے یادگار رہا ہوگا جس نے اُس کو کم از کم ایک بار پورا پڑھا ہو۔نوجوان راشد منہاس شہید نے جہاز اغواء کرکے دشمن ملک بھارت لے جانے والے اپنے ہی غدار افسر کو اُسکے ارادے میں کامیاب نہیں ہونے دیا، اور جہاز تباہ کر کے جام شہادت نوش کیا ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے راشد منہاس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا کہ’’آج کا دن ہمیں فرض کی ادائیگی میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید، نشان حیدر کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے، مادر وطن کے لیے شہید راشد منہاس نے پاک فضائیہ کی عظیم روایات کو برقرار رکھا۔‘‘ ۔اسکے علاوہ مجموعی طور پر ایک ہی جیسی پوسٹیں کسی بڑے پیغام سے عاری ISPکے اکاؤنٹ سے جاری کی گئی تھیںISPمطلب Invisible Soldiers of Pakistan مطلب صرف سماجی میڈیا والے سپاہی۔راشد منہاس شہید کی بہادری ، عظیمت اور شہادت واقعی ہماری نوجوان نسل کے لیے بطور جذبہ حب الوطنی بہت سارا سبق رکھتی ہے ۔ مگر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنوانے والی یا اس کی سیٹنگ کرنے والوں کے ذہن میں شاید یہ بات نہیںتھی۔کوئی دعائیہ جملہ طلب کر رہا تھا، کوئی خراج تحسین، تو کوئی اُن کے تعلیمی و گھریلو حالات بتا رہا تھا۔ یقین کیجیے اس عظیم انسان کی قربانی کا دن کروڑوں افراد تک کسی بڑے ،بلند مقصد کے ساتھ جوڑ کر نئی نسل کو ایک بڑے مشن سے جوڑنے کے بجائے خالی خولی ایونٹ بنا کر نکال دیا گیا ۔ جو یہی بتاتا ہے کہ پالیسی ساز افراد تاحال نظریات اور وژن سے عاری ہیں۔
اس کو سماجی میڈیا کہتے ہی شاید اس لیے ہیں کہ یہاں سالگرہ، برسی، انتقال، شادی، ساری خوشیاں غم بلکہ انصاف بھی یہیں مانگا جاتا ہے ۔اس ہفتہ دو لڑکیوں کی خودکشیوں پر سوشل میڈیا پر چرچا رہی ۔ایک تو کراچی میں ریسرچ ( پی ایچ ڈی) کی ایک طالبہ نادیہ اشرف کی خودکشی پر بھی انصاف مانگا گیا ، جس کے ذیل میں کئی باتیں آئیں مگر زیادہ تر اطلاعات و معلومات بوگس تھیں اس لیے کیس ایک ہی دن میں دَب گیا ، استاد پر الزام والی بات کا کوئی مصدقہ سر پیر سامنے نہیں آیا۔یہ ضرور ہوا کہ لوگ ابتدائی معلومات کی بنیاد پر بھڑاس نکالتے رہے۔کوئی کچھ لکھ رہا تھا تو کوئی کچھ ۔دوسرا ایک ڈاکٹر ماہا کا تھا جس پر ٹرینڈ تو نہیںبنا البتہ دونوں کیسز میں ڈپریشن کی مریضہ ہونے کا ذکر خوب آیا ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جس دین میں مایوسی کو ’کفر‘ ، خود کشی کو حرام قرار دیا گیا ہو اُس سے جڑے معاشرے میں ڈپریشن سرایت ہورہا ہو؟ماہرین دماغ و اعصاب کے مطابق یہ ایک ایسا مرض ہے جو انسان کو تیزی سے موت کی جانب لیجاتا ہے ۔14جون 2020ء کو بھارت میں ایک نوجوان ابھرتے ہوئے مشہور فلمی اداکار سوشانت سنگھ اور اُس کی خاتون مینیجر کی خود کشی تاحال معمہ بنی ہوئی ہے اور مستقل سوشل میڈیا پر ایک ماہ سے ڈسکس ہو رہی ہے ۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب CBI اِس خود کشی کیس پر کام کرے گی ۔
