قصہ ایک بارش کا

489

پیاسے شہر کراچی میں گزشتہ دنوں ہونے والی طوفانی بارش جہاں قدرت کا ایک حسین شاہکار تھی وہیں حافظے میں ایسی زوردار بارش کی کوئی دوسری یادگار محفوظ نہیں ہے ،سر شام ہی آسمان پر گہرے سیلٹی بادلوں نے ڈیرے ڈال دیے تھے،کبوتروں کی ٹکڑیاں اڑانیں بھرتی اپنے ٹھکانوں کی جانب محو پرواز تھیں ،کوے کائیں کائیں کا شور مچاتے اچانک خاموش ہو گئے تھے ،جیسے ان کی چونچ پر اچانک کسی نے انگلی رکھ کر خاموش کروا دیا ہو، چیلیں محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں مکانوں کے شیڈز میں پناہ لے چکی تھیں ،درختوں کی نرم ڈالیاں دن بھر کے تھکے ماندے پرندوں کو اپنے وجود میں سمیٹے بیٹھی تھیں ، کچھ ہی دیر میں باران رحمت سے لبریز بادلوںمیں گڑ گڑاہٹ پیدا ہونا شروع ہو گئی فضا میں قدرت کی جانب سے کچھ وقوع پذیر سے قبل تیاری کا سکوت درہم برہم ہوا چاہتا تھا ،معلوم ہو رہا تھا بادلوں کی گڑگڑاہٹ پیچھے آنے والی ساون کی فوج کی آمد کا اعلان ہے… الغرض پیمانہ بھر چکا ہے ،چھلکنے کی دیر ہے ،کے مصداق جھکڑ سے چلنا شروع ہوگئے ،میں نے بچوںسے کہا تم سب اوپر چھت پر جاؤ ،اور بارش میں نہاؤ ،میں چائے اور لوازمات لے کر آتی ہوں ،چائے چولھے پر چڑھائی، ادھر چائے میں ابال آیا اور ادھر بارش کی تیز اور ترچھی بوچھاڑ کچن کے روشن دان سے اندر داخل ہو ئیں اور سب کچھ بھگو کر رکھ دیا،بمشکل چائے کو بچایا اوربحفاظت پیالیوں میں انڈیلا، ٹرے میں چائے اور لوازمات سجا کر خراماں خراماں چھت کی سیڑھیاں چڑھنے لگی ، اوپر کا شور ابھی صرف سماعتوں سے ٹکرا رہا تھا،معلوم ہو رہا تھا بچے خوشی سے شور مچا رہے ہیں ،لیکن اصل یادگار کہانی تو اب شروع ہوتی ہے کہ جب میں چھت پر پہنچی تو کیا ہوا۔
گرج چمک کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری تھا،بادلوں کی گڑ گڑاہٹ اور موسلا دھار بارش بلکہ طوفان بادو باراں کا منظر نظروں کے سامنے تھا میرے ہاتھ میں موجود ٹرے لمحہ بھر میں تیز ہوا سے لرزی اور پلیٹوں میں موجودلوازمات آن کی آن میں ہوا میں غائب ہو گئے ،میں نے جلدی سے ٹرے کمرے کے ایک کونے میں رکھی اور بچوں کی خبر لینے پہنچی تو سارے خوف سے ایک دوسرے کو پکڑے شور مچا رہے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے،پیروں سے چپلیں نکل کر دیواروں سے لگی ہو ئی تھیں,میں نے بچوں سے زور سے کہا کہ یہ طوفانی بارش ہے،فورااوپر بنے کمرے کے اندر چلو ،بچوں کو معاملے کی حساسیت کا اندازہ ہو چکا تھا ،چاروں طرف سے چیزیں اڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں،اور دھماکوں کی گونج سنائی دے رہی تھی،جو بچے باہر تھے ان کی فکر میں نیچے دیکھنے کی کوشش کی تو کچھ نظر نہیں آیا ،چند لمحات کے لیے ہوا کی شوریدہ سری میں کمی آئی تو ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے ،بچے پانی میں کشتیوں کی طرح تیرتی چپلیں لینے دوڑے کہ ہوا اور بارش کا ایک اور بھرپور امتزاج ہماری مزاج پرسی کے لئے دوبارہ لوٹ آیا تھا ،جن کرسیوں پر ہم بیٹھے ہوئے تھے وہ زور زور سے ہلنے لگیں اور لگا کہ ابھی الٹ دیں گی،گھبرا کر سب کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوئے تو ایک اور منظر دیکھ کر خوف اور دہشت سے سب کی آنکھیں پھیل گئیں کہ کرسیاں ہوا کی زور آوری کے مقابل بے بس کھلونا بن گئیں،اور 20فٹ تک زمین پر لڑھکتی ہوئی سامنے موجودواش روم کے دروازے سے زور سے جا ٹکرائیں۔ہم سب ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے تھامے کھڑے تھے کہ ایک زور دار دھماکہ سڑک پر ہوا ،تھوڑی دیر بعد ایک بچے نے آکر اطلاع دی کہ تیسری منزل کی چھت پر موجود پانی کی اضافی اسٹوریج کی1000لیٹر کی فائبر ٹنکی چھت کی تین فٹ اونچی دیوار سے اڑ کر نیچے سڑک پر جا گری ہے ،شکر ہے کسی قسم کانقصان نہیں ہوا ،سامنے بچے یہ منظر دیکھ رہے تھے ،سب نے دعائیں پڑھنا شروع کر دیں ،آج اس محاورے کا عملی مطلب پتا چلا تھا کہ چھپر پھاڑ کر برسنا، کسے کہتے ہیں ،بچوں کو بھی پتا چلا کہ طوفان باد و باراں کا عملی نمونہ کسے کہتے ہیں ،۔۔۔ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک پرندے کی تیز چیخوں کی آواز سنائی دی، دیکھا تو بجلی کی تاروں میں بری طرح پھنسی ایک چیل آزادی کی جدوجہد میں اپنے پر اور اپنا وجود زخمی کر بیٹھی تھی۔دیکھنے والے کہہ رہے تھے کہ چیل کی آزادی کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے۔پھر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ چیل کو کیسے نکالا جائے۔جب تک چیل کو خاموش رہنے کی تلقین کی جائے گی۔چیل کی چیخیں مجھے یہ صدا دیتی محسوس ہورہی تھیں۔۔کہ ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن’’خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک ‘‘ایسے میں مجھے کشمیر اور فلسطین کے وہ پنچھی بہت یاد آئے جویہود وہنود کی قید میں جکڑے آزادی کے لیے پر پھڑپھڑا رہے ہیں اور دنیا ان کی حالت غیر ہونے
تک بس اسی مشاہدے اور مباحث میں مصروف ہے…خیر ہمیں اس سے کیا واسطہ ہمارے لئے تو یہ موسم کے بدلتے نظارے اور بدلیوں کے بیچ ابھرتی، پھیلتی اور پھر کمان کی صورت چھا جانے والی قوس قزح کے رنگوں میں کھوجانا زندگی کا حاصل ہے ‘ چیل مرتی ہے تو مر جائے ،اس کاخون تو بجلی کی سیاہ تاروں کے سر ہو گا نا۔۔ہاں بس کبھی کبھی فکر یہ ستاتی ہے کہ کہیں وہ روز محشر اپنا مقدمہ بڑی عدالت میں پیش کر کے فرد جرم کے کٹہرے میں ہمیں کھڑا نہ کر دے… جب ویسا ہی سکوت ہو گا… ایسا سکوت جو کسی وقوع پذیر ہونے والے بڑے واقعے سے چند لمحات قبل ہوتا ہے۔

حصہ