کراچی کے پانڈے

774

پانڈا کا نام زبان پر آتے ہیں دماغ میں ایک معصوم اور بھولے بھلے جانور کی شکل سامنے آجاتی ہے ، چڑیا گھر میں بھی موجود ہے، بچوں بڑوں دونوں کے لیے اس جانور میں دلچسپی کابہت سامان موجود ہے میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں چین کے چڑیا گھر میں موجود پانڈے کی چھٹی سالگرہ منائی گئی اس موقع پر چڑیا گھر کی انتظامیہ کی جانب سے چڑیا گھر کو خوبصورتی سے سجایا گیا اور پانڈے کیلیے برف سے بنا خصوصی کیک تیار گیا اوراسے پھل و سبزیوں کا پُر لطف کھانا پیش کیا گیا۔
پاکستان میں پانڈا کو جمع کے صیغے میں پانڈے کہہ سکتے ہیں ، بظاہر بے ضرر محسوس ہونے والا یہ خوبصورت جانور انتہائی شرا رتی ہوتا ہے ، اپنے مالک سے وفا داری میں بے مثل ہے ، مگر جب مالک سے کسی بات پر خفا ہو جائے تو اسے نقصان پہنچانےمیں بھی دیر نہیں کرتا۔
ہندوستان میں برہمنوں کی ایک قوم، پانڈے ، کہلاتی ہے ، جو بہت معتبر تسلیم کی جاتی ہے ، پانڈے کا مطلب عالم فاضل ، استاد ،اتالیق وغیرہ وغیرہ لیے جاتے ہیں ، بد قسمتی سے پاکستان میں لفظ ، پانڈے ، کی کچھ مختلف تعبیریں ہیں ، ہمارے یہا ں ، پانڈے، سے مراد ہڈ حرام ، نکما اور اسی قبیل سے ملتے جلتے کردار ہیں ، جبکہ ،پانڈے ، کو ہندوستان میں بہت اہم مقام حاصل ہے ہندوستان کی تحریک آزادی میں منگل پانڈے نامی شخص نے بہت نام کمایا یہ منگل پانڈے انگریزوں فرنگیوں کے خلاف مزاحمت کا استعا رہ بن چکا تھا ، ہندوستان کی تحریک آزادی کی عملی طور پر ابتدا کرنے اور برطانوی نو آبادیات کو للکارنے والا پہلا فرد شخص منگل پانڈے ہی تھا جس نے ہندوستان کی آزادی کے لیے پہلی گولی چلائی۔
منگل پانڈے نے وسطی بھارت کی فوجی کمپنی ” بنگال انفنٹری” کی چونتیسویں (34) رجیمنٹ میں بحیثیت سپاہی بھرتی ہوئے۔ 1853ء میں فوجی ملازمت کے دوران انگریزوں سے نفرت اور جذبہ آزادی کی تمنا جاگی اور انھوں نے آزادی کے لیے پہلی گولی چلائی۔ منگل پانڈے نے انگریز فوجیوں پر حملے کیے۔ انھوں نے 29 مارچ، 1857ء کو ایک انگریز سارجنٹ اور اجونٹنٹ کو زخمی کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کی فوج میں استعمال ہونے والی پی۔53 رائفل میں جو کارتوس استعمال کیے جاتے تھے۔ اسے استعمال سے پہلے ان کارتوس کے فیتوں کو دانتوں سے کھینچا جاتا تھا۔ اس میں گائے اور سور کی چربی لگی ہوتی تھی۔ جو مذہبی طور پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے کسی طور پر قابل قبول نہیں تھی۔ یہی بات منگل پانڈے کے غصے کا سبب بنی۔ منگل پانڈے کا تعلق برہمن گھرانے سے تھا۔ جبل پور کے عجائب خانے کے ریکارڈ کے مطابق منگل پانڈے کو 18 اپریل، 1857ء میں کولکتہ کے قریب بارک پور چھاونی میں پھانسی دی گئی۔ یہ وہی فوجی چھاونی ہے جہاں کچھ مہینے قبل ہندوستانی فوجیوں نے” انگریزی ٹوپ” پہنے سے انکار کر دیا تھا۔