بات ہو رہی تھی سوشل میڈیا پر انصاف مانگنے کی جو کہ کئی کو تومل بھی گیا ۔خود کشیوں کے بعد اب آتا ہے سنگین قتل ’حیات بلوچ ‘کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔ #JusticeForHayathBaloch کا ہیش ٹیگ قاتل کی پہچان و گرفتاری تک موضوع رہا ۔لوگ بہت احتیاط کے ساتھ بات کرتے رہے ، 20اگست کی ٹرینڈ لسٹ میں جہاں راشد منہاس کی شہادت پر خراج تحسین تھا تو اُ سکے اگلے ہی نمبر پر حیات بلوچ کا مقدمہ لڑا جا رہا تھا۔چونکہ شروع میں حادثاتی موت قرار دیا گیا تھا اس لیے اُس پر خاصا غصہ نکالا گیا تھا ،معاملے کو بلوچوں سے نفرت کا رُخ دینے کی کوشش کی گئی ، بعد ازاں قاتل کی گرفتاری و مراحل کے بعدصورتحال کچھ بدلی۔بلوچستان کے شہر تربت میں ہونے والے اس دلخراش واقعہ پراس سے زیادہ کیا بات کی جائے کہ واقعہ کے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ ’حیات بلوچ کی ماں اپنے بیٹے کی لاش کے پاس پہنچ کرآسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھا کر کہہ رہی تھیں کہ اے اللہ انھوں نے میرے سامنے میرے بیٹے کو گولیاں ماری ہیں۔ تو دیکھ رہا ہے، تو انصاف کر، تو انصاف کر۔‘13 اگست کو ابسر کے مقام پر دہشت گردوں نے ایف سی کے قافلے کو (بارودی مواد) سے نشانہ بنایا اور ایک صوبیدار سمیت تین اہلکار اس حملے میں شدید زخمی ہوئے۔ حملے کے موقع پر تفتیش کے سلسلے میں علاقے میں موجود افراد بشمول حیات بلوچ سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی کہ ایک اہلکار نائیک شاہد اللہ نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں نوجوان طالب علم حیات بلوچ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی دم توڑ گیا۔بات تو لیک ہو ہی گئی اور سوشل میڈیا پر جیسے تیسے پہنچ گئی ۔کیس درج ہوا ، پولیس کے مطابق حیات بلوچ کے والد مزار نے اُس قاتل کو شناخت کرلیا۔ حامد میر ٹوئیٹ میں لکھتے ہیں کہ ،’یوم آزادی پر حیات بلوچ کے قتل کہانی پڑھ کر بہت افسوس ہوا وہ سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا ساتھ ہی اپنے غریب باپ کا ہاتھ بٹا رہا تھا اسے سڑک پر لٹا کر آٹھ گولیاں مارنے والے ایف سی اہلکار نے ایک نوجوان کا نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کا خون بہایا۔‘ اسی طرح نوجوان صحافی بلال غوری لکھتے ہیں کہ ’’تربت میں ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کیا گیا نوجوان حیات اللہ بلوچ۔ماسوائے’’ڈان نیوز’’کے کسی چینل پر اس ظلم اور زیادتی کے خلاف پروگرام نشر نہیں کیا گیا نہ ہی مجھ سمیت کوئی کالم نگار آواز اٹھا سکا کیونکہ کالم لکھ کر شائع کہاں کروائیں؟ یہ ہے ریاست مدینہ۔‘‘معروف اینکر اقرار الحسن لکھتے ہیں کہ ،’حیات بلوچ کی لاش پر اُس کے والدین کی دہائی کی جو تصویر گردش کر رہی ہے اُسے پوسٹ کرنے کا حوصلہ نہیں، بس یہ دعا ہے کہ اس کیس میں بھی کچھ عرصے بعد یہ سننے کو نہ ملے کہ حیات کے والدین نے مبینہ قاتل ایف سی اہلکار کو اللہ واسطے معاف کر دیا ہے۔ اللہ کرے اس کیس میں انصاف ہو۔‘
