سیکولر ذہنیت پر سید مودودیؒ کی گرفت

659

بیسویں صدی عیسوی اپنی ہنگامہ خیزی کے اعتبار سے تاریخ انسانی میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ مغربی دنیا میں گذشتہ دو صدیوں کے دوران میں آنے والی پے در پے تبدیلیاں مجتمع ہو کر ایک نئے منظر کی تشکیل کر رہی تھیں‘ جس کے تخلیقی تلاطم سے پیدا ہونے والے ارتعاش نے دنیا کے دور دراز علاقوں تک اپنے اثرات پھیلا دیے تھے۔ اسی عرصے میں مسلمانوں کی قوت و عظمت کی آخری نشانی‘ یعنی سلطنت عثمانیہ جس کا سکّہ کسی زمانے میں مشرق وسطیٰ سے لے کر شمالی افریقا اور بلقان تک چلتا تھا‘ یہ تھکی ہاری سلطنت حالت اضطرار میں بے رحم اقوام مغرب سے زندگی کی مہلت مانگ رہی تھی‘ جو اسے دینے پر تیار نہیں تھیں۔
جنوبی ایشیا کی سرزمین اس سے پہلے ہی مسلم اقتدار کے عروج کا خاتمہ دیکھنے کے بعد برطانوی استعماری نظامِ حکومت میں کچھ عرصہ گزار چکی تھی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسے حسّاس طبیعت کے شخص کے لیے یہ ایک نہایت دلخراش تجربہ تھا اور ہر گزرنے والا دن ان کے درد و کرب میں اضافہ کردیتا تھا۔ یہ تبدیلی اپنے جوہر میں محض اسلامی اقتدار سے برطانوی اقتدار میں تبدیلی نہ تھی‘ بلکہ ایک ایسی تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں یہاں کا معاشرتی اور سیاسی بلکہ اخلاقی نظام تک درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔ یہ غیرملکی افکار و خیالات کی ایک یلغار تھی جو مسلم معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کیے جا رہی تھی۔ یہ صورت حال اس حقیقت کے سبب اور بھی خراب ہو گئی تھی کہ انگریزوں نے ہندوؤں کو اپنا ایک فطری دوست سمجھنا شروع کر دیا تھا‘ اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ہند کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کی صورت حال کو ان دونوں فریقوں نے مسلمانوں کو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے مٹانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ مسلمانوں کی طاقت کے خاتمے‘ ان کی اخلاقی رہنمائی کرنے والی قیادت سے محرومی اور آخرکار ان کی تہذیب کی تباہی نے ان کو ایک عجب افسردگی سے دوچار کر دیا تھا۔
سید مودودیؒ سمجھتے تھے کہ مسلم ممالک پر مغربی استعمار کا فوجی قبضہ ایک عارضی چیز ہے اور یہ زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے گا۔ ان کی نظروں میں اصل خطرہ مغربی فکر سے تھا جو عیسائیت کے رہے سہے اثر سے آزاد ہونے کے بعد اب مسلمانوں کو اپنے پنجے میں جکڑنے کی تیاری کر رہی تھی۔ مغرب کی استعماری دنیا کے لیے یہ بات نہایت اہم تھی کہ مسلمانوں کی طاقت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بعد ان کے دل و دماغ کو بھی فتح کیا جائے۔ سید مودودیؒ نے اس صورت حال میں مضمر خطرے کو محسوس کیا اور اس پر تین مختلف صورتوں میں پیش بندی کی: ایک یہ کہ انھوں نے مغربی طرزِ فکر کا خود گہرا مطالعہ کیا۔ دوسرے‘ انھوں نے دلائل سے اسلام کی برتری اور فوقیت ثابت کی‘ اور تیسرے یہ کہ مسلمانوں کا حوصلہ‘ امنگ اور اعتماد بحال ہو۔
اگرچہ سید مودودیؒ کسی یونی ورسٹی وغیرہ میں رسمی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے تھے‘ لیکن انھوں نے اپنے طور انگریزی زبان سیکھنے کے لیے سخت جدوجہد کی اور پھر حملہ آور تہذیب و ثقافت کے قالب سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے جس قدر مطالعہ وہ کر سکتے تھے‘ انھوں نے کیا۔ ۱۹۳۰ء کے عشرے سے بہت پہلے‘ جب سید مودودی کے عروج کا آغاز تھا‘ مغرب نے مذہب کو خیر باد کہہ کر سائنس کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا تھا۔ اب دنیا (مغربیوں کے نزدیک): خدا کی قدرت کاملہ سے ’’آزاد‘‘ ہو چکی تھی‘ جسے الہامی علم کی ضرورت نہیں تھی‘ بلکہ انسانی حواس کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ہی اس کا واحد ذریعہ تھا‘ جسے ’’میکانکی مادیت‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ آئن سٹائن اور پلانک کے غیر مادی نظریات کو اس مادہ پرستانہ سوچ میں اپنی جگہ بنانے میں ابھی کچھ وقت درکار تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں ہر طرف ڈارون‘ مارکس اور فرائیڈ کے نظریات اور ان کی تعبیرات چھائی ہوئی تھیں۔ ان تین مغربی مفکرین نے اس عقیدے کو پاش پاش کر دیا تھا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ کہ دنیا میں اس کی موجودگی کا ایک مقصد ہے۔ نظریۂ ارتقا کے قائلین نے اس تصور کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ محض ایک دھوکا ہے جس کا سبب انسان کی کائنات میں اپنے آپ کو مرکزی حیثیت دینے کی خواہش ہے۔ قادر مطلق کے تشکیل کردہ ایک منظم منصوبے کی نفی کرتے ہوئے انھوں نے زندگی کے مفہوم میں سے روحانی عنصر کا خاتمہ کر دیا۔ فرائیڈ‘ جس نے انسانی شعور پر غور و فکر کیا تھا‘ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ محض انسان کے لاشعور پر قابض وحشی قوتوں کے باہمی تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایک نازک سا ضمنی مظہر ہے۔ چنانچہ انسان کے ’’ذی عقل‘‘ ہونے کا وہ تصور بھی ختم ہو گیا جس کا اٹھارھویں صدی میں برپا ہونے والی ’’روشن خیالی کی تحریک‘‘ میں بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا۔ ان سب پر مستزاد جدید علم افلاک کی یہ دریافت تھی کہ زمین کی حیثیت پوری کائنات میں ایک بہت ہی چھوٹے سے سیارے کی ہے‘ جس کے باعث اس کی حیثیت اور بھی کم ہو کر رہ گئی۔ پھر ان تینوں فلسفیوں نے نہ صرف انسان کو اس کے شرف سے محروم کیا بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا: ’’آخر ’انسانیت‘ ہے کس چیز کا نام‘‘؟ کیونکہ ان کی نظر میں‘ اس کرۂ ارضی پر زندگی گزارنے والے بہت سے دوسرے جانوروں کی طرح انسان بھی محض ایک جانور ہی تو ہے۔ مختصر یہ کہ مغرب میں دنیا اور انسان کے بارے میں جو تصور ابھر رہا تھا‘ وہ خوفناک حد تک اسلام کی سبھی بنیادی تعلیمات سے متصادم تھا۔ چنانچہ سید مودودیؒ نے اپنی توجہ عقلیت‘ ایجابیت‘ ڈاروینی ارتقا اور کارل مارکس کی بیان کردہ اشتراکیت پر مرکوز کر دی۔
m عقلیت یا غلامانہ ذہنیت: اس سے پہلے کہ سید مودودیؒ، ڈارون اور دوسرے مغربی مفکرین کے نظریات کو چیلنج کرتے‘ انھوں نے خود مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے کی سوچ کی سطحیت واضح کرنا ضروری سمجھا۔ وہ سوچ کہ جس نے مغرب کی برتری تسلیم کر لی تھی۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
جہاں ان ]مسلمانوں[ کو سیاسی استقلال اور خود مختاری حاصل بھی ہے وہاں وہ ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہیں۔ ان کے مدرسے‘ ان کے دفتر‘ ان کے بازار‘ ان کی انجمنیں‘ ان کے گھر‘ حتیٰ کہ ان کے جسم تک زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب‘ مغرب کے افکار‘ مغرب کے علوم و فنون حکمران ہیں۔ وہ مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں‘ مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘ مغرب کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں‘ خواہ ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ بہرصورت یہ مفروضہ ان کے دماغوں پر مسلط ہے کہ حق وہ ہے جس کو مغرب حق سمجھتا ہے ‘اور باطل وہ ہے جس کو مغرب نے باطل قرار دیا ہے۔ حق‘ صداقت‘ تہذیب‘ اخلاق‘ انسانیت اور شائستگی کا معیار ان کے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے‘ اپنے دین و ایمان‘ اپنے افکار و تخیلات‘ اپنی تہذیب و شائستگی‘ اپنے اخلاق و آداب ‘سب کو وہ اسی معیار پر جانچتے ہیں‘‘۔(سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ تنقیحات‘ ص ۶)
