اس مرتبہ یہ لکھو

437

عید کی وجہ سے اس مرتبہ پرچہ جلدی جانا تھا، اس لیے آج ہی مجھے اپنا مضمون مکمل کرنا تھا۔ میں اسی سوچ میں گم کسی نئے موضوع کی تلاش میں تھا کہ دروازے پر شبیر بھائی کی جانب سے دی جانے والی دستک نے میرے ذہن میں آنے والے تمام موضوعات کو بکھیر کر رکھ دیا۔ شبیر بھائی محلے میں باتونی کے نام سے مشہور ہیں، بلاوجہ بولنا اور نہ جانتے ہوئے بھی لوگوں کو مشورے دینا اُن کی سرشت میں شامل ہے۔ اس موقع پر جب میں لکھنے کی تیاری کررہا تھا اُن کا میرے گھر آنا دماغ کی دہی کرنے سے کم نہ تھا۔ چونکہ وہ میرے دروازے پر دستک دے چکے تھے، اس لیے انہیں گھر میں بلانا میرا اخلاقی فرض تھا۔ اب کیا لکھنا اور سوچنا! ظاہر ہے بال کی کھال نکالنا جس شخص کی عادت میں شامل ہو اُس کے سامنے کسی سنجیدہ موضوع پر لب کشائی کرنا مجھ جیسے شخص کے بس کی بات نہیں۔ خیر جس کا ڈر تھا وہی ہوا، یعنی میرے سامنے والی کرسی پر چند لمحے خاموش بیٹھنے کے بعد شبیر بھائی اپنے مخصوص انداز میں کچھ یوں گویا ہوئے:
”کیا سوچ رہے ہو، اس مرتبہ کس موضوع پر لکھنے کا ارادہ ہے؟“
”ابھی ذہن نہیں بنایا۔“
”کیا اِس مرتبہ لکھنے کا ارادہ نہیں؟“
”مضمون تو لازمی بھیجنا ہے، ظاہر ہے لکھنا تو پڑے گا۔“
”اِس مرتبہ کس مسئلے پر کاغذ کالے کرو گے؟“
”سوچ رہا ہوں خان صاحب نے گندم مافیا کے خلاف نوٹس لیا ہے، اس پر ہی کچھ لکھ دوں۔“

”نہیں یہ غلطی مت کرنا، خان صاحب نے اس سے پہلے جتنے بھی نوٹس لیے ہیں ان تمام چیزوں کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ چکی ہیں، گندم کے نوٹس پر بھی یہی ہوگا۔ اس پر تم نے اگر کچھ مثبت لکھ دیا اور چند دن میں گندم مہنگی ہوگئی جو کہ لازمی ہونی ہے، تو تمہاری جگ ہنسائی ہوگی۔ اس موضوع کو چھوڑو، کچھ اور لکھو۔“
”اگر یہ مسئلہ ہے تو پھر پاکستانی کرنسی پر لکھ دیتا ہوں، تم نے ہی تو کہا ہے کہ خان صاحب نے جب جب جس چیز پر نوٹس لیا اُس کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ آج کل ہمارے ملک کی کرنسی پورے خطے کے ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے، یعنی ہمارے روپے کی قدر و قیمت کم ہوچکی ہے۔ ظاہر ہے خان صاحب جب اس پر نوٹس لیں گے تو تمہارے بتائے ہوئے کلیے کے مطابق ہماری کرنسی کے پَر لگ جائیں گے اور وہ آسمانوں تک پہنچ جائے گی، اس طرح ہمارے روپے کی قدر و قیمت پھر سے بڑھ جائے گی۔“
”نہیں نہیں، یہ کام بھی نہیں کرنا، تمہیں معلوم نہیں کہ خان صاحب کے نوٹس کے بعد پہلے تمام بازاروں سے اشیائے ضروریہ غائب ہوجاتی ہیں، اس کے بعد ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر تم نے کرنسی سے متعلق لکھ دیا اور خان صاحب نے اس کا نوٹس لے لیا تو ملک بھر سے ایک ایک روپیہ غائب ہوجائے گا، اس کے بعد لازمی طور پر ہمیں سکّے بنوانے پڑیں گے اور وہ بھی چمڑے کے، اور شاید تم کو یہ خبر نہیں کہ پاکستان میں چمڑے کی صنعت پہلے ہی تباہ ہوچکی ہے، ایسی صورت میں چمڑے کا بندوبست کرنا بھی انتہائی مشکل ہوگا، تو اس پر لکھنے کی بالکل بھی غلطی نہ کرنا۔“
”چلیں عید کے موضوع پر ہی لکھ دیتا ہوں، سنا ہے اِس مرتبہ جانور بڑے مہنگے فروخت ہوئے ہیں، مویشی منڈیوں میں بیوپاریوں نے اپنی من مانیاں کی ہیں۔ اس موضوع پر ہی کچھ تحریر کردیتا ہوں۔“
