مستقبل کی ساس

458

آج میرا بیٹا آٹھ سال کا ہوا تو میں سوچنے لگی کہ تقریباً پندرہ، سولہ سال بعد مجھے گھر میں بہو لانا ہوگی۔ انہی سوچوں کے ساتھ میں اپنی جاننے والی کی بیٹی کو بہو بنا کر لانے کا خیال لیے سوگئی۔
میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ لڑکی جسے میں نے بہو بنانے کا سوچا تھا، میرے گھر میں ہاتھوں میں باریک سونے کی چوڑیاں پہنے، ہلکے گلابی رنگ کی لپ اسٹک لگائے میرے بیٹے کے کمرے میں موجود ہے اور فون پر اپنی دوست سے باتیں کررہی ہے۔ میں باتیں سننے کی کوشش کرتی ہوں تو میرے کان میں آواز آتی ہے کہ ’’میری ساس کے بارے میں کیا پوچھتی ہو، بس کیا بتاؤں وہ تو اتنی اچھی ہیں…‘‘
اور اپنے لیے ’’اچھی‘‘ کا لفظ سن کر اپنے کان مزید دروازے سے لگاتی ہوں کہ آواز صحیح سنائے دے، تو آواز آتی ہے کہ ’’میری ساس تو سب کا بہت خیال رکھنے والی خاتون ہیں۔ کسی کی بیماری کا سنیں گی تو ’’گیٹ ویل سون‘‘ کا کارڈ فوراً واٹس ایپ کردیں گی اور باقی تمام گروپ میں بھی اُس کی طبیعت کی خرابی کا بتا دیں گی۔
کسی کے ہاں بچہ ہونے کی خبر ملتے ہی پورے شہر کی یخنیوں اور سوپ کی دکانوں کے نام اور ساتھ میں لوکیشن بھی بھیج دیں گی۔ کوئی پاس ہو تو میڈل کی تصویریں بھیجیں گی اور ساتھ میں دعائیں بھی لکھ دیں گی۔
میرا سات ماہ کا بچہ جب روتا ہے تو میں انہیں پکڑا دیتی ہوں، وہ طرح طرح کی سیلفیاں لینا شروع کرتی ہیں یا ٹک ٹاک پر اَپ لوڈ کرنے والی ویڈیوز بنانا شروع کرتی ہیں اور اُدھر میرا بچہ خاموش ہوجاتا ہے۔ کوئی مسئلہ ان کے سامنے رکھو تو فوراً گوگل پر دیکھ کر مجھے اس کا حل بتادیتی ہیں۔
معلوم ہے، یوٹیوبر ہیں۔ جھٹ پٹ بننے والے کھانوں کی ترکیبیں بنانے کا اُن کا چینل ہے اور اس سے ہونے والی آمدنی سے نت نئی مشینیں خریدتی ہیں۔ پاپ کارن میکر، ڈش واشر، مکمل آٹومیٹک واشنگ مشین (جس میں کپڑے کافی حد تک استری ہوکر بھی نکلتے ہیں) سب انہی پیسوں سے خریدا ہے۔
اپنی ساس یعنی میری دادی ساس کی طبیعت کی خرابی پر اتنی پریشان ہوئیں کہ فوراً اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کیا کہ میری ساس کی طبیعت خراب ہے۔
پھر تھوڑی دیر میں ایک اور ڈالا کہ ’’طبیعت‘‘خراب ہونے کے لیے وقت نہیں دیکھتی۔ اب میری ساس کی ہی کوئی طبیعت دیکھے، میرے چھوٹے بچے کے سالانہ امتحان کے دوران خراب ہوگئی ہے اور اسی وجہ سے دیکھنے بھی نہیں جاسکتی‘‘۔ کسی نے جواب میں لکھا کہ جب بچہ اسکول جائے تب چلی جائیں، تو فوراً آگے سے لکھ دیا کہ ’’اس دوران بچے کے لیے اگلے دن کا امتحانی پرچہ گھر میں تیاری کرانے کے لیے بنانا ہوتا ہے تو کھانا بھی پکا کر رکھنا ہوتا ہے۔ ویک اینڈ پر ہی جاؤں گی، اور ویک اینڈ کے آنے سے پہلے ہی میری دادی ساس چل بسیں۔ اب تو میری ساس تدفین سے تھوڑی دیر پہلے گئیں اور جلد ہی آگئیں کہ اگلے دن میرے دوسری جماعت میں پڑھنے والے دیور کا سائنس کا امتحان تھا۔آتے ہی اسے پڑھانے بیٹھیں اور ٹھوس اشیا کی مثال سمجھاتے ہوئے کہنے لگیں: جیسے آج دادی کے گھر کی بریانی میں جو بوٹی تھی ناں وہ سولڈ تھی یعنی ٹھوس۔ ایسی تھی کہ آسانی سے ٹوٹ ہی نہیں رہی تھی۔