بالیقین مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت پر یہ ایک زبردست گرفت تھی۔ تعلیم یافتہ مسلمان جس ’عقلیت‘ کا کثرت سے پرچار کرتے رہتے تھے‘ حقیقت میں مغرب کی نقالی تھی جس میں حقیقت کے عکس یا تجزیے کو بہت کم عمل دخل تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ یہ لوگ دفاع پر مجبور ہوتے‘ سید مودودی ؒان پر واضح کر دینا چاہتے تھے کہ عام مغربی مفکرین بھی اتنے عقلیت پسند نہیں ہیں‘ جتنا وہ ظاہر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے لکھا: ’’جدید تحریک کے علم برداروں نے لازم سمجھا کہ خدا‘ یا کسی فوق الطبیعت (Super Natural) ہستی کو فرض کیے بغیر کائنات کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ہر اس طریقے کو خلافِ حکمت (unscientific) قرار دیں‘ جس میں خدا کا وجود فرض کر کے مسائلِ کائنات پر نظر کی گئی ہو۔ لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نئے دور کے اہلِ حکمت فلاسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اور ما بعدالطبیعی امور کے خلاف ایک تعصب پیدا ہوا‘ جو عقل و استدلال کا نہیں بلکہ سراسر جذباتیت کا نتیجہ تھا۔ وہ خدا کا انکار اس لیے نہیں کرتے تھے کہ دلائل و براہین سے اس کا عدم وجود اور عدم وجوب ثابت ہو گیا تھا‘ بلکہ اس سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ ان کی آزاد خیالی کے مخالفین کا معبود تھا۔ بعد کی پانچ صدیوں میں ان کی عقل و فکر اور ان کی علمی جدوجہد نے جتنا کام کیا‘ اس کی بنیاد میں یہی غیرعقلی جذبہ کار فرما رہا‘‘۔(ایضاً‘ ص ۹-۱۰)
اپنے مضمون ’’عقلیت کا فریب ‘‘میں سید مودودی ؒنے مزید گہرائی میں جا کر بات کی ہے:
عقلیت (Rationalism) اور فطریت (Naturalism) ‘یہ دو چیزیں ہیں جن کا اشتہار گذشتہ دو صدیوںسے مغربی تہذیب بڑے زور و شور سے دے رہی ہے۔ اشتہار کی طاقت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ جس چیز کو پیہم اور مسلسل اور بکثرت نگاہوں کے سامنے لایا جائے اور کانوں پر مسلط کیا جائے‘ اس کے اثر سے انسان اپنے دل اور دماغ کو کہاں تک بچاتا رہے گا۔ بالآخر اشتہار کے زور سے دنیا نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ مغربی علوم اور مغربی تمدن کی بنیاد سراسرعقلیت اور فطریت پر ہے۔ حالانکہ مغربی تہذیب کے تنقیدی مطالعے سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کی بنیاد نہ عقلیت پر ہے نہ اصول فطرت کی متابعت پر‘ اس کے برعکس اس کا پورا ڈھچر] ڈھانچہ[ حِس‘ خواہش اور ضرورت پر قائم ہے۔ اور مغربی نشات جدیدہ دراصل عقل اور فطرت کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ اس نے معقولات کو توڑ کر محسوسات اور مادیت کی طرف رجوع کیا۔ عقل کے بجاے حِس پر اعتماد کیا‘ عقلی ہدایات اور منطقی استدلال اور فطری وجدان کو رد کر کے محسوس مادی نتائج کو اصلی اور حقیقی معیار قرار دیا۔ فطرت کی رہنمائی کو مردود ٹھیرا کر خواہش اور ضرورت کو اپنا رہنما بنایا۔ ہر اس چیز کو بے اصل سمجھا جو ناپ اور تول میں نہ آ سکتی ہو۔ ہر اس چیز کو ہیچ اور ناقابلِ اعتنا قرار دیا جس پر کوئی محسوس مادی منفعت مرتب نہ ہوتی ہو‘‘۔(ایضاً‘ ص ۱۰۳)
سید مودودیؒ کے نزدیک فکرِانسانی پر قائم افادیت کی کسوٹی‘ جو حقیقت کو محسوسیت‘ وزن اور حساب کتاب سے مشروط کرتی ہے سوائے ایجابیت کے اور کچھ نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تمام اشیا جو مشاہدے اور تجربے سے ماورا ہیں‘ افادیت کے پیمانے میں ان کے وجود یا عدم وجود کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ نہ وہ قابل یقین ہیں‘ کیونکہ ان کا شمار خلافِ عقل چیزوں میں ہوتا ہے۔ چونکہ صورت حال یہ تھی‘ لہٰذا سید مودودیؒ نے مادی فوائد کے بنیادی تصور کو موضوع بحث بنایا‘کیونکہ مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں نے خود اسلامی احکام کو بھی افادیت کے پیمانے پر پرکھنا شروع کر دیا تھا:۔
(جاری ہے)

حصہ