پروفیسر عنایت علی خان کی رحلت : ادب کے ائک اہم باب کا اختتام ان کے انتقال پر مختلف ادبی شخصیات کے تاثرات

1339

پروفیسر عنایت علی خان اب اس دنیا میں موجود نہیں‘ ان کا انتقال 26 جولائی 2020ء کو ہوا‘ وہ کراچی کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے‘ ان کی عمر 85 برس تھی۔ وہ 10 مئی 1935ء کو ہندوستان کی ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے‘ وہ نومبر 1948ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور حیدرآباد میں رہائش اختیار کی انہوں نے گورنمنٹ اسکول حیدرآباد سے میٹرک پاس کیا‘ سٹی کالج حیدرآباد سے بی اے اور بی بی کی اسناد حاصل کیں۔ 1962ء میں ایم اے کرنے کے بعد وہ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ وہ ہمہ جہت شخصیت تھے‘ وہ قادر الکلام شاعر‘ ادیب‘ ماہر تعلیم‘ سماجی رہنما اور نکاح خواں بھی تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ حیدرآباد سے کراچی کے علاقے ملیر کینٹ شفٹ ہوئے‘ جہاں سے ان کا جنازہ اٹھا اور ماڈل کالونی قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔ وہ طویل عرصے ادبی منظر میں اپنی پہچان بنا چکے تھے‘ ان کے شعری مجموعے ازراہِ عنایت‘ کلیات عنایات‘ عنایتیں کیا کیا‘ کچھ اور‘ کلیات عنایات ہیں۔ ان کے کلام کا انتخاب ’’نہایت‘‘ 2005ء میں شائع ہوا ان کی شاعری کا ایک اور انتخاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں بھی لکھیں اس کے علاوہ انہوں نے اردو کی درسی کتب بھی ترتیب دیں‘ ان کی چھ کتابوں پر انہیں انعام سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے ادارۂ نصابیات سندھ میں اردو‘ اسلامیات اور تاریخِ اسلام کے شعبوں میں قابل تحسین خدمات انجام دیں۔ وہ تنظیم اساتذہ پاکستان کے رکن تھے۔ انہوں نے کالم نویسی اور قطعہ نگاری بھی کی۔ ان کی شاعری کی ابتدا سٹی کالج حیدرآباد سے ہوئی‘ وہ شاعری میں باضابطہ طور پر کسی کے شاگرد نہیں تھے البتہ ایک غزل پر انہوں نے حضرت قابل اجمیری سے اصلاح لی تھی‘ یہ بات انہوں نے راقم الحروف کو اپنے ایک انٹرویو میں بتائی تھی (جو کہ جسارت سنڈے میگزین میں 10 جولائی 2016 کے شمارے میں شائع ہوا تھا) وہ کہا کرتے تھے کہ شاعری انسان کو تہذیبِ نفس سکھاتی ہے اور تفریح طبع کا ذریعہ بھی ہے‘ لیکن ہمارے ماحول میں عام انسان اپنے مسائل اور مصائب میں اس قدر گھرا ہوا ہے کہ وہ شاعری کی سماعت کے لیے وقت نہیں نکال پارہا نیز انگریزی کی یلغار‘ نصابِ تعلیم سے فارسی اور عربی کے اخراج‘ اردو کی قرار واقعی ترویج نہ ہونے کے سبب سماج کو شاعری جیسے تربیتی شعبے سے بے گانہ کر دیا ہے ادیب و شاعر حکومت و اصحابِ ثروت کے التفات سے محروم ہیں بوجہ شاعری کے اثرات معاشرے پر مرتب نہیں ہو رہے۔ پروفیسر عنایت علی خان کی لکھی ہوئی کہانیاں اور نظمیں اردو کی نصابی کتابوں میں موجود ہیں انہیں 2003ء میں ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے بچوں کا بہترین ادیب قرار دیا گیا اور ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی شاعری اور قطعات اردو زبان کا سرمایہ ہے۔ راقم الحروف نے اپنے انچارج اجمل سراج کی اجازت سے کچھ قلم کاروں سے رابطہ کیا جنہوں نے پروفیسر عنایت علی خان کے لیے اپنے تاثرات قلم بند کرائے جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
افتخار عارف:
پروفیسر عنایت علی خان ہمارے زمانے میں مزاح پر شاعری کی ایک دبستان تھے۔ اکبرالٰہ آباد کے بعد سید محمد جعفری‘ غریب جبل پوری‘ دلاور فگار‘ ضمیر جعفری‘ انور مسعود یہ سب ہمارے ممتاز اور منفرد المزاج مزاح نگار ہیں مگر پروفیسر عنایت علی خان کا اسلوبِ مزاح بالکل مختلف تھا وہ نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے‘ وہ انتہائی پاکیزہ سرشت‘ باعمل‘ متقی و پرہیزگار انسان تھے۔ میں نے ان کو ہمیشہ شگفتہ‘ ہنس مکھ اور ملنسار پایا‘ بہت زیادہ مقبولیت کے باوجود بھی وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے تھے ان کے مزاج میںکبھی کبھی ان کے سیاسی نظریات بھی شامل ہو جاتے تھے جن سے لوگوں کو اختلاف بھی ہو جاتا تھا مگر وہ کبھی پسند و ناپسند کی پروا کیے بغیر اپنے نظریات کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگاتے تھے اور ہمیشہ وہ بات کہتے تھے جو کہ ان کی دانست میں درست ہوتی تھی۔ وہ مصلحت کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے۔ فی زمانہ یہ بڑی بات ہے کہ انہوں نے کبھی بھی سطحی موضوعات کو اپنی شاعری کا مرکز نہیں بنایا مگر اس کے باوجود دنیا بھر میں ان کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی شرکت مشاعروں کی کامیابی کی دلیل سمجھی جاتی تھی۔ ایک عالمانہ طرزِ شاعری کے ساتھ جب وہ مزاح کے رنگ پیش کرتے تو محفل کا رنگ دو بالا ہوجاتا تھا۔ اللہ کریم نے انہیں دنیاوی سرخروئی عطا کی تھی‘ مجھے یقین ہے کہ ان کی آخرت بھی بامراد ہوگی۔
امجد اسلام امجد:
پروفیسر عنایت علی خان سے ملاقات 30-35 برسوں پر محیط تھی‘ میں نے ہر ملاقات میں انہیں بہت شفیق‘ ہمدرد‘ زندگی کا شعور رکھنے والا اور کامل یقین و ایمان کا انسان پایا۔ جہاں تک ان کی مزاح نگاری کا تعلق ہے تو میرے خیال مین اس مزاح سے زیادہ ایک درمندانہ طنز غالب نظر آتا ہے۔ وہ اپنی بات کہنے میں کسی مصلحت کو پیش نظر نہیں رکھتے تھے میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کئی مشاعروں اور اجتماعات میں جہاں کسی خاص سیاسی فکر کے لوگوں کی اکثریت ہوتی تھی وہ وہاں بھی اپنے طنز کے تیر چلانے سے چوکتے نہیں تھے لیکن میں نے اپنی تمام زندگی میں انہیں کسی کو برا بھلا کہتے نہیں پایا وہ ہر ایک سے محبت سے پیش آتے تھے ان کی مذہبی فکر اور تدریس کا رویہ دونوں مل کر ان کی شخصیت کے دو بنیادی ستون بن جاتے تھے اور پوری زندگی وہ اپنے اس رویے کی پاسداری بہت ہمت اور حوصلے سے کرتے رہے ان کی وفات سے یقینا ہمارا معاشرہ ایک بہت بڑے ادبی سرجن سے محروم ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر آفتاب مضطر:
مت سہل ہمیں جانو‘ پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اس شعر کے مصداق اور اپنی شاعرانہ ادبی و مزاحی جگماہٹ سے اردو شعر و ادب کو کشتِ زعفران اور گل و گلزار کرکے بچھڑ جانے والے پروفیسر عنایت علی خان کی یادیں زندہ رہیں گی۔ ابھی گزشتہ ماہ کی بات ہے کہ ان کی مشہور اور دل سوز خلوص ومودّت سے ماخوذ مصرع طرح سخن آراستہ یارک شائر ادبی فورم برطانیہ پر نعتیہ مشاعرے کے لیے مکمل نعت طلبی کے لیے فون پر بات ہوئی۔ فرطِ مسرت کا اظہار فرمایا اور بہ کمالِ خوشی مکمل نعت عطا فرمائی‘ تاہم اس ضمن میں ایک سعی و بصری پیغام کی استدعا پر طبیعت کی انتہائی ناسازی کے باعث معذرت فرمائی۔ واقعہ یہ ہے کہ واقعی آواز کی لرزش اور تنفس کی عدم بحالی فون پر بھی مجھے صاف سنائی دے رہی تھی۔ میرے دل کو تب ہی سے دھڑکا لگ گیا تھا۔ تین چار روز پیشتر بھی سید ایاز محمود صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے میرے تازہ مجموعۂ غزل کی ترسیلی فہرست میں پروفیسر عنایت علی خان کا نام بھی شامل کیا لیکن ہائے کیا معلوم تھا کہ اکبر الٰہ آبادی کے تسلسل سے انسلاک کی حامل اس کڑی پر مرگ کا سفاک ہاتھ پڑ چکا تھا۔اردو طنز و مزاح کے شعری سرمائے کو باغ و بہار اور اردو ادب کو ادب عالیہ بنانے والے عنایت کی عنایات کے سورج پر شفقی چادر پھیل گئی۔ مطالبات اور مضحکات میں بھی ایک سنجیدہ و شگفتہ وقار کا حامل تخلیق کار اپنی حمدیہ‘ نعتیہ شعری تخلقیات میں بھی یکتائے روزگار شاعر‘ دارین میں سرخ رو ہو گیا۔ گزشتہ برس کئی مشاعروں اور نجی طرز پر منعقدہ کئی تقریبات میں تواتر سے ملاقاتوں میں برتی گئی ان کی شفقت و عنایات آج ٹوٹ کر یاد آرہی ہیں۔ دل گرفتہ ہے سو گرفتہ دلی کی فریاد اور دعائیں بھی عرش پر منتجات الدعوات ہوتی ہیں اس دل گرفتگی میں دعا ہے کہ سب کو خوش رکھنے والے اور مسکراہٹیں بکھیرنے والے عنایت پر اللہ کریم اپنی خاص عنایات کی بارش تمام و کمال کرکے اگلی منازل میں آسانی اور عفو و مہربانی کا معاملہ فرمائے‘ آمین۔
