یہ وطن ہم سب کی پہچان ہے

1060

۔14 اگست ہو اور مجھے بابا کی یاد نہ آئے یہ نا ممکن ہے۔ قاری حضرات حیران ہوں گے کہ مجھے اس عظیم دن پر عظیم اور معتبر باپ کی یاد کیوں آتی ہے؟ وجہ ہے ان کی مثبت سوچ و عمل جو وہ اس ارض وطن کے لیے دل کی گہرائیوں میں پیوستہ رکھتے تھے اور اپنے خوبصورت خیالات کا اظہار ہر سال ہمارے بھی گوش گزار کرتے تھے بابا کو ہم سے جدا ہوئے گیارہ سال بیت چکے ہیں ان کے وہ خوبصورت خیال و سوچ آج بھی اس عظیم دن پر میرے دل و دماغ پر دستک دے رہی ہے۔ مزے کی اور دلچسپ بات یہ کہ ہر مرتبہ (ہر سال) ہم بہن بھائی اتنے یہی انہماک اور دلچسپی سے باپ کی گفتگو کو سنتے تھے اور ذہن نشین کرنے کے ساتھ وطن عزیز کی محبت ہمارے دل میں پروان چڑھتی گئی بابا کے الفاظ اس وقت بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔
بیٹا آپ سب بڑے خوش قسمت ہیں کہ آپ سب نے آزاد سر زمین پر آنکھ کھولی ایسی پاک دھرتی جسے آپ اپنا کہہ سکتے ہو کہ یہ ’’میرا وطن ہے یہ میری پہچان ہے‘‘ چاروں طرف ہندو آبادی میں گھرے ہم مسلمان تعصب و نفرت کے نشانے پر جی رہے تھے خصوصاً متوسط و نچلے طبقے والے مسلمان اگر کوئی ہندو ہمارے نزدیک سے گزر جاتا اور غلطی سے ہم اسے چھو لیتے تو نفرت سے دیکھ کر منہ پھیر لیتا ان کی وہ نفرت و تعصب جس کا احساس وقت کے ساتھ بڑھتا گیا یہی وجہ تھی کہ شعور کی سیڑھی پر چڑھتے ہی ہم سندھ مدرسۃ السلام کے تمام شاگرد قائداعظم کے گرویدہ ہو گئے ان کی تقریر سننے اور ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھروالوں سے چھپ چھپ کر اسکول کی چھٹی کے بعد جلسوں میں پہنچ جاتے درختوں پر چڑھ کر بیٹھ جاتے کہ اپنے قائد کی ایک جھلک نظر آجائے۔ گھر آتے تو ڈانٹ پڑتی تو فوراً قائداعظم کی تقریر کے چند جملے انہیں سناتے جس سے نہ صرف ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا بلکہ کرید کرید کر پوچھا جاتا اور کیا کہا انہوں نے؟
پھر گھر کی بڑی بوڑھیاں جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں دیتی کہ اللہ ہم اس دھرتی پر رہنے والوں کو آزاد دھرتی نصیب ہو جائے جو ہماری پہچان بن جائے…
ہر سال بابا اپنی داستان ہمیں گوش گزار کرتے اور ہر سال ہم کہا بہن بڑے تجسس سے بابا سے پوچھتے بابا آپ نے قائداعظم کو ’’خود دیکھا‘‘ تھا بابا بڑے فخر سے گردن اثبات میں ہلاتے اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے پھر گویا ہوتے یہ ’’دھرتی‘‘ آسانی سے ہمیں نہیں ملی بلکہ اس دھرتی پر رہنے والے ہر مکتبہ فکر ہر زباں بولنے والے نے محنت کی ہے قربانیاں دیں ہیں دکھ جھیلے ہیں اسی لیے آج ہمیں ان ہی جذبوں کو بروئے کار لا کر اس وطن عزیز کی حفاظت کرنی ہے۔ جب ہم بچے تھے تو یہی سمجھتے تھے کہ وطنِ عزیز کی حفاظت صرف سرحدوں پر بیٹھی افواج پاکستان کی ذمہ داری ہے لیکن وقت کے ساتھ احساس ہوا ہر شخص وطن عزیز کا سپاہی بن سکتا ہے۔
٭…٭
ہمارے وہ بھائی بہن جو ہندوستان سے لٹے پٹے اس دھرتی پر آئے تو یہاں پہلے سے مقیم بھائیوں نے انہیں خوش آمدید کہا (سوچتے ہوئے بابا کہیں دور پہنچ گئے) ہاں کیا زمانہ تھا محبتیں تھیں کچھ یہاں والوں نے ان سے زندگی کے گر سیکھے کچھ انہوں نے یہاں والوں سے، غرض سب ایک ہو گئے ایک تسبیح میں پروئے ہوئے خوبصورت دانوں کی طرح جن کی پہچان اصل میں تسبیح ہی ہے نہ کہ ایک ایک دانے کی الگ پہچان بڑے خوبصورت دن تھے تمام زبانیں بولنے والے یکجا ہو کر ایک گلدستہ بن گیا اور ان سب کی پہچان ’’پاکستان‘‘ بن گیا۔