میں قریب ہی کھڑی تھی تو کہنے لگیں: اور بچے کو ایسی مثال دے کر پڑھانا چاہیے جو بچے کی سمجھ میں بھی آئے۔ اور پتا ہے انھیں غصہ کب آتا ہے…؟ جب ان کی اَپ لوڈ کی ہوئی ویڈیو پر اچھے کمنٹس نہ کرو، یا دیر ہوجائے لائیک کرنے پر۔
گھر کا سارا سامان وہ آن لائن آرڈر کرکے ہی منگواتی ہیں۔ مجھے بھی انھوں نے سمجھو آن لائن ہی پسند کیا تھا۔ میں ایک گروپ میں ایڈ تھی جہاں میری ساس بھی ایڈ تھیں۔ انہیں میری شیئر کی ہوئی ویڈیو پسند آئی اور پھر آن لائن ہی سارے کام ہوتے چلے گئے۔
انہیں اپنی سانس کے رکنے کی اتنی فکر نہیں ہے کہ اسے بھی کبھی رکنا ہے، لیکن بس یہ انٹرنیٹ چلنا نہ رکے۔
میرے سسر تو کہتے ہیں: جتنی فکر آپ انٹرنیٹ کی کرتی ہیں اُس کا ذرا سا بھی حصہ ہمیں دیا ہوتا تو آج ہماری حالت بھی کچھ بہتر ہوتی۔
اس پر پتا ہے کیا کہتی ہیں! کہتی ہیں کہ اس انٹرنیٹ نے تو مجھے اتنا کچھ دیا ہے کہ بس آپ کی سوچ ہے۔ اور آپ کیا جانیں اس انٹرنیٹ کی دنیا اور اس موبائل کو۔
اور سسر ہمارے کہتے ہیں کہ ہم مسجد جاتے وقت پڑوسیوں سے بھی سلام دُعا کرلیتے ہیں اور آتے جاتے سبزی، پھلوں والے اور کریانہ والے کا بھی حال چال پوچھ لیا کرتے ہیں، اسی لیے ہمارے بیمار ہونے پر دس لوگ پوچھنے بھی آگئے، اور آپ کے جاننے والوں نے تو بس برقی پیغام ہی بھیج دیا، اور دوسرے گروپس میں آپ کی علالت کی خبر کو فارورڈ کرتے گئے لیکن ایک بار بھی آنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ اس پر میری ساس پاؤں پٹختے دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہیں کہ آج کی دنیا میں لوگ اتنا بھی ہمارے لیے کرلیتے ہیں، کافی ہے۔
اور ایک بار تو میری ساس کو گنیز بک میں اپنا نام لکھوانے کا جوش چڑھا۔ پانچ نئے موبائل اور دس موبائل سم اپنے نام نکلواکر لائیں کہ دس سے زیادہ نکل نہ سکتی تھیں، اور انہیں اب کم وقت میں زیادہ پیغامات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں اور گروپس میں شیئر کرنا تھا کہ اس کا ورلڈ ریکارڈ بناؤں۔ اور اس کے لیے نہ جانے کہاں کہاں سے موبائل نمبر بھی لے لیے۔ انھوں نے یہ ریکارڈ بنانا شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میری بھابھی کا فون آیا کہ آنٹی کا فون خراب ہوگیا ہے کیا؟
میں نے کہا کیوں؟
