اے اجنبیو!۔

938

مرتب: اعظم طارق کوہستانی
یہ 1978 کی بات ہے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کا ہوسٹل اسلامی جمعیت طالبات کا بڑا مرکز ہوا کرتا تھا۔ روزانہ درس قرآن لٹریچر کی کلاسز ، کمرہ کمرہ دعوت دینا، وہ جمعیت کے عروج کا سنہری دور تھا۔ ایک بہن نے مجھے’خطبات حصہ اؤل‘تھمائی۔ ’’یہ پڑھو بہت اچھی کتاب ہے۔‘‘
میں نے کھولی، مسلمان کسے کہتے ہیں ، کلمہ طیبہ کا مطلب ،مسلمان اور کافر کا فرق۔
’’اس میں کیا نئی بات ہے؟‘‘ میں نے مْسکراتے ہوئے کہا۔ ’’یہ سب تو مجھے معلوم ہے۔ ‘‘
’’اچھا ایسا کرو رکھ لو، پڑھ کر دیکھنا تو سہی۔‘‘میں نے بادل نخواستہ رکھ لی کہ ’اب ہمیں یہ ابتدائی قاعدے بھی پڑھنے ہوں گے میڈیکل کالج پہنچ کر‘۔ ٹیک لگا کر بے نیازی سے کتاب کھولی اور پھر…بند نہ کر سکی…میری آنکھیں کھلتی گئیں۔ شعور اور لاشعور میں روشنی سی پھیلنے لگی۔ مجھے کچھ کچھ معلوم تھا کہ مسلمان کسے کہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اتنا واضح پتا نہ تھا۔ یوں لگا کہ آج ہی معلوم ہوا ہے کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے اور شعوری مسلمان ہونے میں کیا فرق ہے۔
قرآن سے شغف پہلے سے تھا لیکن ’’سوچنے کی باتوں‘‘نے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ قرآن سے وہ تعلق تو نہیں ہے جو مطلوب ہے۔ میری زندگی میں قرآن کا کیا مقام ہے؟ میں جو میڈیکل کالج میں پہنچ گئی ہوں (اس دور میں کوئی کوئی میڈیکل کالج میں پہنچتا تھا)۔ ہر سال کتنی ہی کتابیں نہ صرف گھول کر پی ہیں ان کے امتحان بھی پاس کیے ہیں۔ قرآن ایک مرتبہ بھی ’’گھول‘‘کر نہیں چکھا زندگی میں ، ہاں قرآن خوانی بار بار کی ہے۔ احساس ندامت نے گھیر لیا۔
’کلمہ طیبہ‘کے معانی تو بچپن میں یاد کیے تھے۔ ’پہلا کلمہ طیّب ، طیّب معنے پاک…‘لیکن یہ کلمہ کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟ اس کتاب سے جانا۔ اس کا ہر باب میرے لیئے روشنی کے نئے دریچے کھولتا چلا گیا۔ ربِ کعبہ کی قسم! میں جو ’مذہبی‘کہلاتی تھی۔ مجھے لگا کہ اب مسلمان ہوئی ہوں۔ میری آنکھیں نم رہنے لگیں۔ اپنی کم علمی پر افسوس ہونے لگا۔ میں جمعیت کی بہنوں کے پاس گئی۔ اپنے احساسات بیان کیے۔ بس پھر کیا تھا…اللہ نے شاید مجھے قبول کر لیا۔
مجھے لٹریچر کی کلاس میں داخل کر لیا گیا۔ سید مودؤدی رحمۃ اللہ علیہ میرے محسن میرے مربّی…مجھے شعوری مسلمان بننے کی راہ دکھانیو الے بن گئے۔ لٹریچر کی کلاس میں ایک کے بعد ایک کتاب پڑھتے چلے گئے۔
’اسلام ایک نظر میں‘عقلی و نقلی دلائل سے ایمان مضبوط کر گئی۔
’حقیقت صوم و صلوٰۃ‘سے نماز و روزہ کی کیفیات بدل گئیں۔
’تنقیہات‘نے جدید دور میں اسلام کی حقانیت ثابت کر دی۔ (اور یہ سفر جاری رہا اور آج تک جاری ہے، الحمدللہ)
’’تفہیم القرآن‘‘ نے ’’سوچنے کی باتیں‘‘ ایسی سمجھائیں کہ آج تک اس ’سوچ‘ نے جینا دوبھر کر رکھا ہے۔
حاملین قرآن کی بھاری ذمّہ داریاں کبھی راتوں کی نیند اڑا دیتی ہیں، کبھی دن کا چین چھین لیتی ہیں۔ زمانے کے امام برحق۔۔۔سید مودؤدی کے لٹریچر نے جو چنگاری دل میں سْلگا دی اس کی تپش شعور و لاشعور سے عملی زندگی میں منتقل ہوتی گئی۔
فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں میڈیکل تو پڑھا، اسی کے لیے داخلہ لیا تھا لیکن یہ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ میرا مہربان اللہ مجھے یہاں کیوں لایا۔ شاید اللہ کو میری زندگی میں اس ذریعے سے بڑی تبدیلی مقصود تھی۔ سید کا لٹریچر سحر انگیز ہے، اس کا سحر انسان کو جکڑ لیتا ہے۔ اندر تک اْتر جاتا ہے، زندگیاں بدل جاتی ہیں۔ انسان کے اندر انقلاب آجاتا ہے۔ یہ انقلاب ہم نے اپنے اردگرد بارہا دیکھا۔ماڈرن گھرانوں کی لڑکیاں بدل رہی تھیں۔
