درویش صفت صحافی صحافت کے استاد چیف ایڈیٹر جسارت اطہر علی ہاشمی مرحوم

380

اطہر ہاشمی بھی رخصت ہوگئے

اسی ہفتے دائرہ علم وادب میں اطہر ہاشمی صاحب کا واٹس اپ نمبر نظر آیا تو بہت حیرت ہوئی، جی چاہا کہ اس ترقی پر آپ کو مبارکباد دی جائے، اور دو روز قبل ان سے فون پر کچھ ہلکی پھلکی ہنسی مذاق کی باتیں ہوئیں، انہوں نے بتایا کہ وہ آفس جارہے ہیں۔ اور یہ کہ انہوں نے اپنی عادتیں نہیں بدلی ہیں، فون کو صرف بات چیت کے لئے استعمال کرتے ہیں،بچے واٹس اپ وغیرہ دیکھ کر بتلاتے ہیں، ان کی باتیں سن کر دل خوش ہوا، وہ بڑی اپنائیت سے بات کررہے تھے، لیکن آج صبح ان کی دائمی جدائی کی خبر آئی تو دل دھک سے بیٹھ گیا، خبر ماننے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، عجیب کیفیت ہوئی، لیکن جانے والا اپنے رب کی بارگاہ میں جا چکا تھا۔جنوری ۲۰۱۵ء سے آپ کے کالم((خبر لیجے زباں بگڑی)) پر نظر پڑنے لگی، یہ ہمیں اتنا پسند آیا جتنا کسی زمانے میں مشفق خواجہ کا کالم سخن در سخن پسند آیا کرتا تھا،اور جس کا انتظار ہوا کرتا تھا،دونوں کا موضوع الگ تھا، لیکن بے ساختگی اور بانکپن میں مماثلت ضرور تھی، یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں سوشل میڈیا کا دور ملا،ایمیل گروپوں ، فیس بک اور واٹس اپ پر ہم نے ان کی پوسٹنگ شروع کردی، اور پابندی سے ترسیل کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران ہم نے اس بات کا اہتمام کیا کہ قارئین کے تاثرات اور تبصروں کو جمع کرکے ہاشمی صاحب کو بھیجتے رہیں، ہاشمی صاحب ایمیل نہیں دیکھتے تھے، رابطہ کے لئے انہوں نے فرائیڈے اسپیشل کے جناب شکیل صاحب سے ملوادیا، جوموصولہ تبصروں کو ہاشمی صاحب تک پہنچاتے تھے۔ اس دوران فرائیڈے اسپیشل کی ویب سائٹس مشکلات سے دوچار رہی تو اہتمام سے اپنے دستیاب کالموں کی انپیج فائل بھجوادی۔ان سے بات چیت کے بعد گزشتہ دو روز کے اندر ہم نے آپ کو کالموں پر موصولہ چھ تبصرے واٹس اپ سے بھیج دئے تھے، لیکن ان کا جواب کیا آتا؟ آپ کے اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبرنے دلوں کو مغموم کردیا، انا للہ والیہ راجعون۔