قربانی کا مقصد

361

ثمن عاصم

9 ہجری ذوالحج کے مہینے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانثار یارِ غار کی قیادت میں مدینہ سے حج کے لیے قافلہ روانہ کیا۔ اُس وقت تک کعبہ شریف میں مسلمان اور مشرکین دونوں ہی حج ادا کیا کرتے تھے‘ مگر قافلہ روانہ ہو گیا تو سورۃ توبہ کی آیات نازل ہو گئیں جس کا لب لباب یہ تھا کہ کعبہ شریف کو ان نجس مشرکین سے پاک کر دیاجائے‘کعبہ کا متولی مسلمانوں میں سے ہوگا مشرکین کو اب اقلیت بن کر رہنا ہوگا۔
رسول اللہ نے اس پیغامِ حق کو پہنچانے کے لیے اپنے داماد اور چچازاد بھائی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کا انتخاب کیا۔ محسوس ہوتا تھا کہ اس فیصلے پر مشرکین بھڑک اٹھیں گے‘ جنگ وجدل پر اتر آئیں گے۔ ظاہر ہے کعبہ‘ جو اُن کے لیے بھی ایک بڑا معزز مقام رکھتا تھا‘ اُس سے دستبرداری اتنی آسان نہ تھی۔ مگر نبیؐ محترم نے دیکھ لیا کہ اللہ کا فیصلہ آچکا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنا کچھ سوچے فیصلہ کرلیا کہ جو بھی ہو‘ ہم حق پر ہیں اور حق کے نفاذ کے لیے ہم کچھ بھی کر ڈالیں گے‘ چاہے کتنی ہی خوںریز جنگ ہو جائے،چاہے کتنے ہی نوجوان شہید ہوجائیں‘ پیچھے نہیں ہٹنا۔
اس کے بعد آپ ؐ کی سنت پر عمل کر کے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ جب ایک گروہ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا۔ ابو بکرؓ نے ان سے حالات کی خرابی کے باوجود جہاد کیا پھر کبھی عمر فاروقؓ نے، کبھی عثمان غنیؓ نے کبھی علی ؓ نے اس سنت کو ہمیشہ زندہ رکھا اور وقت گزرا تو حضرت امام حسینؓ نے حق پر ہونے کی اور باطل کو روندنے کی خاطر وہ قربانی دی جو رہتی دنیا کے لیے ایک عظیم الشان مثال ہے۔
مسلمان اس کے بعد بھی اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جا ن لیں گے متعدد بار دنیا بھر پر حکومت انہی لوگوں نے کی جو حق کا حق ادا کرنا جانتے تھے۔ تاریخ نے ان لوگوں کو یکسر فراموش کر دیا جنہوں نے اپنے حقوق اپنی کم ہمتی کی وجہ سے چھوڑ دیے۔ آج ہر جگہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ہمارے لیے باعث شرم ہیں کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ہونے کے باوجود کہیں ہم کشمیر میں ظلم وستم کے شکار ہیں تو کہیں روہنگیا میں ہم پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں‘ مساجد شہید کر دی جاتی ہیں‘ برما میں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ بے حسی کی حد تو یہ ہے کہ گوگل میپ سے انبیاء کی سر زمین اَرض فلسطین کا نام مٹا دیا جاتا ہے اور ہم بس فیس بک‘ٹک ٹاک اور پب جی میں الجھے نظر آتے ہیں۔
قربانی کا مہینہ ہم سے کچھ تقاضے کر تا ہے صرف نئے کپڑے بنا کر مہنگا جانور قربان کرنے سے ہی قربانی کا حق ادا ہر گز نہ ہو گا بلکہ قربانی کا حق یہ ہے کہ خدا کے حکم پر ہم سے ہر ایک اپنے اسماعیل کو اللہ کی راہ میں دین کی سر بلندی کے لیے پیش کر دے۔

حصہ