پاکستان میں اگرچہ ، پانڈے ، ذات کو کم ہی لوگ جانتے ہوں گے لیکن کچھ عرصہ قبل کراچی میں جب چائنا کی ایمبیسی میں دہشت گردوں نے حملہ کیا اور ہماری پولیس اور حفاظتی گارڈز نے ان کی یہ کوشش ناکام بنا دی اور تمام دہشت گرد ہلاک کر دئیے اس وقت تحریک انصاف کے کراچی کے ایک منتخب ممبر قومی اسمبلی جو خیر سے آبی ذخائر کے وزیر بھی ہیں انہوں نے دہشت گردوں کے حملے کے اختتام اور ان کے مارے جانے کے آدھے گھنٹے بعد جائے واردات کا دورہ فرمایا ، موصوف اتنی عجلت میں بھی اپنے ساتھ فوٹو گرافر لانا نہیں بھولے تھے انھوں نے کمانڈو جیکٹ اور فوجی بوٹ پہن رکھے تھے اور ہاتھ میں چھ بور کا پستول تھا، موقع وارادت پر خوب تصاویر بنوائی گئیں اور ان کی زبردست تشہیر بھی ہوئی۔ اسی دن سوشل میڈیا پر جناب فیصل واڈا کے نام کی جگہ ،، فیصل پانڈے ،، کا نام چلنے لگا اس طرح پاکستان میں یہ لفظ ان لوگوں کے لیے بولا جانے لگا جو راتوں رات اپنی او چھی حرکتوں سے میڈیا میں مقام حاصل کرکے مشہور ہونا چاہتے ہوں۔ یہی فیصل پانڈے ایک ٹی وی ٹالک شو میں فوجی بوٹ ایک تھیلے میں چھپاکر لے گیے اور دوران پروگرام فوجی بھایئوں سے اظہار یکجہتی میں فوجی بوٹ کو آن لائن جانے والے کیمرے کے سامنے رکھ کر خاصی دیر تک اس ،بوٹ کی کراما ت ، پر گفتگو فرماتے رہے۔
بس وہ دن اور آج کا دن پاکستان میں اتنے اچھے جا نو ر اور اتنے اچھے معتبر حوالے کی ایسی تیسی ہوگئی۔تاریخ ، کردار اور حوالوں کی درگت بنے میں ہم پاکستانوں کی واقعتا کوئی جواب نہیں۔ پچھلے سال جشن آزا دی کی ایک عوامی تقریب میں (جس کی صدارت تحریک انصاف کے ایک وزیر فرما رہے تھے ) میں اسٹیج سے ہندوستانی ترانے چل رہے تھے اور منہ کا مزہ بدلنے ایک رقاصہ اعضاء کی شاعری سے سامعین کو آزا دی کی قدر و قیمت بتا رہی تھیں۔
اسی حکومت کے دور میں پارلیمنٹ لاجز کی جس قدر بے توقیری کو پبلک کے سامنے لا یا گیا ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے بھی پارلیمنٹ ہاؤس میں بہت کچھ ہوتا رہ مگر وہ ،،اپنی لاج ” رکھنے کے ڈر سے پبلک نہیں کرتے تھے ، مگر ،وہ ،،خان ” ہی کیا جو کھل کر نہ کھیلے ، کے مصداق بدنام زمانہ طوائفوں اور ماڈل گرلز کو لات مار کر پرائم منسٹر ہاؤس کا دروازہ کھولتے بھی دکھا رہے ہیں وزیر اعظم کی کرسی پر تخیلیے والی بیٹھک مارے بھی دکھا رہے ہیں۔ بغیرتی کی انتہا کو چھوٹی ہوئی اس حکومت میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ کون سا وزیر ،،کم نوعیت کا پانڈا ہے ؟
