قربانی فی سبیل اللہ مصیبت زدہ عوام کے لئے

1100

قربانی کی ایک صورَت ہے اور ایک رْوح ہے، صورَت تو جانور کا ذبح کرنا ہے، اور اس کی حقیقت اِیثارِ نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور تقرب اِلی اللہ ہے یہی وجہ ہے سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسماعیل ؑ نے اطاعت وفرماں برداری کا اعلیٰ نمونہ بن کر اپنے رب کے حضور جو قربانی پیش کی تھی،اللہ کو یہ قربانی اس قدر پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے صاحب نصاب مسلمانوں پرقربانی کرنا واجب قرار دی گئی۔اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو اللہ کے حضور پیش کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت دیکھئے، ان کو یہ گوارا نہ ہوا، اِس لیے حکم دِیاکہ تم جانور کو ذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردِیا۔ اِس وَاقعے (ذبح اِسماعیل علیہ السلام) سے معلوم ہوا کہ ذبح کا اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے، چنانچہ اس سے اِنسان میں جاں سپارِی اور جاں نثارِی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اوریہی اس کی رْوح ہے تو یہ رْوح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی؟ کیونکہ قربانی کی رْوح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی رْوح مال دینا ہے، نیز صدقہ کے لیے کوئی دِن مقرر نہیں؛ مگر اس کے لیے ایک خاص دِن مقرر کیا گیا ہے اور اس کا نام بھی یوم النحر اور یوم الاضحی رکھا گیا ہے۔قربانی کرکے مسلمان اس بات کا اقرار کرتاہے میری جان و مال سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے۔قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے اس کی مشروعیت کتاب اللہ اورسنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید سورۃ الحج میں ارشاد فرماتے ہیں:۔اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیں ، ان جانوروں پر جو ہم نے ان کو عطا کیے ہیں‘‘۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لیے رقم خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی) ۔قربانی کے جانور شرعاً مقرر ہیں گائے، بھینس، بیل، اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ مذکر و مونث، دنبہ ، دنبی ان کے علاوہ کسی جانور کی قربانی چاہے وہ حلال ہودرست نہیں ، کتنا ہی زیادہ قیمتی ہو اور کھانے میں بھی جس قدر مرغوب ہو ۔گائے، بیل، بھینس، بھینسہ کی عمر کم از کم 2 سال اور اونٹ ، اونٹنی کی عمر کم از کم پانچ سال اور باقی جانوروں کی عمر کم از کم ایک سال ہونا ضروری ہے۔ اگر6ماہ کا بھیڑ یا دنبہ صحت مند ہو اور سال بھر کے دنبے کے برابر نظر ٓئے تو اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔ سیدنا علی ؓ کا ارشاد ہے کہ حضور اقدس ؐنے ہمیں حکم دیا کہ قربانی کے جانور کی آنکھ، کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان چرا ہوا ہو یا جس کے کان میں سوراخ ہو(رواہ الترمذی) قربانی پہلے دن کرنا افضل ہے ، عید کی نماز ہونے سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ہے ۔قربانی ہر عاقل و بالغ، آزاد ، مقیم ،مسلمان صاحب نصاب مرد و عورت پر واجب ہے ،صاحبِ نصاب سے مراد جس پر زکوٰۃ فرض ہو یا جس کے پاس ساڑھے 52 تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہو یا اتنی قیمت کا سونا، چاندی ، نقدی مال تجارت، ضرورت سے زاید سامان پڑا ہو۔ قربانی کا مقصد گوشت کھانا ، دکھلاوا یا ریا کاری نہیں بلکہ ایک شرعی حکم کی تعمیل اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرناہے ، تاکہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کر دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی جزبہ ابراہیمی اوراپنی رضا کے لیے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) ۔