اختر سعیدی:
پروفیسر عنایت علی خان ایک شخص نہیں‘ ایک عہد کا نام تھا۔ انہیں محض مزاح کا شاعر کہہ کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا انہوں نے بھرپور انداز میں سنجیدہ شاعری بھی کی اور اردو شاعری کو یہ لازوال شعر بھی عنایت کیا:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
ان کی مزاحیہ شاعری میں بھی مقصدیت نمایاں ہے۔ پروفیسر عنایت علی خان کے والد ناظر ٹونکی بھی ایک مزاح گو کی حیثیت سے شناخت رکھتے تھے۔ پروفیسر عنایت علی خان بنیادی طور پر شاعر تھے لیکن ان کے حوالے اور بھی ہیں ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں ان کے لاتعداد شاگرد ہیں۔ زندگی کی آخری سانوں تک وہ جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ان کی شاعری میں بھی اسلامی طرز احساس کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ پروفیسر صاحب مزاجاً بھی بہت نفیس آدمی تھے انہوں نے بہت شفاف زندگی گزاری ہے۔ خدا ان کی مغفرت فرمائے۔
انور شعور:
پروفیسر عنایت علی خان بہت محترم انسان تھے ان کی زندگی کے کئی شعبے تھے اور وہ ہر ایک شعبے میں کامیاب تھے۔ ان کی شاعری ہمہ جہت تھی‘ انکے یہاں پھکڑ پن نہیں تھا‘ وہ مزاح میں بھی اصلاحی پہلو رکھتے تھے۔ وہ ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی بلند مقام کے حامل تھے انہوں نے زندگی بھر علم و فن کے چراغ روشن کی وہ ایک ایسا قد آور شجرِ سایہ دار تھے کہ ان کے سائے میں طالب علموں کو سکون و اطمینان حاصل تھا۔ وہ بہت ملنسار اور خوش مزاج تھے‘ وہ کبھی بھی کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں پر ناقدین علم و فن بہت کچھ کہہ چکے ہیں‘ وہ ایک معتبر شاعر و ماہر تعلیم تھے۔ ان کے انتقال سے ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے‘ آمین۔
پروفیسرڈاکٹر شاداب احسانی:
پروفیسر عنایت علی خان کی موت ایک سانحۂ عظیم ہے‘ انہوں نے زندگی بھر لوگوں کو فیض پہنچایا‘ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے‘ ان کا شمار سینئر شعرا میں ہوتا تھا ان کی شاعری میں شگفتگی اور شائستگی پائی جاتی ہے انہوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن مزاح نگاری ان کی شناخت ہے وہ مشاعرے میں جب بھی آتے تھے لوگ ان کو سماعت کیے بغیر پنڈال سے نہیں جاتے تھے۔ ان کے کلام میں شعری جمالیات کے ساتھ ساتھ دورِ حاضر کے مسائل و معاملات کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ وہ جماعت اسلامی کی آدمی تھے زندگی بھر انہوں نے اپنی جماعت سے وفاداری نبھائی۔ وہ کھرے اور بے لاک لہجے میں بات کرتے تھے انہیں یہ غم نہیں ہوتا تھا کہ کوئی ان سے ناراض ہو جائے گا۔ ان کے دو شعری مجموعے بھی ہیں اس کے علاوہ وہ بچوں کے ہر دل عزیز نظم نگار تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے‘ آمین۔
باقی احمد پوری (لاہور):
ممتاز شاعر‘ ادیب‘ مزاح نگار‘ مبلغ‘ استاد پروفیسر عنایت علی خان ایک بہت بلند پایہ علمی و ادبی شخصیت کے مالک تھے‘ میری ان سے زیادہ ملاقات نہیں۔ کراچی کے ایک دو مشاعروں میں ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا بہت شفیق انسان تھے‘ بہت لطیف نرم لہجے میں بات کرنے والے مگر دل میں اتر جانے والی بات کرنے والے عنایات علی خان ایک ہر دلعزیز شاعر تھے۔ مجھے ہماری عصری مزاحیہ شاعری کو شاعری کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ مزاح کے نام پر مسخری مخولیے لچر پن کو فروغ دینے والے بہت سے لوگ میدان میں آگئے ہیں جنہیں مہذب لوگ سننا پسند نہیں کرتے اس کے برعکس عنایت علی خان پروقار ادبی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی طنزیہ مزاحیہ شاعری محفل کو کشتِ زعفران بنا دیتی تھی۔ وہ تہذیبی اخلاقی ادبی دائروں کے اندر رہ کر مزاح نگاری کرنے والے شاعر تھے انہیں اس عہد کا ’’اکبرِ ثانی‘‘ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے مزاح کے علاوہ بھی بہت سی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ بچوں کے لیے بہترین نظمیں بھی لکھیں۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے‘ ایسے لوگ اب کہاں۔
