جشن آزادی پر بی آر ٹی سوشل میڈیا کے نشانے پر

539

کورونا کے جاتے ہوئے دور میں بھی جس طرح کورونا کی احتیاطی تدابیر ہر فون کال پر سنائی جاتی ہیں اگر سوشل میڈیا کا زمانہ سمجھتے ہوئے اس کی بھی احتیاطی تدابیر بتا دی جائیں تو امکان ہے کہ کم ازکم حکومت وقت تو قدرے محتاط اقدامات کرے ۔گوکہ حکومت نے خود اپنے پاس بھاری تنخواہوں پر ایسے ایسے مشیران جمع کیے ہوئے ہیں کہ ’الامان الحفیظ ‘ہی پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔اب بھلا بتاؤ کہ کئی سالہ تاخیر کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ کے مرکز پشاور میں پی ٹی آئی کے لانچ کردہ پشاور بی آر ٹی ( پشاور بس ریپڈ ٹرانسٹ) افتتاح پر ڈھنڈورا کس کام کا؟ 2017میں 6ماہ کے دورانیہ میں تیارکرنے کے دعوے کے ساتھ ہونے والا افتتاح اب 2020کے اختتام میں کروگے تو کیا ثواب اور کیانیکی مل سکے گی؟حکومت کی سوشل میڈیا ٹیم جہاں ٹوئٹر پر و دیگر سماجی میڈیا پلیٹ فارمز پر اس ’عظیم‘ کارنامے کا خوب شور مچا رہی تھی اور اُس کی نمایاں خصوصیات ودیگر عوام کو سمجھا رہی تھی وہیں دوسری جانب اس پروجیکٹ میں مبینہ کرپشن کے کے خدو خال بھی واضح کیے جا رہے تھے کیونکہ 49 ارب روپے کا منصوبہ 70ارب روپے میں جا کر مکمل کیا گیا اور اس دوران اہم بات یہ ہے کہ اس پورے منصوبے میں اول تا آخر ایک ہی حکومت رہی ہے CorruPTIonFactory، BRTFlopProject کے ہیش ٹیگ حکومت کے خلاف ٹرینڈ لسٹ میں چھائے رہے جس کے ذیل میں یہ سب نکات اُچھالے جاتے رہے ۔برمنگھم سے حسین اصغر اس افتتاح پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ایک انتہائی آسان سا منصوبہ جو عمران نیازی سے کئی سالوں میں مکمل نہیں ہو سکا۔ اور ایک ایسا منصوبہ جو واقعی لوگوں کی آنکھوں کے سامنے زمین پر بناتھا وہ منصوبہ جس کو عمران اور اسعد عمر ۸۲ ارب میں بنارہے تھے جو اب تقریباً 150 ارب تک پہنچ چکا ہے۔اس نامکمل منصوبے کا عمران نیازی نے افتتاح کیا۔پشاور میں میگا پراجیکٹ بی آر ٹی منصوبہ کے افتتاح کا اعلان تو کر دیا گیا، لیکن منصوبے میں شامل تین ڈپوز، کمرشل پلازے اور سائیکل ٹریک پر تاحال کام مکمل نہیں کیا جا سکا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کا دعویٰ ہے کہ بی آر ٹی منصوبہ مکمل کرلیا گیا ہے تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ منصوبہ میں شامل تین ڈپوز پر کام تاحال جاری ہے۔ جبکہ چمکنی، ڈبگری اور حیات آباد ڈپوز پر پارک اینڈ رائیڈ اور کمرشل پلازوں پر کام بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکا۔سائیکل ٹریک بی آر ٹی منصوبہ کا حصہ ہے تاہم خیبربازار سے ڈبگری تک تقریباً دو کلومیٹر تک ہی سائیکل ٹریک مکمل ہو سکا ہے۔ سائیکل کے لیے 32 اسٹیشنز قائم کیے جانے تھے لیکن صرف 6 اسٹیشنز پر ہی کام مکمل ہوسکا ہے۔بی آر ٹی منصوبہ میں 32 اسٹیشنز قائم کئے جانے تھے جن میں ایک اسٹیشن کو کم کرکے 31 کر دیئے گئے۔