پنچھی پوچھتے ہیں

315

ہر روز کی طرح آج بھی میں گھر کی چھت پر چڑیوں، کبوتروں اور دیگر پرندوں کو باجرہ اور چاول ڈال رہا تھا۔ آج منظر عجیب تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرندوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ پرندے اپنی آوازوں سے ساتھیوں کو بلا رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام کھانے کی چیزیں ختم ہو گئیں۔ پر پرندے اپنی جگہ سے ٹس سے مس تک نہ ہوئے۔ ان کی موجودگی کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ وہ سوال جو آج کل زیادہ تر انسانوں کی زبان پر حالات کے تحت موجود ہے۔ صبح سے کچھ نہیں کھایا، گھر پر بچے بھوکے ہیں۔ ایک کبوتر دیوار پر آ کر بیٹھا۔ اس کی حالت بتا رہی تھی کہ میلوں کا سفر طے کرکے آیا ہو۔ وہ آوازیں نکال کر کچھ کہہ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے بتا رہا ہو کہ ساری بستی، شہر ویران ہے۔ وہ چوک جہاں لوگ ہمارے لیے پانی اور کھانے کی چیزیں رکھ دیتے تھے۔ اب وہاں کوئی نہیں آتا۔ وہ جگہ سناٹے کا منظر پیش کرتی ہے۔ وہ کبوتر فرش کو خالی دیکھ کر اڑ گیا۔ یہ منظر دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایک برتن میں پانی بھرا، دکان سے باجرا اور چاول خرید کر چھت پر ڈال دیے اور اپنے کمرے میں آگیا۔ ناجانے کیوں وہاں رکنے کی ہمت نہ ہوئی۔
nn

حصہ