سید اطہر ہاشمی

261

سیدھے سادے،صاف ستھرے،نیک سیرت آدمی۔۔۔ پُر محبت،پُرشرافت،پُرمسرت آدمی
یاس کی تاریکیوں میں تھے اُجالوں کی طرح۔۔۔عزم،ہمت،جوش کی کہنہ مثالوں کی طرح
یوں گزاری زندگی خود زندگی بھی خوش ہوئی۔۔۔خوش ہوا معبود بھی اور بندگی بھی خوش ہوئی
دین،دنیا میں توازن کو رکھا تھا برقرار۔۔۔باغ تھے وہ علم کے ،وہ تھے زباں کے پاسدار
اُن کے لکھے سے ہوا سیراب اک پیاسا جہاں۔۔۔عشق تھا اُردو زباں سے،خود بھی تھے اہلِ زباں
طرز اُن کی زندگی کا قابلِ تقلید ہے۔۔۔سادگی،سادہ دلی بھی زیورِ توحید ہے
ہر کسی کی بات رکھتے،سب کا کرتے احترام۔۔۔خوش ادا،خوش ذوق تھے،پُر لطف تھا اُن کا کلام
راستی ،برجستگی میں آپ تھے اپنی مثال۔۔۔منہ پہ سچ کہہ دینا اُ ن کا اک اضافی تھا کمال
ہاتفِ غیبی سے اُن کو فہم کی کنجی ملی۔۔۔ خوش مقدر تھے جنھیں یہ قیمتی خوبی ملی
اب کہاں سے ڈھونڈ کے لائوں گا ایسا آدمی۔۔۔ جن کی صحبت سے ملے گی روشنی ہی روشنی
شان تھی اُن کی جدا،اُن کی جدا ہی شان تھی۔۔۔ گفتگو دانشوری،دانشوری فیضان تھی
مشکلوں میں ہر گھڑی دیکھا اُنھیں ثابت قدم۔۔۔سر اُٹھا کے جینے کا دیتے سبق تھے دم بہ دم
یہ مری خوش قسمتی قربت رہی اُن سے مدام۔۔۔ دل کی گہرائی سے بابر پیش کرتا ہوں سلام
(ہر شعر کا پہلا حرف باہم ملانے سے نام سید اطہر ہاشمی بنتا ہے)

حصہ