حکومت نے سبسڈی کے بغیر منصوبہ چلانے کا دعویٰ کیا تھا تاہم کمرشل پلازے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے بسیں چلانے کے لیے بجٹ میں دو ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔کاش کے پاکستان میں واقعی کوئی صادق و امین کی حکومت ہوتی تو اس منصوبے کے اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن کے ثبوت کافی تھے عمران اور اس کی ٹیم کو پھانسی دینے کے لئے۔لیکن عجیب طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس ہی عمران نیازی نے 50 ہزار ارب کے‘‘راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبے‘‘ کا افتتاح کردیا اور حال یہ ہے کہ ابھی چند دن پہلے چائینہ سے 1 ارب ڈالر لے کر سعودیہ کا قرضہ واپس کیا گیا ہے اور ابھی ۲ ارب دینا باقی ہے۔ہر کرپشن کے بعد عمرانیوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے،نواز اور زرداری بھی تو کرپشن کرتے تھے۔کرپشن کرتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے: ن لیگی۔کرپشن کرتا ہے تو بتاتا بھی تو ہے: عمرانی۔اور میرا خیال ہے کہ دونوں میں آیوڈین کی انتہائی کمی ہے ۔پشاور میٹرو صرف ایک پروجیکٹ نہیں بلکہ عمران خان کے کرپشن کی‘‘رسیدیں‘‘ ہیں۔کئی مرتبہ افتتاح کی تاریخوں کو آگے بڑھانا، شہر کی آب و ہوا کی تباہی، سی ای او کا مستعفی ہونا، بلیک لسٹ کمپنی کو ٹھیکہ، تیاری کے لیے گیا قرضہ، و دیگرزیر بحث رہے۔مزید سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا پر جو مذاق بنا وہ خود وزیراعظم کے ماضی کے بیانات کاتھا جس میں انہوں نے جوش خطابت میں بھی اور ٹھنڈے کمرے میں سوال کے جواب میں پورے شعور سے صاف طور پر اس طرح کے پروجیکٹس پر سخت تنقید کی تھی ۔ کچھ جملے پیش ہیں ۔ یہ وہی خطابات کے جملے ہیں جن کے کلپس نکال نکال کر میمز بنائی گئیں اور وزیر اعظم عمران خان کے تضاد پر مبنی بیانات کو نمایاں کیا گیا۔ان سے کم ازکم یہ ضرور واضح ہوا کہ تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن میں کامیابی سے قبل تمام تر جدوجہد صرف اور صرف ماضی کی حکومت یعنی میاں نواز شریف کی حکومت پر بے جا تنقید تھی اور کچھ نہیں ۔ماضی میں عمران خان فرماتے تھے کہ ’ میٹرو پر نہیں ۔ انسانوں پر پیسہ خرچ کرنا چاہیے۔‘ اورنج ٹرین اور میٹرو بس سے قومیں نہیں بنتی۔‘ بسیں کون سے ملک میں اوپر چلتی ہیں ہم تو ٹرین چلائیں گے ۔‘ ’لاہور میں جو یہ میٹرو بس لائی گئی ہے اگر یہ پشاور میں لائیں تو ہم سب سے پہلے اسکے خلاف کھڑے ہوںگے ‘ ۔ ’ بجائے بجلی بنانے کے جنگلہ بس سروس بنا دی‘۔ اس پر وسیم بادامی نے اپنے شو میں سارے سوال کیے جس کے جوابات پر مبنی کلپس سوشل میڈیا پرافسوس ، مذاق اور تنقید کا مستقل نشانہ بنتے رہے ۔ اب ایسی ویڈیو کے دور میں تو تردید کا سوال ممکن ہی نہیں ۔