سحر تاب رُومانی:
علم و ادب کا روشن چراغ‘ لوگوں میں اپنی گفتگو سے مسکراہٹوں کے پھول بکھیرنے والے پروفیسر عنایت علی خان بھی رخصت ہوئے۔ پروفیسر عنایت علی خان نے اپنے خاص طرز کلام کی وجہ سے دنیائے شعر و ادب میں اپنی جگہ بنائی اور شہرت پائی‘ مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ سنجیدہ شاعری بھی ان کی پہچان بنی۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
ان کا یہ شعر یہ انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا‘ اللہ رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے‘ آمین۔
ڈاکٹر معین قریشی:
پروفیسر عنایت علی خان دورِ حاضر میں اکبر الٰہ آبادی کی روایاتِ طنز و مزاح کے حقیقی وارث اور امین تھے۔ دونوں مشاہیر کے اسلوب‘ مضامین‘ موضوعات‘ لفظیات اور تلازمات میں غضب کی یکسانیت پائی جاتی ہے اکبر نے اپنے کلام میں بدیسی انگریزوں کو نشانہ بنایا‘ عنایت علی خان نے دیسی انگریزوں کی خبر لی۔ معاشرتی اور معاشی مصائب کی بیخ کنی کے لیے دونوں شعرا اپنی علمی‘ قلمی اور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ مزاحیہ شاعری شعبے میں اکبر الٰہ آبادی کی تقلید کا تشکرانہ اعتراف عنایت صاحب نے واشگاف الفاظ میں کیا:
ذوقِ تخلیق کو اکبر نے ڈگر پر ڈالا
مجھ پہ یہ طرفہ عنایت مرے مولا نے کی
اس میں شک نہیں کہ عنایت صاحب کی وجۂ شہرت مزاحیہ شاعری قرار پائی لیکن ان کی سنجیدہ شاعری خصوصاً جنگی ترانے اور حمدیہ/نعتیہ کلام بھی نہایت اعلیٰ پائے کا ہے۔ وہ صحیح معنی میں اکبر ثانی تھے۔ ان کی وفات اردو مکی مزاحیہ شاعری کے لیے ایک المیے سے کم نہیں۔ خطۂ ٹونک اپنی اس انفرادیت پر جتنا بھی فخر کرے وہ کم ہے کہ اس کے دو مایہ ناز سپوتوں میں ایک مشتاق احمد یوسفی نے مزاح نگار کی حیثیت سے جھنڈے گاڑے جب کہ دورے شخص پروفیسر عنایت علی خان بطور مزاح نگار شعر اپنا لوہا منوایا۔ آج پروفیسر عنایت علی خان ہم میں نہیں ہیں مجھے ان کا یہ شعربہت یاد آرہا ہے:
دیکھنا عنایت جا بسے گا زیرِ خاک
اور زمانہ دیکھتا کا دیکھتا رہ جائے گا
ڈاکٹر عزیز احسن:
عنایت علی خان بھی رخصت ہوگئے‘ وہ مزاحیہ شاعری کرنے کے باوجود طبیعتاً زاہد خشک تھے۔ نہیں معلوم وہ زمانے کی تلخیوں کو کس طرح برداشت کر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرتے اور اپنے ماحول کو زعفران زار بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ میں نے ان کی ایک نعت پڑھی تو احساس کی شدت اور خیال کی پاکیزگی کا ایسا ہیولا بنا کہ مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ نعت کسی مزاح گو کی ہو سکتی ہے۔ چناں چہ میں نے اپنے ایک مضمون میں وہ نعت ان کے ہم نام کسی اور نعت گو شاعر سے منسوب کر دی‘ لیکن بعد میں مجھے اس غلطی کا ازالہ کرنا پڑا۔ سچی بات ہے کہ خان صاحب کی نعت عمومی جذباتی انداز کی ہزاروں تخلیقات پر بھاری ہے۔ ایک شعر اور قطع ملاحظہ ہو:
جو جمال روئے حیات تھا‘ جو دلیل راہِ نجات تھے
اسی راہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
کبھی اے عنایت کم نظر ترے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رُخ زیست تھا‘ اسے تیرے غم نے رلا دیا