دنیا بھر میں کروڑوں مویشی عیدالاضحٰی پر قربان کیے جاتے ہیں اورہرسال یہ تعداد بڑھ جاتی ہے۔اللہ کے ہر حکم پر عمل کرنے میں برکت ہے ،جیسے زکوٰۃ کی ادائیگی سے دولت بڑھتی ہے،صدقہ کرنے سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں دین اسلام میں ہر عمل میں انسانیت کی بھلائی موجود ہے ۔اس عظیم سنت سے جہاں لاکھوں اور غریبوں کو گوشت کھانا نصیب ہوتا ہے وہیں لاکھوں افراد اربوں روپے کے کاروبار سے منسلک ہوجاتے ہیں،کسان ، مویشی بان، مویشیوں کے بیوپاری،چھریاں ، بغدے ،لکڑی کی مڈی بنانے والے،چھریاں تیز کرنے والے،قیمہ بنانے والے ،چارہ بیچنے والے، چٹائیاں بنانے و فروخت کرنے والے اور قصائیوں کی عید الاضحی پر آمدنی میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو کروڑوں روپے محصولات میسر آتاہے۔
رواں برس چین کے شہروہان سے ایک جان لیوا وائر س کوڈ19-نے پوری دنیا کواپنی گرفت میں لیا ہوا ہے ، وائرس کے باعث تقریباً دنیا کا ہر شہر لاک ڈاؤن کا شکار رہا،عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میںاب تک 5لاکھ 90ہزار افراد کورونا سے ہلاک کوچکے ہیں، دنیا کی سپر پاور امریکا سب اس وبا کے سامنے سب زیادہ بے بس ہے ،ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی معیشت کو بھی کورونا وبا نے ایسا نقصان پہنچا یا اتنا نقصان کا امکان تو کسی عالمی جنگ کی صورت میں بھی ممکن نہیں تھا۔دوسری جانب اپنے آپ کو مہذب سمجھنے والے امیر ملکوں میں لوٹ مار کی وڈیو سے سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے،لوٹ مارکرنے والوں نے بڑے بڑے اسٹور خالی کردیے ،امریکا سمیت کئی ممالک کے عوام نے لوٹ مار سے بچنے کے لیے بڑی تعداد میں اسلحے کی خریداری کی ۔ جبکہ پاکستان غریب ملک میں کہیں لوٹ مار کی واردات رپورٹ نہیں ہوئی ، بعض لوگوںنے خدشات کے باعث ضرورت زیادہ راشن اور ادویات ضرور خریدلیں۔
جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستانیوں نے اس وبا کا بڑی جواں مردی سے مقابلہ کیا ،لاک ڈاؤن میں لاکھوں انسان غذا سے محروم ہو گئے ،ہزاروں کاروبار تباہ ہوگئے ، لیکن بحیثیت مسلمان پاکستانیوں نے مایوسی کا شکارہونے اور ہمت ہارنے کے بجائے جذبہ ایثار اور قربانی کو اپنا ہتھیار بنایا ،سب سے پہلے خاندان کے لوگوں نے اپنے بزرگوں اور بچوں کا دل جاں سے خیال کیا ان کی ہمت بندھائی ،لوگوں اپنے اپنے علاقوں کی سطح پر خوراک کی قلت کا شکار خاندانوں کی شناخت کرکے راشن پہنچایا۔پاکستان کی فلاحی تنظیموں نے اپنی ذمے داری خوب نبھائی۔