جاؤ، جان چھوٹے شہر کی

462

’’آئیے آئیے کلیم بھائی۔‘‘
’’کیا چل رہا ہے؟‘‘
’’بس یونہی بیٹھے سرفراز کی باتیں سن رہے تھے۔‘‘
’’کس موضوع پر گفتگو ہورہی ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں، بس میں انہیں بتا رہا تھا کہ کراچی کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہورہی ہے، ہمیں دوسرے درجے کا شہری بنایا جارہا ہے، ہمیں حقوق نہیں دیے جارہے، سارے فنڈ اندرونِ سندھ میں لگائے جارہے ہیں اور کراچی کو اس کا جائز حق نہیں دیا جا رہا ہے۔‘‘
’’کراچی کے لیے آواز اٹھانا اچھی بات ہے، لیکن ناانصافی، حقوق اور دوسرے درجے کا شہری جیسے الفاظ کے استعمال سے ہمیں اجتناب برتنا چاہیے۔‘‘
’’ان الفاظ میں ایسا کیا غلط ہے جس کی وجہ سے آپ منع کررہے ہیں! کراچی ملک کا معاشی حب ہے، 70 فیصد پاکستان کو، جبکہ صوبہ سندھ کو 90 فیصد کما کے دیتا ہے، اسے نظرانداز کرنا ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے!‘‘
’’مجھے کوئی اعتراض نہیں، میں تو اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس قسم کی باتوں سے یعنی تعصب پھیلانے سے ماضی میں یہاں جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں، جس سے یہاں کے قبرستان آباد ہوتے رہے، پارک ویران ہوئے، یہاں تک کہ ہسپتالوں سے انسانی آہوں اور سسکیوں کی آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ میرے نزدیک سیاست مسائل کے حل اور عوامی امنگوں کے مطابق کی جانی چاہیے۔ لوگوں کی محرومیوں پر اپنی سیاسی دکان چمکانے سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘
’’آپ جو بھی کہیں، ہماری جماعت تو کراچی کے مظلوموں کے ساتھ ہے، ان کے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز اٹھاتی رہے گی۔ یہ شہر ہمارا ہے اور ہم ہی اس شہر کے والی وارث ہیں۔ یہاں کے لوگ ہمیں ووٹ دیتے ہیں اور ہم ہی اس شہر کے حقیقی نمائندے ہیں۔ ہمارے سوا کسی اور سیاسی جماعت کا یہاں کچھ نہیں۔ یہی ہماری طرزِ سیاست ہے اور ہم ایسے ہی اپنے حقوق لے کر رہیں گے۔‘‘
’’بس کردو سرفراز، تمہیں خدا کا واسطہ ہے، یہ گھسے پٹے ریکارڈ چلانا بند کرو۔ تم ہمیشہ ایسے ہی نعرے لگا کر لوگوں کو بے وقوف بناتے آئے ہو۔ اندرون سندھ جو حالات ہیں انہیں چھوڑو، اس کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی ریمارکس دیے ہیں کہ کراچی سے کشمور تک جہاں جائیں برا حال ہے، جس شہر کے تم دعوے دار بنے پھرتے ہو اس کی بات کرو۔ اس کو کس نے حقوق دینے تھے، اس کی محرومیاں کسے دور کرنی تھیں، یہاں سے کون ووٹ حاصل کرتا ہے؟ یہاں کے مسئلے تمہاری جماعت کو حل کرنے تھے، تم اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے یہاں بیٹھ کر لوگوں کو گمراہ کررہے ہو! میں تم سے دو چار سوال پوچھوں تو تمہارے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔ چلو میں تم سے تمہاری تیس سالہ حکمرانی کا حساب نہیں مانگتا، موجودہ صورت حال پر ہی بات کرلو۔ کسی بھی شہر کی ترقی میں بلدیاتی اداروں کا اہم کردار ہوا کرتا ہے۔ میں پرانے وعدوں اور دعووں کی بات نہیں کررہا، موجودہ میئر وسیم اختر کی کارکردگی کا ہی جواب دے دو۔ میئر کراچی نے حلف اٹھانے کے بعد یعنی اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد شہریوں سے جو وعدے کیے تھے وہی یاد کرا دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ کراچی پاکستان کا اہم شہر ہے، ہم اس کی ترقی اور خوبصورتی پر کام شروع کریں گے، شہریوں کی سہولت کے لیے مختلف منصوبے شروع کیے جائیں گے، کراچی کا وسیع ساحلِ سمندر اس کی خوبصورتی اور تفریحی مواقع میں بہت اہمیت کا حامل ہے، ہم پُرعزم ہیں کہ کراچی کے شہریوں کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے طبی اداروں کو معیاری بنائیں گے، روڈ انفرااسٹرکچر کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ ساحلِ سمندر کی خوبصورتی اور دیگر تفریحی مقامات کو بھی سہولتیں فراہم کریں گے، ہم نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت جن منصوبوں پر کام شروع کروایا ہے ان میں شہر کو صاف پانی کی فراہمی، سیوریج کی نکاسی اور صفائی ستھرائی جیسے دیرینہ مسائل شامل ہیں، ہماری جانب سے کیے جانے والے کاموں سے بتدریج بہتری آئے گی، ہماری کوشش ہے کہ کراچی خوبصورت اور ترقی یافتہ شہر ہونے کی حیثیت سے بحال ہو، ہم غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے آسانیاں پیدا کررہے ہیں تاکہ سرمایہ کار کراچی کی ترقی میں تعاون اور سرمایہ کاری کریں، اس سلسلے میں شہری حکومت ان کو تمام تر سہولیات مہیا کرے گی۔
ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ 2019ء میں 5 ارب 60 کروڑ 90 لاکھ روپے کی رقم سے شہر بھر میں 194 اسکیمیں مکمل کی جائیں گی۔ ان اسکیموں کے علاوہ سڑکوں، پلوں کی مرمت اور ازسرنو تعمیرات کے علاوہ تزئین و آرائش کے حوالے سے کیے جانے والے کاموں اور نالوں کی صفائی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ یہ وعدے بھی وفا نہ ہوسکے۔ میئر کراچی وسیم اختر کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی، ان کے چار سالہ دورکی کہانی میں اختیارات کا رونا رونے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی گلہ رہا کہ سندھ حکومت انہیں کام کرنے نہیں دیتی اور نہ ہی فنڈز مہیا کرتی ہے۔ وہ کہتے رہے کہ سندھ حکومت ان کو پابند کرتی ہے کہ کسی بھی منصوبے پر دو کروڑ سے زیادہ روپے خرچ نہ کیے جائیں۔ اگر ان کی باتوں کو مان بھی لیا جائے تو اس کلیے کے مطابق ان کے دورِ میں ایک ارب روپے میں پچاس منصوبے بنتے ہیں، اور 36 ارب میں کم و بیش ڈھائی ہزار منصوبے مکمل ہونے چاہیے تھے۔ وہ ڈھائی ہزار نہیں صرف ایک ہی منصوبہ بتادیں جو انہوں نے کراچی کے شہریوں کودیا، یا ان کے لیے مکمل کیا گیا۔ اگر وہ کوئی منصوبہ نہیں بنا سکے تو کم از کم یہی بتادیں کہ 36 ارب روپے کی خطیر رقم کہاں خرچ کی گئی؟ جس کا جواب شاید ان کے پاس نہیں۔ وہ شہر کی ترقی کے لیے کچھ کرنے کے بجائے کبھی مصطفی کمال پر تنقید کرتے نظر آئے، تو کبھی فاروق ستار کا تمسخر اڑاتے ہوئے دکھائی دیے، یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے سنہری دور اور اس کی جانب سے مکمل کیے جانے والے عوام دوست منصوبوں پر انگلیاں اٹھاتے رہے۔ ایک طرف اگر حکمران جماعتوں سے فنڈز نہ ملنے پر لڑائی کرتے رہے تو دوسری جانب پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہوئے نظر آئے۔ ان معاملات میں نہ اختیارات کا رونا تھا، نہ ہی فنڈز کی کمی کا واویلا۔ یہ رونا تو عوام کو سہولت دینے کا رونا تھا جو صرف اور صرف میڈیا کے سامنے تھا۔ شاید یہی جمہوریت کا حسن ہے، ورنہ بند سیوریج لائن کھلوانے، گلی کے نکڑ سے کچرا اٹھانے اور سڑک پر جھاڑو لگانے میں کتنے فنڈز اور کون سے اختیارات کی ضرورت ہوا کرتی ہے! کون نہیں جانتا کہ تعلیم، صحت، اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات دینے میں تو میئر کراچی وسیم اختر بے اختیار رہے لیکن اپنے معاملے میں وہ ضرور با اختیار نظر آئے۔ وہ ٹی اے ڈی اے سمیت تمام ذاتی مراعات تو حاصل کرتے رہے لیکن عوام کے لیے کسی بھی طرز کی سفری سہولت کا انتظام کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اگر کہا جائے کہ ان کے دور میں کراچی کھنڈرات میں تبدیل ہوا تو غلط نہ ہوگا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، اب تو چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی کہہ دیا ہے کہ کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں ہے، لوگ آتے ہیں اور جیب بھر کر لے جاتے ہیں، شہر کے لیے کوئی کچھ نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ میئر کراچی کہتے ہیں میرے پاس اختیارات نہیں، اگر اختیارات نہیں تو گھر جاؤ، کیوں میئر بنے بیٹھے ہو! چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے دیے جانے والے یہ ریمارکس کراچی کے شہریوں کے دل کی آواز ہیں۔ اور تو اور جب چیف جسٹس نے میئر کراچی سے پوچھا کہ آپ کب جائیں گے؟ اس پر وسیم اختر نے کہا کہ 28 اگست کو مدت ختم ہوگی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جاؤ جان چُھوٹے شہر کی۔ ان ریمارکس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف کراچی کے عوام بلکہ معزز عدالت بھی میئر کراچی کی ناقص کارکردگی پر انتہائی افسردہ اور برہم دکھائی دیتی ہے۔ یہ تو تھا عوام اور معزز عدلیہ کا موڈ یا برہمی۔ اس سلسلے میں اکرم سلیمانی کے بیٹے خالد عرف ملنگ نے جو کہا وہ بھی سن لو: میئر وسیم اختر سے کسی بھی منصوبے کی تکمیل یا نئے ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے کی امید لگانا ببول کے درخت سے پھل توڑنے کے مترادف تھا، میں پہلے دن سے ہی جانتا ہوں کہ انہوں نے اس شہر کے لیے کچھ نہیں کرنا، جن کی سیاست ہی عوام کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر مظلومیت کے نام پر ووٹ لینا ہو وہ بھلا کس طرح شہر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں! ظاہر ہے جب مسائل پر سیاست کی جائے گی تو عوام سہولیات نہ ملنے پر سوالات ضرور اٹھائیں گے، اور اگر مسائل حل ہوجائیں تب بھی عوام نئی راہیں تلاش کریں گے، یعنی پریشانی کی دلدل سے نکل کر عوام شعور کی بلندیوں کو پہنچیں گے، اس صورت میں نئی صاف ستھری اور باکردار سیاسی قیادت کی تلاش شروع کردیں گے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ سہولیات ملنے کے باوجود مزید آسائشیں چاہتا ہے جو اس کا حق ہے، ایسی صورت میں کسی بھی ایسی جماعت کا کامیاب ہونا جو لسانیت کے نام پر ووٹ حاصل کرے ممکنات میں سے نہیں، اس لیے ان جماعتوں کا یہی نظریہ ہوتا ہے کہ عوام کو پریشانیوں کی گہری دلدل میں ہی پھنسا رہنے دیا جائے اور وقت آنے پر عوام کی محرومیوں کو اجاگر کرکے اپنی جیت کا راستہ ہموار کیا جائے۔ یہ چکر آج کا نہیں برسوں سے یہی کچھ اس شہر کے ساتھ ہوتا چلا آرہا ہے، بلکہ ملک بھر میں اسی طرز کی سیاست کی جاتی ہے۔ خالد ملنگ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جس طرح ملک کے عوام جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں کراچی شہر کو بھی مخصوص انداز میں وڈیرہ شاہی کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔ ان حالات میں عوام کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ جو بلا شرکت غیرے مسندِ اقتدار پر بیٹھ کر بھی اختیارات نہ ہونے کا رونا روئے اور ہمارے لیے کچھ نہ کرسکے، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ آئندہ آنے والے انتخابات میں وہ بے اختیار ہمارے ووٹ کا حق دار ہے؟
بولو سرفراز، ہے کوئی جواب تمہارے پاس ان باتوں کا؟ مجھے یقین ہے خاموشی کے سوا تمہارے پاس کچھ نہیں۔ میں پھر کہہ رہا ہوں یہ شہر ہم سب کا ہے، اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہم کو مل کر کام کرنا ہوگا، لسانیت اور تعصب کے بجائے عوامی مسائل پر سیاست کرنا ہو گی، تبھی یہ شہر دوبارہ روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے، ورنہ اسے مزید کھنڈرات میں تبدیل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘

حصہ