جنات :قرآن کے آئینے میں

دُنیا میں نبوت کا سلسلہ آغاز دنیاسے ہی جاری و ساری ہے اور دین الٰہی کا ہزاروں منازل طے کرکے تکمیل تک پہنچ جانا اور نوعِ انساں کو خدا کی آخری شریعت سپرد ہونا جس کے بعد اس دنیا کو وحی‘ نبوت یا کسی حاملِ نبوت کی ضرورت نہ ہو۔ ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ تھا جس نے اس عالم آب و خاک میں انقلابِ عظیم پیدا کر دیا۔ اس دین نے آکر سطح زمین کے ہزاروں پیغمبروں کے دین و ملت کو منسوخ کر دیا‘ ان کی آسمانی کتابوں کے احکام و رسوم کو بدل دیا‘ شہنشاہیت لرز گئی‘ قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ گئے‘ صومعہ و کلیسا ویران ہو گئے۔ا سی طرح فلکی اور آسمانی بادشاہی میں بھی انقلاب بپا ہو گیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبعوثِ نبوت ہونے سے ستاروں کی دنیا میں بھی ایک انقلاب آ گیا۔ جن اور شیاطین اوپر چڑھنے سے روک دیے گئے‘ ٹوٹنے والے ستاروں کی بھرمار ہو گئی۔ کاہنوں اور عاملوں کی خبر رسائی کے ذرائع مسدود ہو گئے اور ان باطل پرستوں کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ اس آسمانی انقلاب نے جنوں اور شیاطین کی محافل میں حیرت پیدا کر دی۔ سب نے کہا ’’یقینا روئے زمین پر کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہے۔‘‘
دنیا کی ہر سمت کو انہوں نے چھان ڈالا۔ اس میں کئی سال گزر گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی تبلیغ کے لیے قبائل میں دورے فرما رہے تھے اور اسی سلسلے میں عکاظ کے میلے میں تشریف لے جا رہے تھے راستے میں رات کے وقت مقام نخلہ میں قیام ہوا۔ صبح کے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقا کے ساتھ نماز میں مصروف تھے اور قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ اتفاق سے جنوں کی ایک جماعت کا وہاں سے گزر ہوا۔ اس نے جب قرآن مجید کی آیات سنیں تو یکبارگی پکار اٹھی ’’یہی وہ نورِ حق ہے جو درخشاں ستاروں میں ہمیں نظر آتا ہے۔‘‘ وہ جماعت لوٹ کر اپنی قوم میں گئی اور ان کو جا کر خاتم نبوت کے ظہور کی خوش خبری سنائی۔
جنات دراصل اللہ کی مخلوق ہے (لفظ جن کے اصل معنی کسی چیز کو اس سے پوشیدہ کرنے کے ہیں) اور عبادت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس مخلوق کو عام طور پر ان تمام چیزوں پر استعمال کیا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں اور انسان کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ اس صورت میں ملائکہ اور شیاطین دونوں شامل ہیں۔ لہٰذا تمام فرشتے جن ہیں۔ لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں۔ جن دراصل روحانیوں کی ایک قسم ہے۔ روحانی تین قسم کے ہیں:
-1 اخیار (نیک) اور یہ فرشتے ہیں۔
-2 اشرار (بد) اور یہ شیاطین ہیں۔
-3 اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں۔
قرآن میں اس کی وضاحت فرما دی گئی ہے ’’اور یہ کہ بعض فرمانبردار ہیں اور بعض نافرمان۔‘‘ ’’خواہ وہ جنات سے ہو یا انسانوں سے۔‘‘ ’’اور انہوں نے خدا اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا۔‘‘ ’’اور جنوں کو اس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا۔
اسلام سے پہلے عرب میں جنات کا بڑا تسلط تھا۔ ان کی پرستش کی جاتی تھی۔ ان کی دہائی مانگی جاتی تھی اور بت کدوں میں جو کاہن اور عامل ہوتے تھے جنوں سے ان کی دوستی ہوتی تھی اور وہ ان کو غیب کی باتیں اور خبریں بتایا کرتے تھے۔ بچوں کی پیدائش کے بعد ان کے سرہانے استرے رکھے جاتے تھے کہ ان سے جنات بھاگ جاتے ہیں۔ یہ بھی اعتقاد تھا کہ ہر شاعر کے ساتھ ایک جن ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک خیال تھا کہ وہ صورتیں بدل کر لوگوں میں پھرتے ہیں اور ان کو ستاتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور ظہور اسلام سے اعتقادات باطلہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اسلام نے صرف ایک ہی تعلیم دی۔ وحدانیت کی تعلیم۔ اسلام نے بتایا کہ جنات بھی اللہ کے حضور ایسے ہی عاجز اور درماندہ ہیں جیسے انسان وہ بھی اسی طرح اس کی مخلوق ہیں جیسے اس کی دوسری مخلوقات ہیں۔ ان میں بھی لوگ اسی طرح اچھے برے‘ نیک و بد‘ کافر و مومن‘ سعید اور شقی ہوتے ہیں جس طرح انسانوں میں ہوتے ہیں۔
جنوں میں بھی توحید و رسالت اور احکام الٰہی کے ماننے والے ہوتے ہیںجیسے عام انسان سورۃ الذریات میں جنوں کا مقصدِ پیدائش بھی وہی بیان کیا گیا ہے جو انسانوں کا ہے۔ ’’اور میں نے جن و انس کو اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘ تخلیق کے بعد ان دونوں مخلوقات کو یونہی نہیں چھوڑا گیا بلکہ ان دونوں سے قیامت میں سوال ہوگا۔ سورۃ انعام میں فرمایا گیا ’’اے جن و انس کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آئے اور وہ تم کو ہماری آیتیں پڑھ کر نہیں سناتے تھے۔ اور اس دن (قیامت) سے نہیں ڈراتے تھے۔‘‘