”سنڈے میگزین عید کے دن آئے گا، اُس وقت تک یہ موضوع پرانا ہوچکا ہوگا۔ میرا مطلب ہے اُس وقت تک تو لوگ نہ صرف مویشی منڈیوں سے خریداری کرچکے ہوں گے بلکہ لائے گئے جانوروں کو قربان بھی کیا جا چکا ہوگا۔ اس لیے اس پر لکھنے کا کیا فائدہ!“
”اِس پر نہیں لکھنا، اُس پر نہیں لکھنا، تو پھر کس پر لکھوں؟ چلو آپ ہی کچھ بتادو۔“
”ہاں یہ ہوئی ناں بات… اب میں بتاتا ہوں جس موضوع پر تم کو لکھا ہے۔ سنو، کیوں کہ سنڈے میگزین عید کے دن تمہارے پڑھنے والوں کے سامنے ہوگا اس لیے حقائق لکھو۔ تم لکھو کہ اب تک شہر میں بارش کا گندا پانی جگہ جگہ کھڑا ہے، میدان کسی تالاب کا منظر پیش کررہے ہیں، برساتی نالے بپھرے ہوئے ہیں، کچرا کنڈیوں کے اطراف اور سڑکوں پر قربان کیے ہوئے جانوروں کی آلائشیں بکھری پڑی ہیں، شہر میں مچھروں اور مکھیوں کی یلغار ہوچکی ہے، جانوروں کی باقیات، گندگی اور تعفن کی وجہ سے شہر بھر میں ہیضہ اور سانس کی بیماریوں جیسے امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ اس بدترین صورتِ حال میں انتظامیہ کہیں نظر نہیں آرہی، بلکہ حکمرانوں کی جانب سے کراچی کے عوام کو نہ صرف ان وبائی امراض، بلکہ کورونا جیسے جان لیوا وائرس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس مرتبہ یہ لکھو، کیوں کہ یہی حقیقت ہے۔“
”یہ کیا کہہ رہے ہیں شبیر بھائی! کراچی شہر کا جو نقشہ آپ نے کھینچا ایسا کچھ نہیں ہے، ابھی تو عیدآنے میں چار دن باقی ہیں اور آپ نے پہلے سے ہی گندگی، کچرے کی ڈھیروں اور شہر میں جگہ جگہ جانوروں کی باقیات پھینکے جانےکا ذکر تک کر دیا۔ کچرے کے ڈھیروں کا ذکر کردیا جس کا حقیقت سے دور تک کوئی تعلق نہیں۔“
”تم پریشان نہ ہو، جو کچھ بھی میں نے کہا ہے وہ سب لکھ دو، جب تک سنڈے میگزین عوام کے ہاتھوں میں آئے گا تب تک شہر کی یہی صورت حال بن چکی ہوگی، اور میری جانب سے کی جانے والی ایک ایک بات سچ ثابت ہوگی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، ہر سال اسی طرح ہوتا ہے۔ کیا تم کو خبر نہیں کہ ہر سال عیدِ قرباں کے بعد یہاں وبائی امراض پھوٹتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ یہاں آلائشیں سڑکوں پر پھینک دی جاتی ہیں۔ اور کیا تم یہ بھی نہیں جانتے کہ یہاں جگہ جگہ گندے پانی کے جوہڑ کھڑے ہیں۔ کیا تم اس سے بھی لاعلم ہو کہ یہاں کی انتظامیہ سوئی ہوئی ہے! ایسا بالکل نہیں ہے، تم خوب جانتے ہو اور ہمیشہ سے یہی کچھ دیکھتے آئے ہو، اس لیے تمہارے لکھنے میں کچھ جھوٹ نہیں ہوگا، بلکہ تم سچ ہی لکھو گے۔ اگر میری بات پر اعتبار نہیں تو عید کے دوسرے دن یا پھر عید کے بعد دیکھ لینا، شہر کسی کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہوگا، یہاں وبائی امراض پھوٹ چکے ہوں گے، نااہل انتظامیہ کی کارکردگی ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی زیرو ہی ہوگی۔ لوگ مجھے باتونی ایسے ہی نہیں کہتے، میں ہربات کی خبر رکھتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ یہاں عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان پر سیاست کی جاتی ہے۔ تحریک انصاف ہو یا پاکستان پیپلز پارٹی، یا پھر ایم کیو ایم… تینوں جماعتیں حکومت میں شامل ہیں، جھوٹے نعروں، جھوٹے وعدوں، جھوٹے دعووں اور اختیارات نہ ہونے کا رونا رونے کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں۔ اگر کچھ ہے تو ان کا ایجنڈا صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے۔“