ملک کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن نے لوگوں کو قطار میں کھڑا کرنے کے بجائے ہر ضرورت مند کے گھر تک راشن اور تیار کھاناپہنچایا،سبزیاں پہنچائیں ، سستی روٹی اور سالن کے ہوٹل کھول کر لوگوں کی مدد کی، آگاہی مہم ،مساجد سمیت دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں میں اسپرے کیے،الخدمت کے صحت کے تحت ملک بھر میں سرکاری و نجی اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو حفاظتی لباس فراہم کیا،قرنطینہ میں موجود ڈاکٹر و دیگر طبی عملے کو کھانا اور پانی فراہم کیا،ایک اندازے کے مطابق 85لاکھ سے زاید افراد مستفید ہوئے۔ملک بھر میں الخدمت 32ہزار کے قریب رضاکاروں اپنا چین سکون اپنے بھائیوں کے نام کردیا اس دوران کافی ڈاکٹراوررضاکار کورونا کی وجہ سے انتقال کر گئے،الخدمت کے رضاکاروں کے عظیم جذبے کو میڈیا سمیت ہر طبقے نے خوب سراہا۔
بظاہر لاک ڈاؤن ختم ہو گیا ہے۔ لیکن الخدمت کی جانب سے امدادی سرگرمیوںکے ساتھ ساتھ کورونا متاثرین کے لیے ملک کے ہر ضلع اور دراز علاقوں میں قربانی فی سبیل اللہ اہتمام کیا گیا ہے ،سنت ابراہیم پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں مسلمان قربانی کریں گے،امید ہے اہل خیر حضرات رواں برس قربانی کورونا متاثرین کے لیے وقف کردیں گے،الخدمت فاؤنڈیشن نے ملک بھر کے علاوہ شام اور روہنگیا مہاجرمسلمانوں کے لیے قربانی کا اہتمام کیا ہے ۔ عید سے قبل الخدمت کے رضا کار مستحقین کی عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فہرست مرتب کرتے ہیں اور ان کو ٹوکن کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں ،تقسیم کے دن بھی قابل ذکر طریقہ کار اپنایا جاتا ہے جس میں مستحقین کو صاف ستھرے ماحول میں گوشت کی مناسب مقدار( کم از کم 2کلو)فراہم کیا جاتا ہے ، گوشت تقسیم کے طریقہ کار میں کسی بھی قسم کی دھکم پیل یابدمذگی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوتا ۔
سندھ بھر میں پھیلے ہوئے الخدمت فائونڈیشن کے رضا کارادارے کا بڑا اثاثہ ہیں جو شب و روز انسانیت کی خدمت کرتے ہیں اور عید کے موقعے پر بھی خدمت خلق کی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہتے ہیں ۔عید الاضحی کے موقع پر چرم قربانی کا حصول بھی الخدمت کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے جس کے لیے الخدمت فائونڈیشن مرکزی سطح پر مہم چلاتی ہے ،مقامی ٹیمیں شہروں اور قصبوں میںاسٹال لگاتی ہیں، گھروں میں چرم کے حصول کے لیے شاپنگ بیگ تقسیم کیے جاتے ہیں جبکہ رضا کاروں کی ایک بڑی تعدادگھروں سے کھالیں جمع کرنے میں مصروف رہتی ہے ، ملک بھر میں الخدمت کو قربانی کی کھالوں میں 40فیصد جبکہ اندرون سندھ 22فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کہ الخدمت پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہے ،ا س چرم قربانی سے حاصل ہونے رقم سال بھر جاری رہنے والے الخدمت کے رفاہی کاموں مثلاًاسپتال، کلینک، اسکول، بیوائوں میں راشن کی تقسیم، پسماندہ علاقوں میں طلبہ میں اسٹیشنری اورا سکول بیگ کی تقسیم، دور دراز علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر خرچ کی جاتی ہے ۔ عید قرباں کی آمد آمد ہے ، اس سال بھی الخدمت نے ہزاروں مسکین اور غریب خاندانوں تک قربانی کا گوشت مناسب مقدار میں پہنچانے کا منصوبہ بنایا ہے جس کو اہل ِ خیر و صاحبِ ثروت افراد کے تعاون سے ممکن بنا یا جائے گا۔عید الاضحی ہمیں قربانی اور بھائی چارے کا درس دیتی ہے۔اس عید الاضحی پراندون سندھ کے مصیبت زدہ اور ضرورت مندخاندانوں کو خوشیوں میں اپنے ساتھ شریک رکھیں اوراپنی قربانی اور چرم قربانی الخدمت فائونڈیشن کو عطیہ کریں ۔

حصہ