ہمارا پاکستان ہم سب کا پاکستان
ہم سب کی آواز یہ پاکستان ہے

پھر بابا ہم سب بہن بھائیوں کی طرف دیکھ کر مسکراتے… پھر کہتے کہ چاہے اس دھرتی پر رہنے والا کسی بھی زبان کا بولنے والا ہو، کسی بھی صوبے کا مقیم ہو یا کسی بھی شعبے سے منسلک ہو لیکن ہماری پہچان ہمارا یہی وطن ہے۔ یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے بابا کی آنکھوں سے وطن عزیز کے لیے محبت عیاں ہوتی۔ جو خصوصاً آج میں ان سطور کو بیان کرتے ہوئے محسوس کررہی ہوں۔
عمر کی اس منزل پر پہنچ کر یہ احساس بخوبی ہو گیا ہے کہ بے شک یہ وطن ہماری پہچان ہے بابا کی یہ گفتگو ہر سال ہم سے شیئر کرنے کا مطلب بھی واضح ہو گیا ہے کہ ہم اس دھرتی کے باسی جو اس کے پاسبان ہے صرف سرحدوں پر ہی رہ کر اپنے فرائض ادا نہیں کر سکتے بلکہ ہر جگہ کسی شعبہ سے منسلک ہو کر اس ریاست مدینہ کے نام سے حاصل کیے ہوئے وطن کے لیے دل و جان ایمانداری، خلوص نیت سے فرائض انجام دینا ہی ہم سب کے لیے اولین ترجیح ہے جس سے غفلت یا کوتاہی برتنا ہم سب کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ ہماری غفلتوں کوتاہیوں غیر ذمہ دارانہ رویے اور عمل برائے راست اس وطن عزیز کی عزت و ناموس کے لیے خطرہ کا باعث بنیں گے جو کسی صورت میں بھی کسی بھی محب وطن کو برداشت نہیں ہو گا بابا کی ہر سال اس نصیحت آموز گفتگو نے ہم سب بہن بھائیوں کی اس نہج پر تربیت کی ہے کہ ہمارے ذہنوں میں نقش ہے کہ یہ وطن ہماری پہچان ہے اس پہچان میں کوئی دراڑ ہماری غلطیوں کی پناہ پر نہ آئے (آمین)۔
آج مقام افسوس ہے کہ اس دھرتی پر رہنے والے قومیتوں اور صوبوں میں بٹ کر اصل اپنی پہچان اور شناخت فراموش کرتے جا رہے ہیں تسبیح کے یہ بکھرے دانے تو راہگیروں کے پیروں تلے روند کر مزید اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں ان کا ایک تسبیح میں چڑنا ہی خوبصورت تسبیح کی شکل اختیار کرنا ہی ان کی اصل پہچان ہے جس سے ہمیں غافل نہیں ہونا چاہیے یہی چیزیں اپنی اولاد کو بھی ذہن نشین کرانی ہو گی پاکستان جو ہماری پہچان ہے جس پر دنیا کی چاروں طرف سے نظر ہے اس خطۂ عظیم کی حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے اس کو مضبوط سے مضبوط بنانے کے لیے ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلانا ہو گا دلوں کی نفرتیں ختم کرکے ایک میز پر آنا ہو گا ’’میں‘‘ کے چکر سے نکل کر ’’ہم‘‘ کی رسی کو پکڑنا ہو گا ملک و قوم کے وقار کے لیے غلط راہوں کو بند کرکے ایمانداری سے کام کرنا ہو گا اسی میں وطنِ عزیز کی اور ہم سب کی بھلائی پنہاں ہے۔
آخر میں بابا کی ایک اور بات ضرور شیئر کروں گی جس کو ہم سب کو نئی نسل سے ضرور شیئر کرنا ہے۔
بزرگوں نے یہ وطن ہماری نسلوں کو ایک تھالی میں رکھ کر تحفہ کی طرح پیش کیا ہے اس کی قدر کرنا لازمی ہے اس تھالی میں سوراخ کرنے سے وطن عزیز کو یعنی ہماری پہچان کو نقصان ہوگا جو کسی بھی محب وطن کو برداشت نہ ہو گا…
خدا میرے وطن عزیز کو سدا سلامت رکھے یہ ہے ہماری پہچان تا قیامت قائم رہے۔ خدا سے ہے یہی دعا ارض وطن شاد آباد رہے۔ مہکتا رہے اس کے شہر و دیہات مانند گل گلزار رہیں۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

حصہ