ایک ڈیڑھ سال قبل انہیں بڑی پریشانیاں ہوئی تھیں، وہ خود سخت بیمار ہوئے، پھر ان کی اہلیہ شدید بیمار ہوئیں تو ٹوٹ سے گئے، بات بات پر کہنے لگے کہ میں نے ان سے کہ دیا ہے کہ زندگی کا ساتھ نہ چھوڑیں، پہلے نہ جائیں۔ کسے معلوم تھا کہ یہ مزاح نہیں تھا، درد دل کی آرزو تھی،جو قبول ہوئی، پھر حالات میں ٹہراؤ آگیا، روازنہ معمولات میں مشغول ہوگئے، بجھتی لو کی طرح جو بجھنے سے پہلے بھڑک اٹھتی ہے۔ہاشمی صاحب نے زندگی کی ۷۴ بہاریں دیکھیں، غالبا آپ کا جائے پیدائش بلند شہر (بھارت) تھا، تعلیمی مراحل یف سی کالج لاہور، اور کراچی یونیورسٹی میں مکمل کئے۔ صحافت ان کا ترجیحی میدان نہیں تھا، لیکن ۱۹۷۹ء کے حالات میں اتفاقی طور پر انہوں نے جسارت کراچی میں لکھنا شروع کردیا، اور پھر اسی کے اسیر ہوگئے، اس دوران جب جدہ سے اردو نیوز جاری ہوا تو اسلامی فکر سے وابستہ اردو صحافیوں کی ایک ٹیم اس سے وابستہ ہوئی، جب ۱۹۹۰ء میں سعودی عرب میں سعودی نائزیشن شروع ہوا توپھر آپ واپس آکر جسارت سے دوبارہ وابستہ ہوگئے۔ اب کہ وہ اس میں چیف ایڈیٹر کے منصب پر فائز ہوئےاور آخر دم تک اس منصب پر رہے۔ آپ نے جنگ لندن، روزنامہ امت کراچی میں بھی وقتا فوقتا ذمہ داریاں سنبھالیں۔ہاشمی صاحب سے بالمشافہ ملنے کا ہمیں کبھی اتفاق نہیں ہوا، لیکن جب بھی فون پر بات ہوئی بڑی اپنائیت کا احساس ہوا، وہ بے پناہ سادگی اور بے تکلفی کے عادی تھے، ان کی بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ اپنی ذات کے بارے میں کہنے کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا،ان میں ایک کامیاب استاد اور رہنما کی صفات بہ اتم پائی جاتی تھیں۔ انہوں نے اپنی تربیت میں صحافیوں اور لکھنے والوں کی ایک قطار کھڑی کی ہے، ان کی زندگی ہمیشہ مشعل راہ بن کر آئندہ نسلوں کو روشنی فراہم کرتی رہے گی۔ ایک عظیم انسان ہمارے درمیاں سے اٹھ گیا ہے،اسے دیکھنے والوں کی گواہی ہے کہ اس نے ایک روشن اوراجلی زندگی گزاری، اس کا کردار داغ دھبوں سے پاک تھا، وہ چاہتا تو بہتے دریا میں ہاتھ بھگو سکتا تھا، لیکن اس نے اپنے فرض منصبی کا حق ادا کیا، اب ہم اس کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے دعائیں ہی کرسکتے ہیں۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ۔