کہنے لگیں کہ آنٹی کے واٹس ایپ پر پوسٹس کی پوسٹس آرہی ہیں اور اتنی آگئی ہیں کہ میرا موبائل ہینگ ہوگیا ہے۔ میں نے تو شرمندگی سے کہا: اچھا چلیں میں دیکھتی ہوں۔
پھر ذرا دیر میں گھر کا دروازہ بجا تو میرے جیٹھ کھڑے تھے۔ پریشانی کے عالم میں گھر کے اندر ’’امی… امی…‘‘ کہتے داخل ہوئے۔
اب امی تو ورلڈ ریکارڈ بنانے میں لگی تھیں، موبائل پر سے ہاتھ ہٹائے اور نظروں کو اوپر اٹھائے بنا ہی کہنے لگیں کہ ’’ہاں بولو کیا بات ہے؟‘‘
اب تو جیٹھ بھی خاصے خفا ہوئے اور کہنے لگے: امی میرے دوست، سسرال والے، یہاں تک کہ میرے باس کی بھی کال آگئی ہے اور سب پریشان ہوگئے ہیںکہ آپ کی پوسٹس پر پوسٹس آئی جارہی ہیں۔ میں تو انتہائی فکرمند ہوکر دفتر سے نکلا ہوں کہ کہیں آپ کا موبائل چھن تو نہیں گیا تھا کہ یہ کون آپ کے نمبر سے بھیجے جارہا ہے؟
اب ہماری ساس نے یہ ریکارڈ بنانے والی بات بتائی تو میرے جیٹھ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے: امی آپ ریکارڈ بنائیں لیکن دوسروں کے موبائل خراب نہ کریں۔ اور یہ کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا، اس پر کوئی گنیز بُک والے آپ کا نام اپنی کتاب میں نہیں لکھیں گے۔
لیکن یہ سن کر کہنے لگیں: ارے لوگ تو ہم سے جلتے ہیں، وہ ہمارا نام اس بُک میں دیکھنا ہی نہیں چاہتے اس لیے منع کررہے ہیں۔ ارے یہ پوسٹیں اتنی ہی تنگ کررہی ہیں تو ڈیلیٹ کرتے جائیں۔ اور ہاں خبردار جو کسی نے میرے نمبروں کو بلاک کیا۔
اور معلوم ہے بازار کی بھنی پیاز استعمال کرتی ہیں تو پسا ادرک، لہسن ذائقہ کمپنی کا۔ اور مشہور برانڈ کے مسالحوں سے کھانے بناتی ہیں۔ ٹماٹر پیسٹ اکٹھا خرید لاتی ہیں۔ برتن ڈِش واشر میں دھوتی ہیں اور آن لائن آرڈر ان سے منگواتی ہیں جن کے پاس ’’ڈرون‘‘ہو۔
چیزوں کو جگہ پر رکھنے کے لیے انھوں نے ایک روبوٹ لے لیا ہے۔ اور دوست ہم تو صرف پلیٹیں اور گلاس توڑتے ہیں، وہ تو ہنسے بستے گھروں کو منٹوں میں توڑ دیتی ہیں۔ ایک بار ہم باربی کیو کرنے گئے تو آگ نہیں لگ رہی تھی۔ سسر کہنے لگے: ارے بیگم کچھ کرو کہ آگ لگ جائے۔ ہنستے ہوئے کہنے لگیں: لو بھلا یہ بھی کوئی مشکل کام ہے! میرا کوئی بھی جملہ لے لیں جو آپ کی بہن کو کہتی ہوں۔‘‘
اور اس کے آگے میری سننے کی تاب نہیں تھی۔ میں سیڑھیاں اترتی جلدی جلدی اپنے کمرے میں آرہی تھی کہ گر گئی اور پھر میری آنکھ کھل گئی۔ اور مجھے ڈر لگا اپنے آپ سے کہ ہاں میں تو بالکل ہی ایسی ہی ہوتی جارہی ہوں۔ اور پھر یاد آیا کہ ایک بلڈنگ چھوڑ کر میری پڑوسن کا بچہ ہوا، میں اسے تو دیکھنے تک نہیں گئی صرف واٹس ایپ پر ہی مبارک باد دے دی تھی۔
تو چلو اسے ہی دیکھ کر آجاؤں کہ مجھے بھی تو کچھ پڑوسیوں، رشتہ داروں کو نبھانا آنا چاہیے۔آخر کو ساس بھی بننا ہے، ورنہ شاید میں ایسی ہی ساس ہوں گی۔

حصہ