زندگی کی حقیقت

1873

آج طبیعت کچھ افسردہ سی تھی…معلوم نہیں کیوں؟اور شاید اسی بوجھل طبیعت کو دیکھ کر نماز فجر کے بعد بہن زبردستی گھر سے قریب پارک میں لے آئی تھی‘ جہاں پر سورج کی کرنوں کا استقبال کہیں چڑیوں کی چہچہاہٹ تھی تو کہیں پھول اپنی مہک کو فضا میں گھولتے ہوئے اس کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ غرض چہار جانب بادِصبا صبح کی آمد کی خوشی میں موسم کو تازگی بخش رہی تھی۔
انسان جب قدرت سے اتنا قریب ہوتا ہے تو اس کی مشاہدے کی آنکھ خود بخود کھل جاتی ہے۔۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرتی زندگی، انسانی زندگی کا عکس ہوتا ہے جو بھٹکے ہوئے کے لیے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔
پھر خدا بھی کہتا ہے’’سو کیا تم غور و فکر نہیں کرتے۔‘‘
غور کرنے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں اور آج ایک عجیب پہلو پہ میری سوچیں اٹک گئیں۔
میری نگاہوں کے حصار میں سامنے کھڑا سرسبز درخت تھا جسے موسم بہار نے پھولوں سے سجا دیا تھا یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ آج کل اس باغ کی خوب صورتی انہیں رنگ برنگے پھولوں سے تھی۔
مگر میں اس خوب صورتی کو نہیں دیکھ رہی تھی۔ ایک دوسرے نظام قدرت نے میری توجہ کو اپنی قبضے میں لے رکھا تھا۔
کوے کی ایک جوڑی نہ جانے کس پریشانی میں درخت کے اطراف منڈلا رہی تھی… زور زور سے آوازیں بھی نکال رہی تھی۔ شاید دانہ تلاش کررہے ہوں!؟
کہیں ان کا بچے کو سانپ نے تو نہیں کھا لیا… یا ہوسکتا ہے کھانا نہ مل رہا ہو اور بچہ بھوکا ہو!؟ میں بھی طرح طرح کیا ندازے لگا رہی تھی۔
ابھی تھوڑا وقت ہی گزرا کہ دونوں خاموش ہوگئے… شاید دانہ مل گیا جو پریشانی لاحق تھی وہ دور ہوگئی!!
دونوں اب اپنے گھونسلے کی جانب پرواز کررہے تھے جہاںان کے بچے ان کے منتظر تھے۔ چونچ میں دانہ پھنسائے اب بچوں کو کھلا رہے تھے۔
سوچوں نے رخ بدلا… ان پرندوں کی زندگی ہی یہی ہے۔
اٹھو‘ کھانے کی تلاش کے لیے نکلو… کھاؤ‘ پھر کسی دن کسی دوسری مخلوق کی غذا بن جاؤ۔یہ بھی نظام قدرت ہی ہے ویسے۔
مگر یہاں پر ایک الجھن نے جنم لیا۔ہم انسان بھی تو یہی کرتے ہیں۔کھالے، پی لے، جی لے‘ اسی کواپنی زندگی کا منشور بنالیا ہے… ہم تو اشرف المخلوقات ہیں ہماری زندگی کا مقصد ہر گز ہرگز یہ نہیں ہوسکتا!!
پھر کیا ہے انسان کی زندگی کا مقصد؟ اس الجھن کو سلجھانے کے لیے بہن کی مدد لی۔۔تو وہ بولی ’’کھانا انسانی زندگی کا مقصد نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ انسانی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے… کہ اس کا جینا بھی اللہ کے لیے ہو اور مرنا بھی…غرض ہر عمل اس لیے ہو کہ اس کا رب راضی ہوجائے۔ جیسے قرآن میں ہے’’اللہ کی رضا کے لیے عمل کیسا ہو!؟‘‘ کتاب اللہ اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق۔ اور جو کوئی اللہ کے لیے عملِ صالح کرے گا تو وہ کامیاب ہوجائے گا۔ وہ منزل یعنی جنت پالے گا۔‘‘
الجھن رفع ہوئی… مزید سوچوں کو ذہن میں جگہ ملی اور عمل صالح بغیر ایمان کے کیوں بے فائدہ ہے۔ اس لیے کہ جو عمل خالصتاً اللہ کے لیے کیا جاتا ہے وہی قبول ہوتا ہے اور منزل تک پہنچانے کے لیے بہرہ مند ثابت ہوتا ہے۔
طبیعت اب قدرے بہتر محسوس ہورہی تھی شاید اس لیے کہ اس بھٹکے ہوئے مسافر کو منزل کا راستہ معلوم ہوگیا تھا۔ دل یہی عہد باندھ رہا تھا رب کے ساتھ کہ زندگی کے آخری لمحات تک اسی راستے پر چلتے جانا ہے… اور یہ دعا بھی لب پہ جاری تھی ’’اے اللہ ! بے شک‘ میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، عفت اورلوگوں سے بے پروائی مانگتا ہوں۔

حصہ