مجھے پہلے پہل کراچی میں جماعت اسلامی کے ایک مشاعرے میں انہیں سننے کا اتفاق ہوا‘ اس مشاعرے میں بھارت سے جگن ناتھ آزاد اور پاکستان کے کئی معروف شعرا میں حفیظ جالندھری شامل تھے۔ عنایت علی خان صاحب نے وہاں مزاح کی پھلجھڑیاں چھوڑی تھیں اور مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ غالباً 1993ء میں ان سے حیدرآباد میں بالمشافہ ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ غوث متھراوی کے والد گرامی حضرت سید ظہور الحسنین شاہ یوسفی‘ احسنی تاجی کا عرس تھا‘ وہاں نعتیہ مشاعرہ ہوا تو عنایت علی خان صاحب نے وہی نعت پڑھی جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔ نعت کی لفظیات اور پڑھنے کے انداز نے یہ ثابت کیا کہ واقعتاً شاعر نے ہر مصرع پر دل کو لہو لہو کیا ہے۔ اس ملاقات کے بعد اکثر کہیں نہ کہیں خان صاحب سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ اسلام آباد میں ایک دوست آصف اکبر کے ہاں ان سے ملاقاتیں رہیں۔ ایک بار جدہ ائرپورٹ پر انہیں دیکھا تو پرواز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہم دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ان سے آخری ملاقات دسمبر 2019ء میں ہوئی۔ غوث متھراوی کا انتقال 28 نومبر 2019ء کو ہوا تھا اور ان کے بچوں نے ان کی یاد میں اپنے گھر پر ایک محفل رکھی تھی اس میں شرکت کے لیے عنایت علی خان صاحب کسی سفر سے لوٹتے ہوئے ائرپورٹ سے براہِ راست محفل میں آئے تھے۔ وہ بہت تھکے ہوئے تھے لیکن گھر جانے کے بجائے صرف اپنے دوست کی یادیں تازہ کرنے کے لیے وہاں آگئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 1953ء میں غوث اور وہ اسکول میں غالباً ہم جماعت تھے۔ خان صاحب کا حافظہ ایسا تھا کہ وہ اکثر مشاعروں میں اپنا کلام زبانی سناتے تھے اور بے تکان سناتے چلے جاتے تھے۔ ان کی مزاح گوئی کے پس مردہ نہ جانے کتنے غم چھپے ہوئے تھے۔ مجھے آج رئیس امروہوی کا یہ شعر بہت یاد آرہا ہے:
شگفتگی کو ٹٹولا فسردگی پائی
مسرتوں کو نچوڑا ٹپک پڑے آنسو
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
ڈاکٹر رخسانہ صبا:
اردو کی مزاحیہ شاعری کے حوالے سے پروفیسر عنایت علی خان نہ صرف یہ کہ اکبر الٰہ آباد اسکول کے آخری نمائندہ شاعر تھے بلکہ وہ اپنی وضع داری‘ نفیس‘ مہربان اور زندہ دل شخصیت کی حیثیت سے ہماری دم توڑتی ہوئی تہذیب کے ترجمان بھی تھے۔ الفاظ کو ہنر مندانہ طنز و مزاح میں توازن‘ عوامی نفسیات سے آگاہی‘ سیاسی‘ سماجی اور طبقاتی شعور کی بنا پر وہ اردو کی مزاحیہ شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہوں نے سنجیدہ شاعری بھی کی‘ کالم بھی لکھے۔ وہ نظریاتی وابستگی کے حوالے سے بھی ثابت قدم رہے۔ نصابی کتب کی تشکیل میں بھی انہوں نے فعال کردار ادا کیا۔ ایک ایسے عہد میںجب سنجیدہ شعرا بچوں کا ادب تخلیق کرنے پر توجہ نہیں دیتے‘ پروفیسر عنایت علی خان نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں لکھیں جو نصاب میں شامل رہیں یہی وجہ ہے کہ اسلامک یونیورسٹی نے انہیں2003ء میں بچوں کا بہترین ادیب قرار دیا۔ ان کی رخصت سے اردو مزاحیہ شاعری اور زبان و ادب کا ایک اہم باب بند ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے‘ آمین۔
جہانگیر خان:
میں مرحوم پروفیسر عنایت علی خان کو چالیس سال سے جانتا ہوں‘ انہیں ہمارے زمانے کے تمام مشہور و معروف مزاح نگار شعرا میں عزت و توقیر کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ وہ طنز و مزاح کے علاوہ نعت بھی کہتے تھے۔ نعت نگاری میں بھی وہ بہت اہم شعرا میں شامل تھے۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی درس و تدریس سے وابستہ تھی۔ وہ جماعت اسلامی کے شعبہ تعلیم کے روح رواں تھے۔ وہ محکمہ تعلیم سندھ میں حکومت کے نامزد نمائندے بھی رہے۔ ان کی وفات سے ہم ایک نیک اور مخلص انسان سے محروم ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے‘ ان کی وفات ایک سانحہ ہے ان کے طالب علم‘ سامعین و قارئین انہیں یاد کرتے رہیں گے۔
رفیع الدین راز:
