دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

1388

قسطنطنیہ جسے آج کی دنیا استنبول کے نام سے جانتی ہے۔ سید الانبیاءؐ کی زبانِ مبارک سے اس شہر کا ذکر کئی حوالوں سے ہوا ہے اور یہ آپؐ کی پیش گوئیوں کی حقانیت کا امین ہے۔ یہ شہر آپ کی پیش گوئیوں کے مطابق 1453 میں فتح ہوا۔ لیکن اس عظیم شہر کے بارے میں باقی تمام احادیث اس بڑی جنگ ’’ملحمتہ الکبریٰ‘‘ سے متعلق ہیں جس میں یہ شہر ایک بار پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور سیدنا امام مہدی کی فتوحات میں فتح ہونے والا آخری شہر یہی ہو گا۔ یہ قسطنطنیہ جو اس وقت ’’استنبول‘‘ کہلاتا ہے اس کی ایک عمارت آیا صوفیہ گزشتہ دو ہزار سال سے تاریخ کے لاتعداد مناظر دیکھ چکی ہے۔ آیا صوفیہ 481 سال تک مسلمانوں کے سجدوں سے آباد رہی، لیکن 1931ء میں اتا ترک نے اپنی اسلام دشمنی میں پہلے اس پر تالے لگائے اور پھر 1935ء میں اسے ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔ اب دوبارہ اس کے میناروں سے اذان کی صدا بلند ہونے والی ہے۔
قسطنطنیہ کا شہر اور یہ عمارت ’’آیا صوفیہ‘‘ مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی تو سناتی ہے لیکن ساتھ ساتھ عظیم بازنطینی رومی شہنشایت کے زوال کی بھی داستان بیان کرتی ہے۔ یہ شہر ایشیا اور یورپ کے سنگھم اور آبنائے باسفورس کے کنارے آباد کیا گیا۔ اس جگہ کا انتخاب رومن بادشاہ قسطنطین نے کیا تھا۔ قسطنطین جب قدیم رومن شہنشائیت کے تخت پر بیٹھا تو پورے ملک میں خانہ جنگی عروج پر تھی اور بادشاہت بکھر چکی تھی۔ اسی دور میں عیسائی راہب رومی بادشاہوں کی عیاشی، اخلاق باختگی اور معاشرتی فحاشی سے تنگ آئے ہوئے عوام میں دن بہ دن مقبول ہوتے جارہے تھے۔ اس دور کے عیسائی راہب صلیب نہیں اٹھاتے تھے، بلکہ ان کے جھنڈوں پر سواستیکا کی طرح ایک ستارہ ہوتا تھا۔
قسطنطین کی افواج اس خانہ جنگی میں پے درپے شکست کھا رہی تھیں کہ میلان کے مقام پر اس نے یک دم یہ اعلان کیا کہ اس نے رات کو خواب میں آسمان پر عیسائیت کا نشان چمکتا ہوا دیکھا ہے، جس کی تعبیر کے نتیجے میں اس نے عیسائیت قبول کر لی اور ہتھیاروں پر برکت کے طور پر عیسائیت کا نشان بھی کندہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد جب وہ مقابل فوج پر میلوین پل (Melvin Bridge) کے مقام پر حملہ آور ہوا تو فتح یاب ہو گیا۔ اسی فتح کے بعد ہی وہ 312 عیسوی میں متحدہ روم کے تخت پر جلوہ گر ہوسکا۔ اس نے آتے ہی عیسائی راہبوں کے قتلِ عام کا حکم منسوخ کردیا اور عیسائیت کی ترویج، بائیبل کی تدوین اور مذہب کی بنیاد پر قانون سازی شروع کر دی۔ اس کی والدہ ہیلن نے ایک راہبہ کی حیثیت سے خود کو عیسائیت کے لیے وقف کر دیا، لیکن رومی سیاست کی وجہ سے اعلان نہ کرپائی تو قسطنطین نے اسے بہت سا سرمایہ اور سپاہی دے کر فلسطین بھیج دیا تاکہ وہ وہاں جا کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش پر ایک گرجا گھر (Basilica Of The Nativity) تعمیر کرے۔ یہ گرجا گھر بیت اللحم فلسطین میں آج بھی تمام عیسائی گروہوں کا مقدس ترین مقام تصور ہوتا ہے۔ قسطنطین نے قدیم روم کی بجائے آبنائے باسفورس کے کنارے اس علاقے کو 324 عیسوی میں اپنے دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا۔ یہ دراصل یونانیوں کا آباد کیا ہوا شہر، بازنطینم (Bazantium) تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر سے حکمرانی کرنے والے رومن بادشاہوں کو بازنطینی حکمران کہا جاتا ہے۔
رومن بادشاہت اب دوحصوں میں تقسیم ہو گئی اور اس کے ساتھ عیسائت بھی دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک بازنطینی جن کا دارالحکومت قسطنطنیہ تھا اور ان کا مذہب آرتھوڈوکس عیسائیت تھی، جبکہ دوسری بادشاہت کا مرکز روم تھا جس کا مذہب کیتھولک عیسائیت تھی۔ بازنطینی بادشاہت کا پہلا اہم ترین بادشاہ جسٹینین اوّل تھا۔ اس نے 532 عیسوی میں آرتھوڈوکس چرچ کے مرکز کے طور پر یہ عمارت ’’آیا صوفیہ‘‘ تعمیر کرنے کا حکم دیا جو 537 عیسوی میں مکمل ہوئی۔ جسٹینین جب تکمیل کے بعد اسے دیکھنے کے لیے اندر داخل ہوا تو اس کی شان و شوکت دیکھ کر حیران رہ گیا، جس پر اس نے غرور سے کہا ’’سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا۔‘‘ اس کا اشارہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف تھا‘ جنہوں نے بیت المقدس تعمیر کیا تھا۔ آرتھوڈوکس عیسائیت کے مرکز کے طور پر یہ عمارت تقریباً نو سو سال رہی۔
خلافتِ عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا تو شہر کی عیسائی آبادی اس عمارت میں گھس گئی۔ ان کا ایمان تھا کہ اس کے گنبد سے ایک فرشتہ اس وقت تلوار لے کر آسمان سے اترے گا جب ترک دشمن قسطنطین کے ستون تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن سلطان محمد فاتح اس ستون سے گزرتا ہوا اس مسجد کے گنبد والے ہال میں داخل ہوا اور اس نے وہاں کھڑے ہو کر رسولِ اکرمؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے، گنبد والے فرشتے کے منتظر عیسائیوں کے لیے ویسے ہی فقرے بولے جو رسولِ اکرم ؐ نے فتح مکہ کے وقت بولے تھے کہ ’’آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں، تم سب امان میں ہو۔‘‘ آیا صوفیہ میں موجود عیسائی خاندان جو اپنی موت اپنے سامنے دیکھ رہے تھے، سلطان کے اس اعلان پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ قسطنطنیہ جو کبھی عیسائی تہذیب کامرکز تھا آج وہاں صرف 0.2 فیصد عیسائی ہیں اور وہ بھی باہر سے آئے ہوئے آرمینائی آبادکار۔
سلطان محمد فاتح جمعہ کے دن فجر کے وقت آیا صوفیہ میں داخل ہوا تھا، اس نے کہا کہ چوں کہ یہ شہر ہم نے حضرت عمرؓ کے عیسائیوں سے معاہدے کے تحت بیت المقدس حاصل کرنے کی طرح حاصل نہیں کیا بلکہ‘ لڑکر فتح کیا ہے اس لیے ہم عبادت گاہوں کے ضامن ہیں‘ ہم جمعے کی نماز یہاں ادا کریں گے۔ اس دن سے ساڑھے چار سو سال تک یہ جگہ اذانوں سے گونجتی اور سجدوں سے مزین رہی۔
مصطفیٰ کمال اتا ترک نے 1931ء صرف اسلام دشمنی میں اسے بند کیا۔ وہ اسے واپس گرجا گھر بنانا چاہتا تھا‘ لیکن ایک تو وہاں عیسائی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی اور دوسرا مسلمانوں کا دبائو۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد آبادی کا بہت بڑا ایک تبادلہ ہو چکا تھا جس کے تحت دس لاکھ عیسائی یونان چلے گئے تھے اور تین لاکھ مسلمانوں کو ترکی بلا لیا گیا تھا۔ عیسائیوں کی غیر موجودگی میں آیا صوفیہ ایک بے آباد گرجا گھر ہی رہتا۔ اتاترک کی اسلام دشمنی اس قدر تھی کہ اس نے گرجا بنانے میں ناکامی کے بعد اسے مسجد کے بجائے ایک عجائب گھر بنا دیا۔ آج طیب اردگان کی حکومت 85 سال بعد دوبارہ اس ساڑھے چار سوسالہ مسلم تاریخ کو زندہ کرنے جارہی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا

دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

بہت سے سیکولر لبرل تلملائیں گے۔ شور مچے گا‘ لیکن آثار قدیمہ کے عالمی اصولوں کے مطابق تمام قدیمی عمارتیں اور نوادرات اس ملک کی ملکیت ہوتے ہیں جہاں وہ پائے جاتے ہیں اس لیے آیا صوفیہ بھی مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ آج کے دور میں ملکیت ہی عمارت کا مصرف بتاتی ہے۔ یورپ کے صرف ایک شہر لندن کے پانچ سو بند گرجا گھروں میں 423کو مسلمانوں نے خرید کر مسجد بنایا اور آج ان میں نمازیں ادا ہو رہی ہیں۔ یہ تو باہم رضامندی سے ہوا، لیکن اسپین سے جب مسلمانوں کو زبردستی نکالا گیا تو وہاں کی تین ہزار مساجد کو گرجا گھر بنا دیا گیا۔ ان کی تفصیل جسٹن کروسین (Justin Kroesen) نے اپنی کتاب (Mosques To Cathedral) میں دی ہے۔
کیا یہ سیکولر اور لبرل مافیا اسپین کی تین ہزار مساجد کو مسلمانوں کے اختیار میں دینے کے لیے آواز بلند کرے گا۔ بابری مسجد میں اذان کی آواز کے لیے جلوس نکالے گا۔ ہرگزنہیں۔ اس لیے کہ دنیا ہر سیکولر، لبرل اور لادین اصل میں مذہب دشمن نہیں ہے بلکہ اسلام دشمن ہے۔ اسے کرسمس کی رونق، ہولی کے رنگ اور دیوالی کے دیپ اچھے لگتے ہیں لیکن اسے مسلمانوں کی اذان سے لے کر بکروں کی قربانی تک ہر چیز سے نفرت ہے۔ آیا صوفیہ میں پچانوے سال بعد بلند ہونے والی اذان ایک ایسے شہر سے اللہ کی بڑائی کا اعلان ہے جو ایک ہزار سال تک یورپی تہذیب کا مرکز رہا تھا۔

حصہ