آزادی کی آرزو

محمد علی جوہر کی فطرت میں عشقِ الٰہی، عشقِ رسولؐ اور عشقِ امتِ مرحومہ کے علاوہ عشقِ آزادیٔ وطن بدرجہ اتم شامل تھا۔ آزادیٔ وطن کے لیے جدوجہد کے باعث انہوں نے قید و بند کی کڑی مصیبتیں جھیلیں، دن کا چین گنوایا، راتوں کی نیند حرام کی، صحت برباد کی، گھر بار لٹایا، تاآنکہ یہ بیمار اور نزار چند دن کا مہمان مجاہدِ حریت 1930ء کے اواخر میں اپنے آخری محاذِ جنگ پر لندن کی گول میز کانفرنس میں مسلمانان ہند کی نمائندگی اور پورے وطن عزیز کی آزادی کے لیے مبارز آزمائی کے لیے روانہ ہوا اور اس سج دھج سے روانہ ہوا جس کا نقشہ کچھ کچھ کفن بردوش، سربہ کفن اور پابہ رکاب کی لفظی تراکیب سے ذہن میں آتا ہے۔ بمبئی کی بندرگاہ پر الوداع کہنے والوں میں مولانا عبدالماجد بدایونی پیش پیش تھے۔ انہوں نے ازراہِ تجاہلِ عارفانہ استفسار کیا ’’آپ اتنا طویل سفر کیوں اختیار کررہے ہیں؟‘‘ محمد علی جوہر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’مرنے کے لیے‘‘۔
گول میز کانفرنس میں ان کی آخری تقریر کے اختتامی کلمات آج بھی گوشِ شنوا میں گونجتے ہیں: ’’آج جس ایک مقصد کے لیے میں یہاں آیا ہوں وہ یہی ہے کہ میں اپنے ملک کو اس حالت میں جائوں کہ آزادی کا پروانہ میرے ہاتھ میں ہو۔ میں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جائوں گا، میں ایک غیر ملک میں تاوقتیکہ وہ آزاد ہے، مرنے کو ترجیح دوں گا، اور اگر آپ مجھے ہندوستان کی آزادی نہیں دیں گے تو پھر مجھے قبر کے لیے جگہ دینی پڑے گی۔‘‘
’’آزادی یا موت‘‘ کی آرزو کے مظہر یہ الفاظ ابھی فضائے بسیط میں تحلیل نہ ہونے پائے تھے کہ بارگاہِ رب العزت سے اذنِ قبولیت آ پہنچا۔ 4 جنوری 1931ء مطابق 14 شعبان 1349ھ کو صبح نو بجے جب وطن میں شبِ برأت کی دھوم دھام تھی، محمد علی جوہر نے وطن سے دور جان جانِِ آفریں کے حوالے کردی لیکن لندن کا کفرستان کیوں کہ اس آزادیٔ وطن کے جاں فروش سپاہی کی میت کو اپنی آغوش میں لینے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا اس بارے میں مشیتِ الٰہی اور ہی کچھ تھی۔ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل نے آواز دی کہ اس متبرک جسدِ خاکی کو تو بیت المقدس کی خاکِ پاک کا پیوند ہونا ہے۔ محمد علی جوہر مرحوم کے اس سفر کی تفصیل مولانا رئیس احمد جعفری مرحوم سے سنیے:
’’جس ہوٹل میں مولانا مقیم تھے، وہاں سے نعش رات کے بارہ بجے لفٹ سے نیچے اتاری گئی، نعش ایسی معلوم ہوتی تھی کہ جیسے کوئی شخص سکون و آرام سے سو رہا ہے، نعش پر شب و روز قرآن خوانی ہوتی رہی، 5 جنوری 1931ء کو شوکت علی، عبدالرحمن صدیقی اور مظفر نے نعش کو غسل دیا اور شام کے چھ بجے حسبِ اعلان لیڈ بگٹن ہال میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی جس میں اراکین گول میز کانفرنس، سفراء ایران، مصر، کابل، وزیر ہند لارڈ سینکے، وزیراعظم کا نمائندہ اور دیگر معززین شریک تھے۔ نعش بذریعہ نارکنڈا جہاز ٹیلری بند سے بیت المقدس روانہ کی گئی، 21 جنوری کو پورٹ سعید پہنچی۔ شاہ مصر کے نمائندے، وزیراعظم، مشائخینِ شہر پورٹ سعید کے جلوس میں شامل تھے۔ مسجد عباس میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مصری پولیس نے سلامی دی اور جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھایا، شہزادہ محمد علی نے محمد علی مرحوم کے لیے غلافِ کعبہ کا ایک ٹکڑا تابوت پر رکھنے کے لیے مرحمت فرمایا، مرحوم کا کفن خالص کھدر کا تھا۔‘‘ایک اخبار رقم طراز ہے ’’یروشلم 23 جنوری، آج مولانا محمد علی کا تابوت یہاں پہنچا، پبلک کا ایک جم غفیر اس عظیم الشان جلوس کے چاروں طرف موجود تھا۔‘‘