پہاڑوں کے بیٹے

412

(آخری قسط)
زبیر نے 15 فروری 1988ء کا وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جب روسی فوج کا آخری سپاہی دریائے آمو کا پُل پار کرکے افغانستان کی سرزمین سے باہر نکل گیا۔
روسی فوجوں نے افغانستان کی سرحد عبور کرکے پیچھے مڑ کر دیکھنے تک کی ہمت نہ کی اور اس کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اب روس افغانستان یا کسی بھی غیر ملک میں فوج بھیجنے کی غلطی نہیں دہرائے گا۔
زبیر نے شکرانے کے نوافل ادا کیے۔ رب کے حضور سجدۂ شکر کی ادائیگی کے دوران اس کی آنکھیں تشکر کے آنسوئوں سے تر تھیں۔ وہ بے اتنہا خوش تھا کہ خدا نے مجاہدین کو کامیابی عطا کی تھی۔
اب اس نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ اس کے قویٰ مضمحل اور کمزور تھے لیکن روح خوش و خرم تھی۔ بالآخر وہ مہاجر کیمپ میں اپنے خاندان سے ملنے آپہنچا۔ کیمپ کے منتظمین کی مدد سے جب وہ وہاں پہنچا تو فضا اذان کی آواز سے گونج رہی تھی۔ یہ دوپہر کا وقت تھا اور ظہر کی اذان ہورہی تھی۔ اس نے گھر جانے سے پہلے کیمپ کی مسجد کا رخ کیا، جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے بعد امام صاحب سے ملا۔ کیمپ سے اس کے ساتھ آنے والے معذور نوجوان نے امام صاحب سے اس کا تعارف کرایا۔ انہوں نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کو گرم جوشی کے ساتھ گلے لگایا اور ایک مختصر تقریر کے ذریعے حاضرین سے بھی اس کا تعارف کرایا۔ اب مسجد میں موجود ہر نمازی اس سے گلے ملنے کو بے چین تھا۔ ادھر کیمپ سے اس کے گھر میں بھی اطلاع بھیجی جا چکی تھی۔ زینب صفیہ کے گلے لگی خوشی کے آنسو بہا رہی تھی۔
فاطمہ، گل جانہ اور پلوشہ فکرمند تھیں کہ استقبال کے لیے کیا کیا جائے! فاطمہ نے دروازے سے باہر جھانکا کہ کوئی لڑکا نظر آئے تو ایک آدھ پھولوں کا ہار تو منگوا لے۔ آنکھوں کی چمک اور ہونٹوں کی مسکراہٹ کے ساتھ وہ جلدی جلدی اِدھر سے اُدھر پھرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ وہ بابا کو جب اپنی آنکھوں سے دیکھے گی تو کیا حالت ہوگی، اور وہ کیسے ہوں گے۔ اچانک اس کو اپنی ننھی بیٹی ’’زرتاشہ‘‘ کا خیال آیا۔
’’لالہ! پلوشی بچوں کو بھی تیار کرلو، بابا ان کو دیکھ کر کتنا خوش ہوں گے۔‘‘
زینب ابھی تک خوشی کے آنسو بہا رہی تھی اور نظریں بار بار دروازے کا طواف کررہی تھیں۔ صفیہ باورچی خانے میں حلوے کی تیاری کررہی تھی۔ زبیر نے جب خیمے میں قدم رکھا تو خیمے میں موجود ہر ایک اُس کے لیے چشم براہ تھا۔ فاطمہ بھاگ کر باپ کے پاس آئی۔ ایک لمحہ ٹھیر کر اس نے باپ کو غور سے دیکھا۔ دبلا، کمزور اور سفید ڈاڑھی والا یہ شخص میرا باپ ہے؟
اس کی تو نظروں میں زبیر کا سراپا تھا سرخ و سفید، صحت مند جسم اور سیاہ ڈاڑھی والا بھرپور نوجوان شفیق باپ… اور یہ بوڑھا شخص جو اس کے سامنے کھڑا تھا اتنا دبلا تھا کہ یوں لگتا تھا اس کی ہڈیوں پر چمڑا منڈھا ہوا ہے۔ اس نے اپنی جوانی کا بھرپور زمانہ اسلام کے لیے جہاد کے راستے میں گزار دیا تھا۔ خدا نے اسے سربلند کیا تھا۔
فاطمہ نے اپنے باپ کی آنکھوں میں شفقت کے بے پناہ جذبات کو امنڈتے دیکھا اور دوڑ کر اس کے پھیلے ہوئے بازوئوں میں سما گئی۔