اب ایک ،فیصل واڈا ، پر ہی سارا ملبہ ڈال دینا بھی زیادتی ہو گی ، تحریک انصاف کی کابینہ میں بیشمار ،، پانڈے ، مل جائیں گے جو اپنی اپنی جگہ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ اور تو اور کراچی سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے سینیر ترین رکن اور صدر پاکستان نے جب ایک بالشت پانی میں لائف بوٹ چلائی تب ہی اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ ایک نہ ایک دن اس پارٹی میں اعلی ترین مقام تک پہنچے گا اور واقعی کچھ عرصے بعد اس پارٹی کے ،،قدیم ترین پانڈے ،، کو ملک کی صدارت کی گدی پر براجمان کردیا گیا ، بوٹ کی کرامات ظاہر ہونی شروع ہوگئیں تھیں۔
کراچی شہر بدقسمتی سے پاکستان کی آزادی کے بعد سے آج تک ان ” سیاسی پانڈوں ، کے حوالے ہے یہ سیاسی پانڈے اپنی معصومانہ شکل بنا کر کراچی دشمنی کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔
وزارت شپنگ کے وزیر جناب علی زیدی صاحب کی اس ویڈیو نے تو شہرت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے تھے جس میں موصوف عید کے دن کراچی والوں کو مخاطب کر کے کہہ رہے تھے کہ ،، یہ تمہارے باپ کی سڑک نہیں ہے “۔
اس پر مجھے جماعت اسلامی کے کراچی سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی محترم محمود اعظم فاروقی صاحب کا وہ جملہ یاد آگیا جو انھوں نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ” بھٹو صاحب۔ یہ آپ کے باپ کا پاجامہ نہیں ہے “۔
اس واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ ایک اجلاس میں بھٹو صاحب نے فاروقی صاحب کی تنقید سے عاجز آکر ایوان میں کہہ دیا تھا کہ ،، میں فاروقی کے پاجامے میں چھوہےدوڑا دوں گا “۔
اتفاق سے اس اجلاس میں محمود اعظم فاروقی صاحب موجود نہیں تھے ، صحافیوں نے جب اس بابت ان سے جواب طلب کیا تو یہ مشہور جملہ ساری محفل کو زعفران بنا گیا۔ اپنے نظریاتی مخالف کی اتنی سخت ترین بات کے جواب میں بھی فاروقی صاحب نے صبر اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور پاجامے کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ بھٹو صاحب یہ آپ کے باپ کا پاجامہ نہیں ہے کہ جس میں جو چاہے دوڑا تے پھریں !۔
کراچی کی بدقسمتی دیکھیں کہ شہر میں اور سندھ کے شہری علاقوں متحدہ قومی مومنٹ کے بھاری ترین مینڈنٹ کے باوجود ان کے ،،پانڈوں ،، نے کراچی کے لیے آج تک سوائے ٹسوے بہانے اور بہانے تراشنے کے دھیلے کا کام نہیں کیا۔ یہ پارٹی مہاجر ووٹوں سے منتخب ہوکر گزشتہ تیس سالوں سے کراچی کے ووٹ پیپلز پارٹی کی جھولی میں ڈا ل کر ہر وفاقی حکومت کا حصہ رہی ہے مگر کوٹہ سسٹم جیسے ظالمانہ نظام کو آج تک ختم نہ کرواسکی ، نہ ہی اس کے نمائندوں نے کراچی کی ترقی کے لیے کوئی نمایاں کام کیا۔ گزستہ تین بلدیاتی ادوار میں لگاتار ان ہی کے میئر منتخب ہوئے مگر سڑکوں نالوں اور پانی کی فراہمی کا حال ابتر سے ابتر ہوتا چلا گیا۔ ندی نالے پارک قبرستان تک چائنا کٹنگ کے نام پر بیچ کھائے ، مگر یہاں کی ترقی و بہبود کے نام پر سوائے رونے اور شکوے شکایات کے ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔
بلدیہ کراچی کا چار سالوں کا بجٹ ایک سو چودہ ارب روپے بنتا ہے اور یہاں سے حاصل ہونے والے بلدیاتی محصولات اس کے علاوہ ہیں ان ایک سو چودہ ارب روپے میں سے چودہ ارب روپے بھی کرا چی کی صفائی اور ترقی پر نہیں لگائے گئے۔ آخر وسیم اختر سے چیف جسٹس صاحب یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ پیسے کس کی جیب میں گئے ؟ اور نوٹس اس وقت لیا گیا جب ان کی رخصتی میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔اس بارے میں تو آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا ، جیسے عدالت عظمی منتخب وزراء اعظموں کو گھر بھیج سکتی ہے تو ایک مئیر کو بھی گھر اور حوالات کا راستہ دکھایا جاسکتا ہے۔ محظ مکالموں سےنہیں چلنا چیف صاحب ! آپ کے گرما گرم مکالموں کو عدالت کے فیصلے میں نظر آنا چاہیے ! ۔
کراچی دشمنی کی تازہ ترین مثال تو تحریک انصاف کے وزیر جناب علی زیدی نے دکھائی جب ان کی وزارت میں سرکاری نوکریوں کا اعلان اخبارات کی زینت بنا یہ اشتہار اسی ماہ 9 اگست 2020 کو آیا جس میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اسامیوں کی تعداد 394 بتا ئی گئی ان میں کراچی کے امیدواروں کے لیے کوئی نشست نہیں رکھی گئی ، جبکہ موصوف کا تعلق کراچی سے ہے۔اس اشتہار میں پنجاب کے لیے کوٹہ: 65 فیصد ، اندرونِ سندھ کے لیے 25فیصد ، بلوچستان:5 فیصد ،فاٹا + پاٹا + اسلام آباد کے لیے 5 فیصد ہے جبکہ شہری سندھ کے لیے کوئی نشست نہیں ہے۔ پچھلے سال بھی کم و بیش اتنی ہی سیٹیں تھی اور صرف گریڈ ون یعنی مالی اور خا کربوں کے لیے کراچی سے دس امیدوار مانگے گئے تھے۔ کراچی کے رہنے والوں کے ساتھ دشمنی کا اندازہ تو لگائیں کہ خاکروب اور مالی کراچی سے لیے گئے اور اس مرتبہ اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔یہ اس حکومت میں ہورہا ہے جس میں متحدہ قومی موومنٹ ، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سب ایک ساتھ حکومتوں میں پارٹنر ہیں۔
پیپلز پارٹی تو کوٹہ سسٹم کو اپنی زد کی وجہ سے اور کراچی دشمنی کی وجہ سے نہیں ہٹانا چاہتی ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے ، متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف نے تو اسی کے نام پر ووٹ لیے تھے وہ کیوں خاموش ہیں ؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
ووٹ تو تبدیلی کے نام پر دیا گیا تھا ؟ کہاں گئی تبدیلی ؟ کہاں ہے نیا پاکستان؟بہت اچھل اچھل کر نعرے مارے تھے کہ ،وزیرِ آعظم کراچی کا ، لیجے کراچی سے وزیر اعظم بھی۔ کراچی سے صدر پاکستان بھی ، کراچی سے گورنر بھی ، کراچی سے چار وزیر مملکت بھی اور بائیس اراکین اسمبلی بھی۔ یہ سب کچھ ہے مگر سرکاری نو کروں کے لیے کراچی کے لیے ایک سیٹ بھی نہیں !
واہ رے کراچی کے پانڈوں ! تم نے خوب سودا کیا کراچی کے نوجوانوں اور ان کے ارمانوں کا ! تف ہے تم پر !!!۔

حصہ