برسات کے موسم، کورونا لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی بڑی حد تک خاتمے کے بعد قیام پاکستان کے 73سال مکمل ہونے پریہ عظیم دن ایک بار پھر ’جشن آزادی‘ کے عنوان سے سوشل میڈیا سمیت ہر ہر محاذ پر ، گلی ،محلہ، شہر گاؤں میں بھر پور مگر ’نامعلوم حب الوطنی ‘کے جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا۔IndependenceDay سمیت کئی ہیش ٹیگ ٹرینڈ کی صورت منائے جاتے رہے۔یہ نا معلوم اِن معنوں میں بھی کہ ایک بڑی اکثریت اسے ’یوم آزادی‘قرار دے رہی تھی جب کہ میرے نزدیک تو یہ ’یومِ قیام پاکستان ‘ہے ۔اس فرق کو سمجھنا اس دن کو منانے کے جوش اور موٹی ویشن کے لیے بہت ضروری ہے ۔ ہم جانتے ہوں گے کہ 14 اگست 1947سے قبل تک دُنیا کے نقشے پر کہیں بھی ’پاکستان‘ نامی ملک کا وجود نہیں تھا جسے ’انگریزوں‘ یا ’تاج برطانیہ ‘ نے غلام بنایا ہواہو۔ دُنیا کے نقشے پر ایک عظیم ہندوستان ہی تھا ۔
دُنیا کی معلوم تاریخ میں پہلی بار ایسا ہواکہ ہزاروں سال کی تاریخ رکھنے والے ایک بڑے رقبہ پر محیط ملک سے زمین کا ٹکڑا مذہب کے نام پر کاٹ کر الگ ملک بنایا گیا ۔ملک بھی ایویں نہیں بلکہ ایک انتہائی بڑے نظریے کی بنیاد پر بنا ہو ، جس کی نظیر نہیں آس پاس نہیں ہو۔روس سے الگ ہونے والے ممالک کی مثال یہی تھی کہ پہلے روس نے اُن پر قبضہ کیا اور جب اُس کی حالت پتلی ہو گئی اور وہ نہیں قابل رہا اُن خطوں کا مالی بوجھ اٹھانے کے تو اُس نے جان چھڑا لی ۔مگرذراآپ اندازہ تو کریں کہ اس برصغیر ہندوستان کو ایک ملک یا ایک مرکز کے طور پر 1000سال تک مسلمان حکومت کرتے رہے اس کو بنایا ، سنوارا ، وہاں رہنے بسنے والی دیگر اقوام و مذاہب کا پورا خیال رکھا یہاں تک کہ پورے مسلم دور حکومت میں آپ کو برصغیر کے اندر ہندوؤں کے کسی قسم کے معاشی، سماجی ، سیاسی، بائیکاٹ ، فساد ، نسل کشی کی کوئی بڑی رپورٹ نہیں ملے گی ۔ چاہے تو تسلی کے لیے گوگل کرلیں یا کسی تاریخ دان سے بھی معلوم کرلیں ۔ اِسی خطہ میں سازش کر کے مسلمانوں سے اقتدارچھین کر قابض ہونے والی انگریز حکومت کے 100سال مسلمانوں کے قتل، تعصب ، نفرت، سیاسی ، سماجی، مذہبی، معاشی ہر قسم کے استحصال سے بھرے ہوئے ہیں، جن کے ساتھ اس ظلم میں ہندو بھی ہمنوا ہو چکے تھے ۔تب کہیں جا کر 1940ء میں الگ خطہ کا حل حکیم الامت نے سمجھایا تو 7سال میں ایک عظیم قربانیوں بھری جدو جہد کے نتیجے میں الگ ملک ’پیدا ‘ہوا ۔ اس لیے مجھے 14اگست کے لیے ’آزادی ‘کا لفظ ہلکا محسوس ہوتا ہے ،قیام پاکستان زیادہ بہتر لفظ ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمیں آزادی ہی ملی ہے مگر یہ آزادی کہہ کر ہم پس منظر میں بھارت میں مقیم 25کروڑ مسلمانوں کو غلام گردانتے ہیں کہ ہم تو آزاد ہو گئے مگر وہ بھائی غلام ہیں جنہوں نے از خود وہاں رہنا قبول کیا کہ اُنہیں وہ جگہ ’آزاد ‘ ہی لگی ۔مسلمانان ہند کی ایک بڑی تعداد نے قومیت کے لبادے کو ہندوستان نے مگر آج73سال بعد کا منظر نامہ یہی بتا رہا ہے کہ بھارتی مسلمان اس وقت ’شودر‘( ہندوؤں کی نچلی ذات) والی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کانگریس ہو یا RSSکادور حکومت سب بھارتی مسلمانوں کے لیے دو دھاری تلوار ہی ثابت ہوئے ہیں۔