زبیر اپنی نواسی زرتاشہ اور پوتوں مجاہد اسلام اور سیف الاسلام کو ایک ساتھ اپنے بازوئوں کے گھیرے میں لیے بے انتہا مسرور تھا۔
اتنے میں بلال اور ہلال مہروز اورگل افروز کے ساتھ خیمے میں داخل ہوئے۔ زبیر نے بیٹوں اور بھتیجوں کو سینے سے لگایا تو نہ جانے کہاں سے جمال اور کمال کی یاد ایک لمحے کے لیے دل کو تڑپا گئی اور آنکھوں کے گوشے آنسوئوں سے بھیگ گئے۔
اب جلد ہی زبیر نے پورے خاندان کے ساتھ افغانستان واپسی کا ارادہ کیا اور بالآخر طالبان کے ابتدائی زمانے میں افغانستان کی طرف واپس روانہ ہوگیا۔ لیکن امن کا دور بہت مختصر تھا۔ 1996ء سے 2001ء تک افغانسان میں طالبان نے امن قائم کردیا تھا اور ساتھ ہی انصاف، مساوات اور برابری کے ایسے مناظر تخلیق کیے تھے جنہوں نے دورِ اوّل کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردی تھی۔ زبیر نے ابتدا میں سارے خاندان کے ساتھ کابل کے قریب کابل خورد میں رہائش اختیار کی۔ شیردل کا گھر جو عرصے سے بند پڑا تھا، دوبارہ آباد ہوگیا۔ مہرو کی ماں مر چکی تھی، مہرو نے دکان کے کاروبار کو اچھی طرح چلایا تھا اور دو مزید دکانوں سے اس کو وسعت دے دی تھی۔
زبیر نے گھر کی مرمت کرائی۔ پورے گھر میں سفیدی کرا کے باہر کا دروازہ تبدیل کرایا جو دیمک کے باعث کمزور ہوگیا تھا۔ اسی دوران صفیہ نے کمانڈر ادریس کی بیٹی شمامہ کو مہروز کے لیے پسند کرلیا، اور یوں دونوں بیٹوں کے فرض سے فراغت حاصل کرلی۔
صفیہ اب بہت خوش اور مطمئن تھی لیکن مستقل بیماری نے اس کو بہت کمزور کردیا تھا۔ طویل سفر کے دوران بھی کئی دفعہ اس کی حالت خراب ہوئی، لیکن وطن کی مٹی، محبوب شوہر اور اس کے گھر کی یاد نے اس کو سہارا دیا ہوا تھا۔ مگر اب مہروز کی شادی کے تیسرے ہفتے ہی بیماری کے ہاتھوں داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئی۔ زبیر نے اگرچہ اپنے گائوں جانے کا ارادہ کیا ہوا تھا لیکن اب صفیہ کے انتقال کے بعد وہ بچوں کے دلاسے کے لیے مزید کچھ عرصہ یہیں رہنے پر آمادہ ہوگیا۔
پوتوں اور نواسی کے ساتھ کھیلتے کھیلتے وہ یکایک اداس ہوجاتا۔ اپنے جدا ہونے والے بیٹوں، دوستوں اور ساتھیوں کی یادیں اسے بے چین کر ڈالتیں۔ بالآخر ایک دن وہ واپس اپنے گائوں جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ فاطمہ ماں اور باپ دونوں کی جدائی سے دلگیر تھی۔
’’فاطمہ! میری بیٹی، تم افروز اور زرتاشہ کو لے کر جب چاہو ہم سے ملنے کے لیے آجانا۔ یوں بھی اب راستے اور شاہراہیں محفوظ ہیں اور سفر مشکل نہیں رہا۔‘‘ زبیر نے بیٹی کو سینے سے لگا کر دلاسہ دیا۔
’’فاطمہ اپنے سرخ و سیاہ چوزوں کو اگر پیغام بھیجنا ہے تو بتا دو۔‘‘ ہلال کی بات نے ماحول کی اداسی کو کم کردیا۔ سب ہی مسکرا اٹھے۔
فاطمہ نے اپنے بھتیجوں مجاہد اور سیف کو اشارہ کیا ’’میرے چوزوں اور آنے والے تمام چوزوں کی خیر خبر رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے۔‘‘
