غزل

211

ڈور جیون کی ترے ہاتھ میں ہو
اور پتنگوں کی طرح ڈولتے ہم
غیر ممکن ہے ہواؤں کا گذر
جب دریچے ہی نہیں کھولتے ہم
اپنی تنہائی سے وحشت ہے مگر
بے سبب خود سے نہیں بولتے ہم
ہونٹ رکھ لیتا، وہ پلکوں پہ اگر
اپنی آنکھیں ہی نہیں کھولتے ہم
وہ سمجھتا جو نگاہوں کی زباں
اپنے ہونٹوں سے نہیں بولتے ہم
گھر سے نکلے ہیں یہی سوچتے ہم
ہائے کس کس کو بھلا روکتے ہم
چھوٹ بھی جائے اگر دامنِ دل
دستِ امید نہیں چھوڑتے ہم
موڑ ہر ایک تھا، پر پیچ سحر
کیسے تنہائی کا رخ موڑتے ہم
یاد کرتے ہیں سحر کس کس کو
اور کس کس کو نہیں سوچتے ہم

حصہ