مشہور ترک ڈرامہ سیریل ارتغرل کا پہلا سیزن پاکستان میں (خراب ترین ) اردو ڈبنگ کے ساتھ مکمل ہوا ، جس کی کامیابی کے تاحال ریکارڈز پاکستان میں بھی سب سے اوپر ہی ہیں ۔دوسرے سیزن جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ہر ہفتہ دو یا تین دن موضوع بن رہا ہے اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتا نظر آرہی جاتا ہے ۔ اس سیریل کے اتنے وسیع اثرات ہیں کہ کیا بات کریں میگزین ہی کم پڑجائے گا ۔ اتنے خوبصورت ایمان افروز ڈائیلاگ، مناظر ،کہانی کہ لوگ ایک ایک سین پر پوسٹ بنا بنا کر ڈالتے رہے ۔ دوسرے سیزن میں چونکہ منگولوں اور اندرونی غداروں سے ارتغرل کا مقابلہ ہونا ہے اور قبیلہ کی حالت منگول حملے کے بعد شدید خراب ہے تو کہانی اپنے ناظرین کو مستقل جکڑ کر رکھی ہوئی ہے ۔ مگر بہت بڑی تعداد میں اُن ناظرین کو جو ترک زبان میں اصل آوازوں اور نیچے اردو زبان کے سب ٹائٹل کے ساتھ ڈرامہ دیکھ چکے ہیں اُنہیں دوسرے سیزن میں بھی کرداروں کی آوازوں پر شدید غم وغصہ ہے ۔ خصوصا ً منگول کمانڈر نویان اور اُس کے ساتھی باچھو کی آوازوںکے ساتھ تو بالکل انصاف نہیں کیا گیا ، جس کی وجہ سے کردار کا رعب ہی ختم ہو گیا۔اب کوپیک کے لیے دیکھنا ہے کس بھونڈی آواز کو منتخب کیا جا تا ہے؟اسی ہفتہ سیریل کے ہیرو ’اینگن التان ‘ کو پاکستانی این جی او ’ میک اے وش‘ نے رابطہ کر کے آن لائن ایک پروگرام میں لیا جس میں موذی مرض کا شکار بچوں کی خواہش کے مطابق ایک ارتغرل غازی کے ہیرو ’ اینگن التان ‘ کے ساتھ آن لائن نشست رکھی گئی ۔ افسوس یہ ہوا کہ اتنے اچھے پروگرا م میں انٹرنیٹ کی خراب کوالٹی کی وجہ سے اسٹریمنگ ، آڈیو ویڈیو کے اتنے مسائل رہے کہ اتنا خوبصورت پروگرام بھی ناظرین تو ناظرین خود ترکی میں بیٹھے ہیرو کے ساتھ بھی زیادتی کا باعث بنا۔ کئی گروپس میں اس پر تبصرے کیے گئے۔ تقریب میں موجود پاکستانی اداکار ہمایوں سعید نے بھی ’اینگن ‘کی اداکاری کو خوب سراہتے ہوئے کہاکہ ’اُنہوں نے تمام اقساط صرف اینگن کی اداکاری کی وجہ سے دیکھی ہیں ۔‘
ایک اور موضوع چڑیل کے نام سے سوشل میڈیا پر زیر بحث رہا جو کہ پاکستانی اداکاراؤں کو لیکر بنائی گئی بھارتی ادارے کی پروڈکشن پر مبنی ویب سیریز تھی۔ سیریز کو عورت مارچ کے مقاصد کی تکمیل اور اثرات و نفوذ کی ایک کوشش بتایا گیا اور پاکستانی معاشرے کی بنیادوں پر ضرب قرار دیا گیا۔یہ انڈیا کی سٹریمنگ ویب سائٹ زی فائیو پر اس ہفتہ نشر ہوئی ۔ اتفاق سے تمام وہی خواتین کرداروں کو کاسٹ کیاگیا جو پہلے سے ہی بھاری یا کٹر لبرل شناخت رکھتے یا رکھتی ہیں۔ثروت گیلانی کے مطابق ’ہمارے معاشرے میں چڑیل کا تصور یہ ہے کہ وہ عورت جو اپنے لیے آواز اٹھائے گی وہ بدتمیز اور بدچلن ہے، وہی چڑیل ہے۔ جو اپنے گھر میں اپنے حقوق کی بات کرے گی، باہر کسی دوسری خاتون کے حقوق کے لیے بات کرے گی، وہ بھی بدتمیز، بدچلن اور چڑیل ہے۔