دونوں کی پیشانی پر بوسہ دے کر اس نے انہیں پیار کیا اور یوں ایک خاندان کی واپسی کا سفر شروع ہوا۔ طالبان کی اسلام دوستی اور قرآنی قوانین کے نفاذ پر امریکا اور یورپ کے یہودی انتہائی ناخوش تھے۔ انہوں نے منصوبہ بندی کے ذریعے ان کی حکومت کو ختم کرنا چاہا۔ یوں 11 ستمبر2001ء کا واقعہ جس میں یہودیوں کی چالبازی واضح نظر آتی ہے، وقوع پذیر ہوا، اور پھر امریکا نے اس کو بنیاد بنا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پُرفریب نام پر اسلام کے خلاف لڑائی کا اعلان کیا۔ لیکن بعد میں یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف تھی۔ اس جنگ میں امریکا نے ایک طرف سارے مغربی ممالک کو اپنے ساتھ ملایا اور دوسری طرف مسلمان حکمرانوں کے کاندھوں کو بھی استعمال کیا۔
7 اکتوبر 2001ء وہ تاریخ تھی جب امریکا ساری دنیا کی افواج کے ساتھ ایک نہتے اور بے سروسامان ملک پر چڑھ دوڑا۔ اعلیٰ ترین جنگی مشینری ایک ایسی قوم کے مقابل تھی جو ایک پیالہ بنا لینے کے قابل بھی نہ تھی۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بمبار طیاروں نے ایٹم بم کے سوا ہر قسم کے بموں کی بارش کردی۔ ان بموں میں مدر بم اور ڈیزی کٹر بم بھی شامل تھے۔ خود اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں امریکی اتحادیوں نے صرف 78 مقامات پر دو لاکھ چوالیس ہزار چار سو بیس کلسٹر بم گرائے۔
طالبان اپنی قوم کو امریکا کی دہشت گردی اور مظالم سے بچانا چاہتے تھے، لہٰذا انہوں نے اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے پیغام بھیجا کہ اگر شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی جائے تو طالبان کابل چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ جنرل فہیم نے امریکی ایما پر یقین دہانی کرائی کہ اگر طالبان ازخود کابل خالی کردیں گے تو کسی شہری کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، اور یوں اس کارپٹ بمباری کا سلسلہ ختم ہوا جو گزشتہ کئی ہفتوں سے امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کے معصوم عوام پر کررہے تھے۔ ان کے خلاف ایک دنیا احتجاج کررہی تھی لیکن انسانی حقوق کے علَم بردار امریکا اور اس کے حواریوں پر اس کا کوئی اثر نہ تھا۔
طالبان کے کابل سے نکلنے کے بعد شمالی اتحاد اس پر قابض ہوگیا۔ اس طرح اب افغانستان امریکی طیاروں کے ’’تحفہ رمضان‘‘ بموں کی بارش سے محفوظ ہوا۔
ایسا ماہِ رمضان نہ کبھی دنیا نے دیکھا ہوگا نہ سنا ہوگا کہ وہائٹ ہائوس کے سبزہ زاروں پر امریکی صدر بش مدعو کیے گئے مسلمانوں کے ساتھ روزہ افطار کررہا ہے۔ وینڈی چیمبرلین ایک ضیافت کے دوران یہ کہہ کر کھانے سے انکار کردیتی ہے کہ ’’میں روزے سے ہوں‘‘، اور دوسری طرف افغانستان کے کروڑوں افغان مسلمان افطار اور سحر کے وقت اس خوف سے چولہا نہیں جلا سکتے کہ امریکی طیارے جہاں روشنی دیکھتے ہیں، مہلک ترین بموںکی بارش کردیتے ہیں۔
امریکی یقین دہانی کے باوجود طالبان کے جانے کے بعد شمالی اتحاد نے ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے۔ ان کا نشانہ خاص طور سے پاکستانی، عرب اور افغان مجاہدین اور ان کے اہلِ خانہ تھے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو سڑک پر لاکر ذبح کیا گیا اور امریکی فوجیوں نے اس کی فلم بندی کی۔