قرآن مجید کے بارے میں سورہ اسرائیل میں دونوں عاجز مخلوق کو یاد دلایا گیا ’’کہہ دو اگر جن و انس دونوں مل کر چاہیں کہ ایسا قرآن بنا لائیں تو ان کے لیے یہ ناممکن ہے۔‘‘
دونوں اللہ کی طاقت کے سامنے لاچار اور درماندہ ہیں سورہ رحمن میں اس کی یاد دہانی کرائی گئی ’’اے جن و انس اگر آسمان و زمین کے حدود سے نکل کر باہر جاسکتے ہیں تو نکل جائو۔ لیکن خدا کی قدرت کے بغیر تم نکل نہیں سکتے ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آسمان میں بے شمار ستاروں کے شعلے بھڑکا رکھے ہیں کہ ایک تو ان سے آسمان کی زیبائش و آرائش ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب یہ جنات اور شیاطین اپنی سرحد سے آگے بڑھ کر فرشتوں کی باتیں سننا چاہتے ہیں تو فوراً ایک چمکتا ہوا تارا (شہاب ثاقب) ٹوٹ کر ان پر گرتا ہے۔
سورۃ ملک میں فرمایا گیا ’’ہم نے آسمان زیریں کو ستاروں کے چراغوں سے مزین کیا ہے اور ان کو شیطانوں کے لیے پھینک کر مارنے کی ایک چیز بنایا ہے۔‘‘
سورہ جن میں جنات کے بارے میں بیان فرمایا گیا ’’اے پیغمبر! لوگوں سے کہہ دو کہ مجھ کو بذریعہ وحی خبر دی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کو سنا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے عجیب و غریب کتابِ الٰہی سنی جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتی ہے تو ہم اس پر ایمان لائے اور اب ہم ہرگز خدا کا کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔ خداوند تعالیٰ کی نہ تو کوئی بیوی ہے اور نہ لڑکا ہے ہم سے کچھ بے وقوف خدا پر بہت دور از عقل الزام قائم کرتے تھے ہم سمجھتے تھے کہ کوئی انسان یا جن خدا پر جھوٹ الزام قائم نہیں کرسکتا۔ انسان میں کچھ ایسے لوگ تھے تو انہی نے ان کو زیادہ گمراہ کر دیا۔ انسان بھی ہماری طرح یہ سمجھتے تھے کہ اب خدا کوئی پیغمبر نہ بھیجے گا۔ ہم نے آسمان کو خوب ٹٹولا۔ تو ہم نے پایا کہ وہ نگہبانوں سے اور ٹوٹنے والے تاروں سے بھرا ہوا ہے۔ ہم پہلے اس آسمان کی بعض نشست گاہوں میں سننے کو بیٹھ جاتے تھے اب جو سننے جاتا ہے تو اپنی تاک میں ٹوٹنے والے ستارے کو پاتا ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ اس انقلاب سے زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا جارہا ہے یا ان کا پروردگار ان کے ساتھ کوئی بھلائی کرنا چاہتا ہے۔ ہم میں اچھے ہیں اور ان کے علاوہ اور لگ بھی ہیں۔ ہم جدا جدا راستوں پر تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ ہم خدا کو اس زمین پر عاجز نہیں کرسکتے اور نہ بھاگ کر اس کے قبضے سے نکل سکتے ہیں اور اب جب ہم نے اس ہدایت کی بات کو سن لیا تو اب ہم اس پر ایمان لاتے ہیں تو جو شخص اپنے پروردگار پر ایمان لے آتا ہے تو پھر گھاٹے کا اس کو ڈر نہیں رہتا۔ ہم کچھ اطاعت گزار ہیں۔ کچھ گناہ گار ہیں تو جو اطاعت گزار ہیں انہی نے حقیقت میں ہدایت کا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے اور جو گناہ گار ہیں وہ جہنم کے ایندھن ہیں۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے کہ جنوں نے دو بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کلام مجید پڑھتے سنا۔ قرآن مجید کی دونوں سورتیں سورۂ جن‘ سورہ احقاف الگ الگ واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ پہلے واقعہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ شریک نہ تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ کسی صحابی نے ان جنوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ایک درخت نے دی اور تفصیل کی کیفیت وحی الٰہی سے معلوم ہوئی۔ یہ دونوں واقعات مکہ میں ہی پیش آئے۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ شب کو ہم لوگوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پایا۔ میدانوں اور گھاٹیوں میں ہر جگہ ڈھونڈا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ملے۔ ہم لوگوں کو طرح طرح کے خیال آنے لگے۔ سخت اضطراب اور پریشان میں رات بسر ہوئی۔ صبح ہوئی تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا کی طرف چلے سے آرہے ہیں ہم سب نے عرض کی ’’یارسول اللہ ہم نے شب کو ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈا مگر آپؐ کہیں نہ ملے۔ ہم نے سخت اضطراب اور قلق میں رات بسر کی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’رات کو جنوں کا قاصد آیا تھا میں ان کے ساتھ گیا تھا۔ میں نے ان کو قرآن کو پڑھ کر سنایا۔‘‘ اس کے بعد آپؐ ہم سب کو لے کر اس مقام پر تشریف لے گئے اور وہاں ان میں قیام اور آگے جانے کے نشانات دکھائے۔