سنت ابراہیمی ؑ : دینئ اور دنیاوی فوائد

405

عائشہ صدیقہ

’’ان جانوروں کو ہم نے تمھارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو‘ نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں اور نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (سورہ الحج)
قربانی مسلمانوں کے لیے ایک ایسا مذہبی فریضہ ہے جس کی قرآن و سنت میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ مقاصد بھی بتادیے گئے کہ اس عمل سے سنتِ ابراہیمیؑ کی پیروی کے ساتھ ساتھ اللہ کی خاطر اپنی محبوب اور پسندیدہ شے کو قربان کرنے کے جذبے کو بیدار اور توانا بنانا ہے۔ وہ شے کچھ بھی ہوسکتی ہے۔
ہمارا مال، وقت، نفس، جسم و جاں کی صلاحیتیں اور بہت کچھ!
2 ہجری میں اللہ کی طرف سے آنے والے اس حکم کے پیچھے دو پیغمبر باپ بیٹے (حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام) کی اپنی لازوال محبت کو اللہ کی خاطر قربان کردینے کی ایک تحیر آمیز داستان بھی موجود ہے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک خواب میں اپنے پیارے بیٹے کو قربان کرنے کے بارے میں سن کر حضرت اسماعیل علیہ السلام اس عمل کے لیے تیار اور راضی برضا ہوگئے کہ انبیائے کرام کے خواب سچے ہوا کرتے ہیں۔
یہ تو اس فریضے کا مذہبی پس منظر ہے۔ اگر ہم اس حکم کو دنیاوی نظر سے دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اللہ رب العالمین کے ہر حکم میں انسانوں کے لیے سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے۔
پاکستانی کاروباری منڈی میں سب سے بڑا کاروبار عیدالاضحی کے موقع پر ہوتا ہے (یہ صرف پاکستان کی بات ہو رہی ہے، پوری مسلم دنیا کا معاملہ ہم خود سوچ سکتے ہیں) جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 3 سے 4 کھرب روپے کے مویشیوں کا کاروبار ہوتا ہے‘ 20 سے 30 ارب قصاب حضرات مزدوری کے طور پر کماتے ہیں اور یہ صرف پروفیشنل قصاب ہی نہیں ہوتے، عام مزدور اور اس کام میں ماہر حضرات بھی شامل ہیں جو اس کام سے اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں، صرف یہی نہیں کسانوں اور دیہاتیوں کا چارہ فروخت ہوتا ہے، ان کو سال بھر جانوروں کو پالنے پوسنے کی مناسب قیمت بھی ملتی ہے۔ جانوروں کو گاڑیوں میں لانے لے جانے والے بھی اچھا کما لیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جانوروں کی کھالیں مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں، جن سے انسانی ضروریات کی بے شمار قیمتی اشیاء بنائی جاتی ہیں، یقیناً اس سے مزدوروں اور کاریگروں کو بھی کام ملتا ہے۔
الحمداللہ جماعت اسلامی نے قربانی سے حاصل شدہ کھالوں سے فائدہ اٹھانے کا کام سب سے پہلے شروع کیا۔ جماعت کے پُر خلوص اور مخلص کارکنان عیدالاضحیٰ کے تینوں دن صبح سے شام تک کھالیں جمع کرنے میں مصروف ہوتے ہیں، جس وقت دوسرے لوگ عید کو ملنے ملانے اور کھا نے پینے میں انجوائے کررہے ہوتے ہیں، وہ اپنے نفس اور وقت کی قربانی دے کر اس اہم سرگرمی میں مصروف ہوتے ہیں۔ کھالوں کی فروخت سے حاصل رقوم جماعت اسلامی اپنے فلاحی و رفاہ عامہ کے منصوبوں پر خرچ کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کی اس سرگرمی کو دیکھ کر دیگر جماعتوں اور تنظیموں نے بھی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنایا۔
قربانی کے اس حکم ربی پر عمل کرنے سے کاروباری دنیا میں پیسے اور مال کا ایک گردشی چکر نظر آتا ہے جس کا حساب لگانے سے عقل و ذہن دنگ رہ جاتے ہیں‘ جس کے ذریعے یہ مذہبی فریضہ قربانی کے گوشت سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ غریب طبقے کے روزگار اور آمدنی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔
آج کل کورونا وائرس سے پیدا خراب معاشی صورت حال میں ہمارے کچھ دانش ور حضرات ایسی باتیں بھی کررہے ہیں کہ قربانی کرنے کے بجائے چار گھروں میں راشن ڈلوا دیا جائے تو زیادہ اچھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے یہ خیالات قرآن و سنت کے احکامات سے بے زاری اور لاعلمی پر مبنی ہیں، اگر وہ اس حکم کی اہمیت کو سمجھتے اور اس سے حاصل شدہ فوائد کو مدنظر رکھتے تو ہرگز ایسا نہ کہتے۔
صرف ایک حکم الٰہی کی حکمت اور مشیت پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں کے لیے اس میں کتنی بھلائیاں پوشیدہ ہیں، اسی طرح دیگر احکامات ربانی بھی انسانوں کے لیے فائدہ مند اور ان کی فطرت سے قریب تر ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے ذریعے حکم خداوندی کی بجا آوری کا موقع فراہم فرمائے اور قرآن و سنت کا درست فہم عطا فرمائے‘ آمین۔

حصہ