شمالی اتحاد کا سرخیل رشید دوستم ایک خاص مذہبی فرقے کا پیروکار تھا، اس نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی تائید و حمایت سے مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے تمام مجاہدین کو انتہائی ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا، اور ان سارے مظالم میں امریکا نے شمالی اتحاد کو نہ صرف کھلی چھوٹ دی بلکہ بھرپور پشت پناہی بھی کی۔
تاریخ لکھنے والا مؤرخ اس دور میں ہونے والے مظالم میں مجرم کی حیثیت سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا نام سرفہرست درج کرے گا جس کی مرضی و منشا تمام مظالم میں بھرپور طریقے سے شامل رہی۔
جلد ہی امریکا نے ایک ایسا شخص ڈھونڈ نکالا جو اس کے تمام مفادات کی بہتر طریقے سے نگرانی کرسکتا تھا اور اپنی آزادانہ اور لبرل سوچ کے باعث امریکا کے لیے مکمل طور پر قابلِ قبول تھا۔
’’حامد کرزئی‘‘ کے امریکا کے ساتھ جس قدر گہرے اور پائیدار تعلقات تھے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ افغانستان میں اسے ’’امریکا کا ببرک کارمل‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
…٭…
زبیر گائوں سے باہر اکثر اس چھوٹی سی سنگلاخ پہاڑی کی چوٹی پر فطرت کی بنائی ایک سیدھی اور ہموار نشست پر بیٹھ کر سورج کے طلوع ہونے کے منظر کو دیکھتا تھا۔ جوں جوں سورج بادشاہ کا رتھ مغرب کے سفر کے لیے تیار ہوتا، توں توں آسمان پر سرخی پھیلتی جاتی اور آخرکار آسمان پہ روشنی کا زرد اور تیز چمکیلا رنگ پھیل جاتا۔
سامنے پھیلے ہوئے جنگی مشینوں کے قبرستانوں کو دیکھتے ہوئے اس نے دل میں سوچا کہ ’’وہ قوم کتنی بدقسمت ہے جو تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتی۔‘‘ جب طاقتور ہمسایہ برابر سے آکر افغانستان پر قبضہ حاصل نہ کر پایا تو بھلا ایک ایسی قوم جو ہزاروں میل دور، سات سمندر پار رہتی ہے، کس طرح افغان سرزمین پر قابض رہنے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتی ہے!
افغان گوریلا جنگ کے ماہر ہیں اور یہاں کا جغرافیہ بھی اس کے لیے موزوں ہے، جب کہ امریکا کی جنگی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ کبھی بھی ایسی جنگ میں کامیاب نہیں ہوا، اور سب سے بڑی بات یہ کہ امریکی موت سے جس قدر خوف زدہ ہیں ہم مسلمان اسی قدر موت سے پیار کرتے ہیں۔
زبیر نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور زیر لب دعا کی ’’یارب! اب کی دفعہ مجھے میدان میں شہادت سے محروم نہ رکھنا۔ تُو گواہ ہے کہ میں نے کبھی دشمنوں کے سامنے پیٹھ نہیں دکھائی۔ یارب! میرے جوان لختِ جگر کامیاب ہوکر تیرے پاس پہنچ چکے ہیں۔ یارب! میرے بوڑھے جسم کو بھی اپنے حضور قبول کرلے اور ہماری آنے والی نسلوں میںجذبۂ جہاد کو اور زیادہ روشن اور تابندہ رکھنا تاکہ وہ اسلام اور آزادی کے لیے کسی قوت سے سودے بازی کے لیے کبھی تیار نہ ہوں۔‘‘
زبیر کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر اس کی سفید داڑھی کو بھگو رہے تھے۔

رات کا غم نہ کرو صبح کی امید رکھو
رات کا کیا ہے ذرا دیر میں ڈھل جائے گی
کتنے ہی چاند ڈھلے کتنے ستارے ڈوبے
ظلمتِ شب کو اجالوں میں بدلنے کے لیے
کیا ہوا آج بھی رستہ ہے جو زخموں سے لہو
پھر بھی تیار ہیں انگاروں پر چلنے کے لیے
آندھیاں ظلم و ستم کی بہت تیز سہی
وہ دیے ہم ہیں جنہیں جلنا ہے طوفانوں میں

حصہ