‘ اب اس میں خواتین کی ا ٓزادی کے نام پر کتنا لبرل ازم یا سیکولر ازم دکھایا ، اُنڈیلا گیا ہے اس کو جاننے کے لیے لکھاری اس کا ماضی، کردار، پیسہ لگانے والے اور ان کا ماضی صاف طور پر بتا رہا ہے کہ اس میں پاکستان یا اسلام یا نظریاتی طور پر خیر کا پہلو نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ اس ہفتہ وزیر اعظم پاکستان کا دُنیا نیوز کو دیا گیا ایک انٹرویو بھی اہمیت کا حامل رہا ، گو کہ عالمی منظر نامہ پر فلسطین ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، ترکی خاص موضوع ہیں مگر صرف سنجیدہ افراد کے لیے ۔امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ کے بعد جو متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عنوان کی خوشخبری سے تھی ۔خاصی ہلچل مچی۔ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ اس پر ذرا بھی لچک دکھائے گا تو کشمیر سے جائے گا ، یہ بات وزیر اعظم عمران خان نے خود بھی فرما دی، مگر سابقہ یو ٹرن کو دیکھ کر عوام کا یقین متزلزل ہی ہے ۔ سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے بھی سخت موقف نہیں آیا کیونکہ عرب امارات کے بعد اُسی کا نمبر لگا ہوا تھا ۔ سعودی عرب نے بھی ملی جلی بات کہی فلسطین امن کے نام پر ، یہ سب کچھ خطرناک ہے ۔عائشہ غازی لکھتی ہیں کہ ’اس کو لپیٹے جانے کی جلدی ہے اب۔ فائنل راؤنڈ شروع ہونے والا ہے جس میں صرف 2 ٹیمیں کھیلتی ہیں ، حق اور باطل۔ بیچ بیچ کچھ نہیں رہے گا۔ بس ایک ہی سوال کی بنیاد پر تقسیم ہو جائے گی۔ کہ کون اللہ کے ساتھ اور کون اللہ کے دشمنوں کے ساتھ۔جس طرح فلسطین، سعودیہ، عراق، اردن، شام اور ترکی کے علاقے گریٹر اسرائیل کے نقشے کا حصہ ہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کو تسلیم کر لینا فطرت کے ’’گریٹر پلان‘‘کا حصہ لگتاہے۔ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو گلے لگانے کے بعد ایمان فروشوں کی یہ قطار اسرائیل کے آگے زمین بوس ہونے کے لیے یوں ایک کے بعد ایک گرے گی گویا سات دانوں والی تسبیح ٹوٹ گئی ہو۔خود کو خادمین حرمین شریفین کہلوانے والے بھی خادمین اسرائیل کی سند لینے کو بے تاب اسی قطار میں ہیں ۔بن نائف کی جگہ بن سلمان کو ولی عہد اسی یقین دہانی پر بنایا گیا تھا، حالانکہ بن نائف بھی غلامی میں کسی طور کم نہیں تھے۔اپنی بادشاہت کے عوض مسجد اقصی کا سودا کرنے والے عرب ایک طرف اسرائیل کو گلے لگا رہے ہیں، دوسری طرف بی جے پی کے ہندوستان کو سر کا تاج بنا رہے ہیں ۔ امریکہ، اسرائیل، عرب، ہندوستان ۔ یک جان نظر آتے ہیں۔پاکستان میں عوام کی خاموش اور مسلسل ذہن سازی جاری ہے ۔عمران خان کا یہ بیان ’’اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے میرا ضمیر نہیں مانتا‘‘معنی خیز ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اسے اپنے ضمیر سے یہ سوال کرنا ہی کیوں پڑا؟ قائد نے کہا تھا کہ اسرائیل امت کے قلب میں کھونپا گیا خنجر ہے۔ اب اس قومی بیانیے پر فیصلہ بھی اگر صرف عمران خان جیسے بے ضمیر شخص کے ضمیر کی آواز پر ہونا ہے تو اس شخص کی تاریخ کی روشنی میں سمجھ لینا چاہئے کہ مستقبل کیا ہے ۔فرد ہو یا قوم ہر کسی کو دو دھڑوں میں سے کسی ایک کو چننا ہے ۔۔۔ یہ گھڑیاں فیصلہ کن ہیں۔ توبہ کے دروازے بند ہو جانے کا وقت قریب ہے۔افراد کے لیے بھی۔ اقوام کے لیے بھی۔

حصہ