فیصل شہزاد

 مدیر بچوں کا اسلام

مرحوم اطہر ہاشمی

شاید 2016کی بات ہےجب پہلی بار ماہنامہ ساتھی کے پروگرام میں جناب اطہر ہاشمی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ہم آپ سے آپ کے مقبول ترین سلسلے خبر لیجیے، اردو بگڑی کے توسط سے واقف تو بہت پہلے سے تھے، مگر زیارت پہلی بار ہو رہی تھی۔گھنگھریالے سفید بالوں میں آپ کے وجیہہ چہرے پر بچوں کی سی معصومیت دیکھ کر ہمیں نجانے کیوں حیرت سی ہوئی۔ شاید اس لیے کہ آپ کے دائیں ہاتھ میں پانچ انگلیوں کے ساتھ چھٹی انگلی کے طور پر ایک عدد سگریٹ ہمیں مسلسل دو گھنٹے تک نظر آتی رہی تھی۔ آپ بلاشبہ چین اسموکر تھے، پھر بھی حیرت انگیز طوررپر 72 برس کی عمر میں بھی بے حد چاق چوبند اور صحت مند نظر آتے تھے۔اعظم نے تعارف کروایا توبہت اچھی طرح مسکرا کر ملے۔حال احوال پوچھا، بچوں کا اسلام کے حوالے سے ایک دو بڑے مزے کی باتیں کہیں، قصہ مختصر اس مختصر سی ملاقات کا دل پر بہت ہی اچھا تاثر پڑا۔یہی ملاقات ہماری پہلی تھی اور یہی آخری۔ اس کے بعد فون پرہی دو بار بات ہوئی۔ ایک بار انھوں نے خود نجانے کس سے فون نمبر لے کر رابطہ کیا، جب ہمارا سفرنامہ ساتھی میں شائع ہو رہا تھا۔بے حد حوصلہ افزا کلمات کہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ ناچیز کو چشم زدن میں آسمان پر چڑھا دیا۔دوسری بار اپنی کتاب پر ان کے تاثرات کے لیے ہم نے انھیں فون کیا، تب بات ہوئی۔اس وقت بھی بات کرنے کے دوران میں خوب ہنستے رہے۔ ہمارے عمرے پر جانے کا پتہ چلا تو دعاؤں کی درخواست کرتے ہوئے سفرنامہ عمرہ کی بھی فرمائش کر ڈالی۔ اردو زبان میں ان کی باکمال صلاحیت کے ساتھ ان کی ہنس مکھ شخصیت وہ دوسری شے تھی، جس نے ہمیں بے حد متاثر کیا۔ دو ہفتے پہلے ہی آشیانہ پبلی کیشن سے ان کے خبر لیجیے زبان بگڑی والے وقیع سلسلے کو کتابی شکل میں لانے میں ہمارا اور اعظم بھائی کا مشورہ ہوا تھا۔ اعظم نے ان سے بات کرلی تھی۔ بہت خوشی کا اظہار کیا تھا، مگر کسے پتہ تھا کہ اپنی کتاب پر پیش لفظ لکھے بنا وہ اللہ میاں کی بارگاہ میں حاضر ہوجائیں گے۔رات سوتے ہوئے بہت ہی سہولت کے ساتھ اللہ رب العزت کے پاس چلے گئے۔نور اللہ مرقدہ۔

نواز دیوبندی

اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے میرا ہاشمی صاحب سے بڑا قریبی تعلق تھا اکثر ہاشمی صاحب اور بھابھی صاحبہ سے رابطہ رہتا تھا دیوبند کے قریب ایک بستی ہے راجو پور وہ ہاشمی صاحب کا آبائی وطن ہے ان کا انتقال صحافتی نقصان کے ساتھ ساتھ ہمارے علاقے کا بھی بڑا نقصان ہے وہ روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر انچیف تو تھے ہی لیکن صاحب جسارت بھی تھےاللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔،

رؤف طاہر
اطہر ہاشمی میرے بڑے بھائیوں کی طرح تھے۔1981 میں میں نے جسارت کا لاہور آفس جوائن کیا تو وہ کراچی ہیڈ آفس میں بہت اہم ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔ان سے رابطہ رہتا، ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی میرے بہت کام آئی۔ بھر جدہ میں ہم نے ایک ہی چھت تلے کام کیا۔اب میں ان کے رفیق کار سے بڑھ کر گھر کا ایک فرد بن گیا تھا۔بھابی نیلوفر ہاشمی نے بڑی بہنوں جیسی شفقت دی۔ بھابی لاہور آتیں تو ہمارے ہاں ضرور تشریف لاتیں۔ میری اہلیہ مرحومہ سے بہنوں کی طرح میل جول رکھتیں۔اطہر اور نیلو فر ایک مثالی جوڑا تھے، انہی جوڑوں میں ایک جوآسمانوںپر بڑے اہتمام سےبنائے جاتے ہیں۔اللہ اطہر بھائی کو جنت الفردوس میں مقامِِ بلند سے نوازے ، نیلوفر بھابی، عزیزحماد ، فواد اور صارم کو زندگی کا یہ سنگین ترین صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین

یہاں ہر اک سمجھتا تھا کہ بس اس کا ہی ہے جگری
پریشانی میں بھی جس کا لب و لہجہ تھا بے فکری
بہت بے باک لکھتا تھا تھی اس کی گفت گو مصری
صحافت بال کھولے ہے قلم کی زلف ہیں بکھری
وہ اطہر ہاشمی یعنی کہہ اسم با مسمیٰ ہی
قلم کاروں سے کہتا تھا خبر لیجئے زباں بگڑی

اے ایچ خانزادہ

حصہ