’سورۃ النور‘ ، ’احزاب‘ اور ’النساء ‘ کی تفاسیر پڑھ کر اور کتاب ’پردہ‘ کے اندر سے گزر کر لڑکیاں جب گھروں کو جاتیں تو ان کے حلیے بدلے ہوئے ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک باحجاب لڑکی کی ماڈرن ماں نے اس سے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’مجھے تمھارے ساتھ چلتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘‘
یہ تبدیلیاں تب بھی ہو رہی تھیں اور اب بھی جاری ہیں۔ ہاں اب فکر کی بات ہے کہ کتاب سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔ اردو پر ’’رومن اور انگلش‘‘ کا حملہ ہو چکا ہے۔ مولانا کا لٹریچر جو کبھی بہت آسان اردو کا عکاس تھا آج کی نسل نو کے لیے ’’مشکل اردو‘‘ میں بدل چکا ہے۔ تحریک کے علمبرداروں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ چکی ہیں۔ ’اسلامی تہذیب کے اصول مبادی‘ کی چْولیں مغربی نظام تعلیم نے ہلا دی ہیں۔ مادیت کی دوڑ نے مقاصد زندگی بدل دیے ہیں۔ میڈیا کی چکا چوند اور گلیمر نے ’ایمان کاحسن‘ ماند کر دیا ہے۔
میرے بچو! اسلامی جمعیت کے چاند ستارو! تمھاری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ جدید جاہلیت کے اندھیروں میں اس جھوٹی چکا چوند میں علم و ایمان کے دیے کیسے جلانے ہیں؟ مولانا رحمۃاللہ علیہ کے لٹریچر کو جدید ذرائع رسل و رسائل کی زینت کیسے بنانا ہے؟ آج کی سرپٹ بھاگتی نسل نو کو زندگی کا مقصد کیسے سمجھانا ہے؟ ’سوچنے کی باتوں‘ پر کیسے لانا ہے؟ جدید تعلیم کے پھیلائے شکوک و شہبات کے جنگل کو صاف کر کے، کلمہ طیبہ کی فصّل کیسے اْگانی ہے؟ یہ سب کام تمھیں کرنے ہیں! جدید ہتھیاروں سے لیس مجاہدین علم و دانش کو…
سید کے لٹریچر میں آج بھی وہی کاٹ ہے جو روح کے اندر اْتر سکتی ہے، وہی روشن دلائل ہیں جو ان اندھیروں کو مات دے سکتے ہیں ، بس پیش کرنے والوں کو پیش کش کے نئے انداز سیکھنے ہوںگے۔ 1978 سے 2019 تک کے طویل سفر میں دنیا بہت آگے جا چکی ہیں۔ ہم کس منزل پر ہیں؟ ہماری رفتار زمانے کا کتنا ساتھ دے رہی ہے؟ میرے جوان بچو! اب ہم ڈھلتی عمر والے اس رفتار سے نہیں چل سکتے۔ سیدی کے مجاہدو! اْمیدیں تم سے وابستہ ہیں۔ اے روشن چاند ستارو! جاگتے رہنا۔
سودی معیشت نے غریب کا لہو نچوڑ لیا ہے۔ چاروں طرف سے ابلیسی تہذیب کی یلغار ہے۔ بے حیائی کے طوفان نے خاندانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ دہریت نے مسلمان گھرانوں میں نقب لگا دی ہے۔ ہر مسئلے کا حل قرآن میں ہے جسے سید نے تفہیم القرآن میں واضح کر دیا ہے اور ان کا لٹریچر آج بھی روشنی کا مینار ہے۔ختم نبوت پر حملہ ہو رہا ہے! (سیدی نے کیسے اس حملے کو روکا تھا…معلوم ہے نا) پاسبان پیغام نبوت کل بھی سیدی کردار والے اصحاب مودؤدی تھے…آج بھی تم ہو۔ ’مدینہ کی اسلامی ریاست‘ کی دیواریں بھی تم ہی اْوپر اٹھا سکتے ہو کیونکہ تمھاری تربیت کی بنیادوں میں ’’اللہ کی حاکمیت‘‘ کا شعور پیوستہ ہیا ور ’اسلامی ریاست‘ کے خدوخال سیدی کے شاگردوں نے ہی آج کی دنیا کو سمجھائے ہیں۔ تمھاری ذمّہ داریاں دوہری ہیں۔
میرے بچو! کیا تم ا ن کے لیے تیار ہو؟
پس خوشخبری ہے تم جیسے اجنبیوں کے لیے۔ ان شاء اللہ۔