شبیر بھائی سے جتنا مرضی اختلاف کیا جائے وہ اپنی جگہ، لیکن ان کی اس بات میں سچائی ضرور موجود ہے کہ راشی افسران، نااہل حکمرانوں اور موسمی سیاست دانوں نے روشنیوں کے شہر کراچی کو اپنی ذاتی خواہشات، لسانی و سیاسی انا پرستی اور ہؤس کی خاطر کچرا کنڈی بنا ڈالا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کراچی ملک کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب بڑا شہر ہے، اس کا آج کوئی پرسانِ حال نہیں۔ یہ شہر اس وقت بلدیاتی لحاظ سے گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ کراچی میں سرفہرست مسئلہ ’سالڈ ویسٹ مینجمنٹ‘ یا شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کو اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانا ہے، جس پر سندھ حکومت نے کئی ارب روپے لگائے، لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ یہاں رہنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ کراچی میں 12 ہزار ٹن سے زائد کچرا روزانہ پیدا ہوتا ہے، لیکن اس میں سے بمشکل 50 سے 60 فیصد ہی اٹھایا اور باقاعدہ ٹھکانے لگایا جاتا ہے، باقی کچرا شہر کے گلی کوچوں، چوراہوں یا پھر ندی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے، جس سے وہ نالے برسات کے موسم میں اُبل پڑتے ہیں اور نتیجتاً بارش کا پانی قریبی آبادیوں، سڑکوں اور گلیوں میں جمع رہتا ہے، اور پھر بارشوں میں شہر بھر کا نظام درہم برہم نظر آتا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ قانونی طور پر بلدیہ عظمیٰ کراچی اور شہر کی ضلعی میونسپل کارپوریشنز سڑکوں، گلیوں کے ساتھ نالوں کی صفائی ستھرائی کی پابند تو ہیں، لیکن بلدیہ عظمیٰ کی کچرا اٹھانے والی سینکڑوں گاڑیاں کھڑے کھڑے ناکارہ ہوچکی ہیں، یا پھر انہیں چلانے کے لیے ایندھن کے پیسے موجود نہیں ہوتے۔ اس مد میں ملنے والے فنڈز میں مبینہ کرپشن کی شکایات بھی زبان زدِ عام ہیں۔ معاملہ صرف یہی نہیں، بلکہ کراچی کی انتظامی تقسیم بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ شہر میں 6 اضلاع کے علاوہ دیہی کونسلز، پانچ کنٹونمنٹ بورڈ، ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور دیگر اداروں کی اپنی زمینیں اور آبادیاں ہیں، ان تمام اداروں میں شہریوں کے بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے آپس میں رابطوں یا مشترکہ حکمت عملی کا بھی فقدان ہے۔ اس بدترین صورتِ حال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلدیاتی ادارے کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنے وسائل میں اضافہ کرتے، لیکن وہ خود بھی اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے تیار نہیں اور اپنے دائرئہ کار میں آنے والے ٹیکسوں کی وصولی میں بھی مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ اس میں بھی بھاری پیمانے پر کرپشن کی شکایات عام رہتی ہیں۔ شبیر بھائی نے جو کچھ کہا،یہ اُن کی جانب سے کی جانے والی پیش گوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ شہریوں کو اس سے محفوظ رکھے اور ہمارے حکمرانوں کو خاص طور پر بلدیاتی اداروں میں تعینات اربابِ اختیار کو وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائے جس سےکچرے سے اَٹا اور اندھیروں میں ڈوبا کراچی شہر پھرسے روشنیوں کا شہر بن سکے۔
nn

حصہ