میں پروفیسر عنایت علی خان کی میت میں شریک تھا۔ مجھے ان کی موت کا بہت افسوس ہے۔ وہ قلندر صفات انسان تھے میں نے کبھی ان کو غصے میں نہیں دیکھا۔ وہ ہر ایک سے محبت سے پیش آتے تھے‘ وہ ادبی منظر نامے کے درخشاں ماہتاب تھے‘ وہ جس مشاعرے میں شریک ہوتے تھے وہ مشاعرہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا تھا۔ وہ اپنے اشعار میں زندگی کے مسائل‘ سیاسی مسائل کے علاوہ غزل کے مروجہ مضامین بھی باندھا کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں لفظیات کا استعمال دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہر شعر کو بڑی محنت و لگن اور دلچسپی کے ساتھ کہتے تھے۔ نظریاتی طور پر وہ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے دین داری ان کی طبیعت میں شامل تھی انہوں نے شاعری کے علاوہ کالج میں درس و تدریس کی۔ ان کی درسی کتابیں مختلف اسکولوں میں رائج ہیں۔ بلاشبہ وہ ایک بلند قامت شاعر و ادیب تھے۔ ان کی نظمیں اور قطعات سن کر مزاح میں شگفتگی آجاتی تھی۔ وہ جانِ محفل ہوا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیںجنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے‘ آمین۔
راشد نور:
پروفیسر عنایت علی خان ملک اور بیرونِ ملک ادبی منظر نامے میں خاص مقبولیت رکھتے تھے۔ وہ مزاحیہ ادیب میں منفرد مقام کے حامل تھے۔ ان کی شاعری میں طنز کی کاٹ بڑی مشاہدے کے ساتھ ملتی ہے۔ وہ ایک نفیس انسان تھے ان سے تیس برسوں کے دوران مشاعروں میں ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ وہ دل نشین پیرائے میں بات کرتے تھے۔ ان کی سنجیدہ اشعار میں اصلاحی پہلو ملتا ہے وہ مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کے انتقال سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو پُر ہونا آسان نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے‘ آمین۔
ظہور الاسلام جاوید:
پروفیسر عنایت علی خان کی شاعری اور شخصیت‘ دونوں قابل احترام ہیں۔ اُن کے اشعار حالت ِ سفر میں ہیں۔ ان کی نعتوں میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار عشق نظر آتا ہے‘ وہ ایک دین دار شخص تھے انہوں نے تمام عمر جہالت کے خلاف جہاد کیا۔ ان کی سنجیدہ شاعری بھی کمال کی تھی۔ وہ بلا جواز کوئی بات نہیں کرتے تھے‘ اپنی بات پر قائم رہتے تھے۔ انہوں نے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ وہ طنز و مزاح کے بہت بڑے شاعر تھے اور دنیا کی ترقی کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہے۔ا ن کی موت سے مجھے بے حد غم ہوا۔ اللہ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے‘ آمین۔
سعید الظفر صدیقی:
پروفیسر عنایت علی خان ایک قابل قدر شخصیت تھے‘ آج کل طنز و مزاح کی شاعری میں بازاری زبان استعمال ہو رہی ہے لیکن پروفیسر عنایت علی خان نے بہترین لفظیات‘ استعارے اور اسلوب زبان کے ساتھ اپنے اشعار کہے‘ وہ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے انہیں کوئی غم نہیں ہے وہ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے میں کمال رکھتے تھے وہ ایک کامیاب شاعر تھے بچوں کے لیے بھی انہوں نے ادب تخلیق کیا اور درس و تدریس میں بھی نام کمایا۔ وہ جماعت اسلامی کی تربیت یافتہ انسان تھے جس کے باعث وہ ایک باہمت اور مردِ میدان بن گئے تھے‘ وہ ایک پڑھے لکھے خاندان کے فرد تھے۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور تمام عمر پاکستان کی خدمت کی وہ نظریۂ پاکستان کے علمبرداروں میں شامل تھے ان کی وفات سے ہم ایک اچھے انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔
شاعر علی شاعر:
پروفیسر عنایت علی خان ہمارے عہد کے ایک نامور شخص تھے۔ ان کی شاعری اور ان کی گفتگو سے لوگوں کے چہرے کھِل اٹھتے تھے۔ وہ بہت سلیقے سے بات کرتے تھے‘ کبھی بھی انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی کی جس سے دنگا فساد پیدا ہو۔ وہ شاعری کے علاوہ ماہر تعلیم بھی تھے۔ زندگی بھر وہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ ان کی شاعری میں شعری محاسن بہ درجہ اتم موجود ہیں ان کے یہاں تعمیری اور مثبت انداز کے اشعار ملتے ہیں انہوں نے قومی گیت بھی لکھے اور کشمیر کے حوالے سے طویل نظمیں بھی ان کے کریڈٹ پر شامل ہیں۔ وہ نوجوان نسل کے لیے نظمیں اور کہانیاں بھی لکھتے رہے۔ انہیں باضابطہ طور پر بچوںکا ادیب بھی تسلیم کیا گیا۔ وہ نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے۔ شرافت اور ملن ساری ان کی طبیعت کا حصہ تھی۔ وہ کھرے انسان تھے ان کی شاعری میں اصلاحی پہلو نظر آتے ہیں۔ وہ بڑے سے بڑی بات بھی باآسانی کہہ دیا کرتے تھے۔ وہ مجلسی آدمی تھے اپنی عمر کے تقاضوں کے مطابق وہ آسانی سے سفر نہیں کر سکتے تھے لہٰذا وہ بہت کم مشاعروں میں آتے تھے۔ ان کے انتقال سے ادبی منظر نامے سے ایک اہم آدمی کم ہو گیا ہے۔ اللہ ان کی مغرفت فرمائے‘ آمین۔