مولانا مودودی کے بارے میںپروفیسر خورشید احمد کی راے

(ماہر اقتصادیات)

سید مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک انسان ساز، زمانہ ساز اور تاریخ ساز انسان تھے۔ اُنھوں نے فکر کے میدان میں بھی انقلاب پیدا کیا ۔ آج کی اسلامی تحریکوں کے لیے ایک مؤثر تنظیمی ڈھانچہ پیش کیا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی سادگی تھی ۔ ان کے ساتھ گفتگو کر کے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ سچی بات کر رہے ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ وقت گزار کر اندازہ لگایا ہے کہ وہ ظاہر اور باطن سے ایک انسان تھے۔ ان کی یک رنگی اور سادگی کے ساتھ ساتھ ان کی ایمانی کیفیت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ 1963ء میں ان کے ساتھ ایک اجتماع میں تھا اور ان پر حملہ ہو اتو لوگوں نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں تو مولانا نے تاریخ ساز جملہ کہا :
’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون ہو گا؟‘‘
استقلال، ایمان اور پامردی یہ ان کی شخصیت تھی۔ اُنھوں نے اپنی زندگی کے مقصد کے لیے اپنا تمام وقت ،صلاحیت اور جدوجہد کو مرکوز کیا اور ہر وہ چیز جو اُنھیں ان کے مقصد سے ہٹائے وہ اسے جانے دیتے تھے ۔ان لوگوں کی مثال جو ان کی مخالفت کرتے تھے کچھ اس طرح دی کہ اگر انسان ایک سفر پر جا رہا ہو اور اس کے دامن پر کانٹے لگ جائیں تو اس کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو وہ اپنے دامن کے اتنے حصہ کو پھاڑ کر کانٹوں کی نظر کرے یا ان سے اُلجھ کر بیٹھ جائے۔ اگر آپ اُلجھ گئے تو اپنی منزل سے پیچھے رہ جائیں گے۔ مولانا نے مغربی فکری اصطلاح کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے علمی ذخیرے سے ایک نیا علم الکلام ایجاد کیا اور اُنھوں نے قرآن و سنت کو آج کے معاشرے پر منطبق کیا۔ان کی تعلیمات ہمارے لیے آج کے معاشرے میں راہنما ہیں۔

حصہ