اس ہفتہ جنوب بھارت کے شہر بنگلو رجو کہ ریاست کرناٹک کا دارالاخلافہ بھی ہے اور انڈیا کی ٹیکنالوجی سلیکون سٹی بھی کہلاتا ہے ، وہاں ایک (مبینہ) کانگریسی رکن اسمبلی کے بھتیجے نے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پرنبی کریم ﷺ سے متعلق ایک توہین آمیز پوسٹ ڈال دی ۔ جس پر مقامی مسلمانوں کی جانب سے شدید احتجاج شروع ہو گیا۔ بینگلور کے اس شہر میں 14فیصد سے زائد مسلمان بستے ہیں ۔متعلقہ سیاست دان کے گھر کے باہر مسلمان جمع ہو گئے اور احتجاج نوٹ کرایا۔پولیس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور کسی کے بے رحمانہ حکم پر ہی مظاہرین پر فائرنگ کر دی ۔ اس سے کم از کم تین افراد جام شہادت نوش کر گئے 10سے زائد زخمی بھی ہوئے جبکہ تقریباً 110 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔پولیس نے مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کا الزام بھی لگایامگر ٹائمنگ غلط کر دی ۔اصل ترتیب کے مطابق یہ سارا ہجوم مشتعل پولیس کی فائرنگ اور بے جا گرفتاری پر رد عمل دینے پر مجبور ہوا ، جو کہ لازمی طورپر ایسا ہی ہوتا ہے ۔ کرفیو کے نفاذ سے انتظامیہ نے مسئلہ کا حل نکالنا چاہا مگر ایسا کرنا مٹی ڈالنے کے مترادف تھا۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے انتہا پسند ہندو شخص کی حرکت اور پولیس کے اقدام پر اسلام آباد میں انڈیا کے سفارت خانے سے سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔معاملہ دُنیا کے اربوں انسانوں کی محبوب ترین ہستی کا ہے جس میں کئی کروڑ تو خود بھارت میں بستے ہیں اسلیے بھارت جتنا چاہے اس واقعے کو دبا لے اثرات لا محالہ باہر نکلیں گے ۔ دیگر میڈیا نے بھی عالمی دباؤ کی خاطر مجموعی طور پر چپ سادھی ہوئی ہے تاہم شمع رسالت ﷺ کے شہید پروانوں کا خون رائیگاں نہیں جانے والا۔بھارت نے کمال یہ دکھایا کہ سارے مظاہرین کو انتہا پسند دہشت گرد قرار دے کر مزید اُن کے خلاف 9 ایف آئی آر کاٹ ڈالیں۔ اس کا اثر یہ ہواکہ توجہ فیس بک پوسٹ سے ہٹ کر ’دنگوں ‘اور مسلمانوں کی جانب کر دی گئی ۔ کرفیو سے تو شہر کو ہی ڈسٹرب کرنا تھا اور اُن کو پتا تھا کہ ایسا کرنا ہی سیاسی طور پر فائدہ مند ہوگا۔اہم بات یہ ہے کہ پوری ریاست میں 28سیٹوں پر سے 26مرکزی حکومت یعنی BJP نے جیتی ہیں جبکہ کانگریس صرف 2سیٹوں پر ہے ۔اہم بات یہ بھی رہی کہ اس سب میں سوشل میڈیا پر مسلمانوں کی جانب سے مندر کی حفاظت کے لیے انسانی زنجیر سب سے زیادہ نمایاں شیئر ہوتی رہی۔دوسری جانب ہندو کمیونٹی اپنے طور یہ بھی کہتی رہی ’کہ کیا مسئلہ ہے ، ہمارے بھی تو خداؤں کے بارے میں اتنی باتیں کی جاتی ہیں ، ایک پوسٹ ان کے نبی کے بارے میں آ گئی تو کیا ہوا۔‘اب اس ذہنیت کا کیا جواب دیا جائے ؟
اسی طرح مسجد میں مبینہ گانے کی شوٹنگ پر بلال سعید کی معافی کی ویڈیو اور اس کے بعد پشاور میں مدرسہ میں بچے کی لاش والا معاملہ بھی کچھ ڈسکس ہوا مگر سب جشن آزادی کی نذر ہو گیا۔ اس پر اگلے ہفتے بات کریں گے۔

حصہ