حنیف عابد:
پروفیسر عنایت علی خان بنیادی طور پر طنز و مزاح کے شاعر تھے‘ آپ تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے لیکن آپ کی شہرت ملک اور بیرون ملک مزاح گو شاعر کی حیثیت سے مستحکم ہوئی آپ کی شاعری ہمارے عہد کا آئینہ ہے وہ اپنے پیش رئوں میں اکبر الٰہ آبادی کے نزدیک تھے لیکن یہ قربت تقلید کے زمرے میں نہیں آتی۔ پروفیسر عنایت علی خان صاحب طرز اور اپنے منفرد لہجے کے مالک تھے‘ ان کی شاعری جہاں مضمحل اذہان کو مسرت و انبساط سے ہمکنار کرتی ہے وہیں فکر کے دریچے بھی کھولتی وہ سنجیدہ شاعری بھی کرتے تھے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر مزاحیہ شاعری اس پر غالب آگئی اور ان کی شخصیت کا حصہ بن گئی آپ کی زندگی کا بڑا حصہ حیدرآباد میں گزرا تاہم آخری ایام کراچی میں بسر کیے۔ وہ ایک نہایت بھرپور اور پُرشکوہ زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے شاعری کے علاوہ ان کی شخصیت اور بھی کئی حوالوں سے معتبر تھی آپ گئے وقتوں کی وہ یادگار تھے جن کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے۔ شرافت کا پیکر‘ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے غالب کی جانب دیکھتے زیر لب تبسم کی ضیا پاشی آپ کا معمول تھا آپ کی رحلت اردو ادب کا نقصان عظیم ہے یہ خلا مدتوں پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اردو ادب میں آپ آنے والے شاعروں کے لیے روشن سنگ میل کی حیثیت سے یاد رہیں گے۔
آسماں تیرے لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
صفدر علی خان انشاء:
صاف رنگت‘ باوقار شخصیت‘ دھلا دھلایا مسکراتا نورانی چہرہ‘ خوش مزانی انگ انگ میں بسی‘ جو بھی ملے مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ بظاہر خوش و خرم اور مطمئن بہ باطن قوم کی بے راہ روی‘ دین سے دوری اور اخلاقی پستی کا کرب سمیٹے اکبر الٰہ آبادی کی انداز میں مشاعروں‘ علاقائی اور قومی پروگراموں میں اپنا پیغام پہنچاتے نظر آنے والے پروفیسر عنایت علی خان اب ہم میں نہیں رہے۔ ان کی مزاحیہ شاعری کے عوام دلدادہ اور خواص ان کی علمی قابلیت کے معترف تھے۔ آپ مشاعروں کی کامیابی سمجھے جاتے تھے۔ عرصے پہلے حیدرآباد سے کراچی آگئے تھے انتہائی نحیف و نزار ہونے کے باوجود وہ خاص خاص محفل میں جایا کرتے تھے۔ دوستوں سے رابطہ رکھتے تھے اور گاہے بہ گاہے ملاقات بھی کرتے تھے۔ جہاد افغانستان میں ایک بیٹے کی شہادت اور دوسرے جوان بیٹے کی اچانک موت کے صدموں کے باوجود بھی وہ ہمت و عزم کا پیکر بنے ہوئے تھے۔ دین اسلام سے بے پناہ محبت کی بنا پر کسی سے اسلام مخالف بات سننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ ملک کے موجودہ حالات پر گہری نظر تھی اور اپنی شاعری میں اس کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
دُعاہے اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو جنت کا باغ بنا دے‘ آمین۔
سلمان ثروت:
ایک عجیب اتفاق یہ رہا کہ پروفیسر عنایت علی خان صاحب حیدرآباد میں بھی میرے محلے دار رہے اور کراچی میں بھی۔ حیدرآباد میں ہماری رہائش لطیف آباد یونٹ نمبر 10 میں تھی اور پروفیسر صاحب یونٹ نمبر 9 میں رہا کرتے تھے۔ جب کہ کراچی میں آپ نے بھی ماڈل کالونی میںسکونت اختیار کی۔ یہ میری کم نصیبی رہی کہ محلے داری ہونے کے باوجود ہماری ملاقاتیں بہت کم رہیں لیکن وہ چند ملاقاتیں علمی‘ ادبی اور تربیتی لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل رہیں۔ حیدرآباد میں جب پروفیسر صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی تو آپ نے انتہائی شفقت کے ساتھ نہ صرف اپنی کتاب بلکہ چند اور کتابیں بھی تحفتاً دیں اور تاکید کی کہ انہیں پڑھیے گا آئندہ ملاقات پر ان پر بات ہوگی۔ آپ انتہائی وضع دار آدمی تھے۔ طنز و مزاح آپ کی شخصیت میں رچا بسا ہوا تھا لیکن اس میں بھی ایک سلیقہ‘ ایک تہذیب اور یہی امتزاج آپ کی شاعری میں بھی نمایاں ہے۔ پروفیسر عنایت صاحب سے میری ایک تفصیلی ملاقات لگ بھگ چھ ماہ قبل ایک نجی مشاعرے میں ہوئی۔ نجی اس لیے کہ وہ محفل میرے یونیورسٹی کے دوستوں نے منعقد کی تھی اور ہم دوستوں نے صرف عنایت علی خان صاحب کو بطور خاص مدعو کیا۔ یوں اس محفل میں ہم نے ان کا خوب کلام سنا۔ ایک دو نظمیں مجھ ناچیز نے بھی سنائیں۔ ایک نظم جس کا عنوان انگریزی میں تھا‘ عنوان سن کر وہ اپنے مخصوص اندازمیں مسکرائے اور کہنے لگے کہ میاں آپ انگریزی زبان سے کچھ زیادہ ہی مرعوب ہیں ورنہ یہ عنوان اردو میں رکھنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ لیکن جب نظم سنی تو خوب داد دی اور کہنے لگے کہ اس نظم کے لیے انگریزی عنوان اس کے موضوع کا بہتر عکاس ہے۔ خیر باتیں اور یادیں تو ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ پروردگار سے دعا ہے کہ پروفیسر عنایت علی خان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیشہ اپنی رحمت کے سائے میں رکھے‘ آمین۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن:
پروفیسر عنایت علی خان ہمارے عہد کے ایک اہم شاعر تھے‘ مزاحیہ شاعری میں ان کا اپنا انفرادی طرزِاظہار تھا۔ لہجے کی بے ساختگی برقرار رکھتے ہوئے الفاظ کی ذو معنویت سے مزاح پیدا کرنا ان کا اسلوب تھا۔ علمی اور نظریاتی بنیادوں پر مستحکم فکر و عمل کے ساتھ ایک ایسی صنفِ سخن میں ناموری حاصل کرنا جو ان کی شخصیت سے میل نہیں کھاتی تھی‘ ان کا کمال تھا۔ میں نے ان کے ساتھ پاکستان اور بیرون پاکستان بھی مشاعروں میں شرکت کی۔ خوش گفتاری اور بااخلاق روّیوں سے وہ عمر اور علم میں برتری کے فاصلے معدوم کر دیتے تھے۔ ان کی رحلت سے ہم ایک وضع دار‘ شفیق اور سینئر شاعر سے محروم ہو گئے۔
سلمان صدیقی:
شعر و ادب کا ایک اور روشن ستارہ 2020ء کی سفاکی نذر ہو گیا۔ طنز و مزاح کے میدان میں اپنے شگفتہ کلام کے رنگ بکھیرنے والے پروفیسر عنایت علی خان اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ادب کا موجودہ شعری منظر نامے میں عنایت صاحب کا اپنا انداز اور معیار تھا‘ انہوں نے سماجی‘ سیاسی‘ معاشی اور انسانی روّیوں میں نظر نہ آنے والی کمزوریوں کو جس طرح طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا وہ بے مثل ہے۔ مشاعرے میں ان کی شمولیت سے سامعین کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا تھا‘ زبان و بیان پر دسترس رکھنے والے 85 سالہ پروفیسر عنایت علی خان ذرا تاخیر کے ساتھ 80ء کی دہائی میں منظر عام پر آنا شروع ہوئے اور بہت جلد اپنی خوش مزاجی اور کلام کی خوبیوں کے باعث اپنی پہچان قائم کر لی۔ انہوںنے جس خوبی کے ساتھ مختلف پیراڈیز لکھیں اور اپنے مخصوص انداز سے جس خوبی کے ساتھ مشاعرے کے پلیٹ فارم پیش کیں اس عمل نے بھی انہیں شہرت عام عطا کی۔ مذہبی ذہن رکھنے والے عنایت خان کی تحریروں میں اصلاحی رنگ بھی نمایاں تھا۔ وہ اکثر مشاعروںمیں کسی نصیحت یا گفتگو کا آغاز کرتے‘ کسی سماجی بے اعتدالی کی طرف اشارہ کرکے مسکراتے ہوئے اپنے شگفتہ کلام کی طرف بڑھ جاتے۔ پروفیسر صاحب ایک تہذیب کی علامت اور ادبی رکھ رکھائو کے امین تھے۔ زبان و بیان‘ تہذیب و تمدن کی عمارت کے ستون ایک ایک کرکے زمین بوس ہورہے ہیں۔ روشنی کم ہو رہی ہے‘ تاریکی میں اضافہ ہو رہا ہے ہماری زبان و ادب کی عمارت کو بنیاد کے نئے ستونوں کی ضرورت ہے۔ اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی۔

حصہ