۔”روک سکو تو روک لو”۔

489

بچپن میں دادی اماں کہا کرتی تھیں ’’بیٹا! روشنی کم ہوگئی ہے، لالٹین کی بتی اونچی کردو‘‘۔ یعنی لالٹین میں جلنے والے کپڑے کو ’بتی‘ کہا جاتا تھا۔ ایک بتی ٹرک کی بھی ہوتی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے عوام کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے، یعنی لارے لپے دینے اور جھوٹے وعدے اور سبز باغ دکھانے کو بھی بتی کہا جاتا ہے۔ ’اگربتی‘ کو بھی شاید جلتے شعلے کی وجہ سے بتی کہا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں سارے ملک سے لوگ کراچی میں بتیاں دیکھنے آتے تھے۔ کسی محفل میں بیٹھا شخص اگر لاجواب ہوجائے تو اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی بتی گل ہوگئی ہے۔
یہ بتیاں تو پرانی ہوئیں، آج کل ایک نئی بتی بڑے عروج پر ہے، میرے کہنے کا مطلب ہے ’کے الیکٹرک‘ کی جانب سے لگائے جانے والے میٹروں میں سیلنسر کے طور پر کام کرتی بتی اب خاصی مشہور ہوتی جارہی ہے۔ دل کی طرح دھڑکتی اس بتی کی بات ہی نرالی ہے۔ گھر میں جتنا زیادہ الیکٹرک لوڈ، اتنی تیز دھڑکن۔ اس بتی میں خاص بات یہ بھی ہے کہ گھر کی تمام لائٹیں بند کرنے کے باوجود اس کی دھڑکن نہیں رکتی۔ چاہے کسی انسان کے دل کی دھڑکن رک جائے یہ اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ یہ جتنی تیز چلے اتنا زیادہ بل بنے۔ کل رات قیوم بھائی کے میٹر کی اس بتی کو بند دیکھ کر میں نے اُن سے پوچھا: ’’قیوم بھائی! آپ کے میٹر کی لائٹ نہیں جل رہی، کیا میٹر میں کوئی خرابی ہوگئی ہے؟‘‘
’’نہیں، میٹر تو ٹھیک ہے، میں نے کنڈا لگایا ہوا ہے۔‘‘
’’کنڈا لگایا ہوا ہے! مطلب، آپ بجلی چوری کررہے ہیں!‘‘
’’ہاں بیٹا بجلی چوری کررہا ہوں اور ڈنکے کی چوٹ پر کررہا ہوں، کسی کو اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ اپنے پاس رکھے۔‘‘
’’قیوم بھائی یہ اچھی بات نہیں، زیادتی ہے۔ یعنی ایک تو چوری، اوپر سے سینہ زوری!‘‘
’’ہاں ہاں چوری بھی کروں گا اور سینہ زوری بھی کروں گا، کوئی روک سکے تو روک لے۔‘‘
’’مجھے تو اس بات پر حیرت ہورہی ہے کہ کل تک جو شخص لوگوں کو غلط کاموں سے روکتا تھا، وہ آج خود اعلانیہ بجلی چوری کررہا ہے! کم سے کم آپ سے تو یہ امید نہ تھی۔‘‘
’’تم اپنی حیرت اپنے پاس رکھو اور یہ چور چور کا بھاشن مجھے نہ دو۔ کوئی شخص بھی پیدائشی چور نہیں ہوتا۔ چور تو حکمران بناتے ہیں، جیسے مجھے بنادیا گیا ہے۔ سنو 1960ء کی دہائی میں ہمارے گھر بجلی آگئی تھی، اُس زمانے میں جو بل آتا تھا، تنخواہ کم ہونے کے باوجود میں بآسانی بھر دیا کرتا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں ہمارے گھر گیس لگ گئی تھی، اس کے واجبات بھی مسلسل ادا کرتا رہا ہوں۔ وقت گزرتا گیا، اور ہر آنے والے دن کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا، لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ بجلی اور گیس کے واجبات ادا نہ ہوئے ہوں۔ میں ہر ماہ باقاعدگی سے تمام واجبات ادا کرتا رہا ہوں، یہاں تک کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی میری پنشن سے یہ ادائیگیاں بآسانی ہوتی رہیں، مجھے کبھی بھی اس معاملے میں کوئی پریشانی نہ ہوئی۔ یعنی میری آدھی پنشن سے بل ادا ہوجاتے، جب کہ میرے بیٹے کی تنخواہ سے گھر چلتا رہا۔ لیکن اب تو صورتِ حال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ میری پوری پنشن اور بیٹے کی تنخواہ کا زیادہ تر حصہ بجلی کے بل کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ جب میری پوری پنشن اور بیٹے کی تنخواہ سے صرف بجلی کا بل ہی ادا کیا جاسکتا ہو تو ان حالات میں بچوں کے لیے دودھ اور مہینے بھر کا راشن کہاں سے لایا جائے؟ اب مٹی پھانک کر جینے سے تو رہے، ایسی صورت میں کسی کے گھر ڈاکا مارنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ سرکار کی بجلی چوری کی جائے۔ بس یہی سوچ کر کنڈا ڈال رکھا ہے۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ جس دن سے میں بجلی چوری کررہا ہوں میرے گھر کے معاشی حالات بہتر ہوگئے ہیں، اب مجھے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑتا، اب گھر میں پیسے موجود ہوتے ہیں، اس لیے مہینے کا راشن اور تمام ضروریاتِ زندگی بآسانی خرید لیتا ہوں۔ میرا تو مشورہ ہے کہ ہر شخص یہی کام کرے، اس سے نہ صرف اُس کے مالی حالات درست ہوجائیں گے بلکہ حکمرانوں کی بھی عقل ٹھکانے آجائے گی۔‘‘
’’قیوم بھائی یہ انتہائی غلط کام ہے، آپ کو پتا نہیں کہ یہ کارِ سرکار میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔ کل کو اگر چھاپہ پڑ گیا تو آپ کی بنی بنائی عزت چلی جائے گی، اور تو اور آپ پر بھاری جرمانہ بھی عائد ہوگا۔ یہ سرکاری پیسے ہوتے ہیں جنہیں ہر صورت ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ واجبات بقایاجات کی صورت میں بل میں لگتے رہیں گے جو بہت جلد لاکھوں تک پہنچ جائیں گے۔ کل اگر آپ کو مکان فروخت کرنا پڑ جاتا ہے تو کوئی خریدار بھی تب تک کسی ایسی جائداد کو نہیں خریدتا جس پر کسی محکمے کے کوئی بقایا جات ہوں، اس سے بچا نہیں جا سکتا، یہ رقم تو لازمی طور پر ادا کرنا ہی پڑے گی۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آپ اس کام کو چھوڑیں اور ماضی کی طرح بل باقاعدگی سے ادا کرتے رہیں۔‘‘
’’تم اپنے مشورے اپنے پاس رکھو، میں جو کررہا ہوں وہی بہتر ہے۔ اور جہاں تک حکومت اور محکمانہ کارروائی کی بات ہے تو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ وہی عمران خان ہے جس نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر بجلی کے بل جلائے تھے، یہ وہی وزیراعظم ہے جس نے مہنگائی کم کرنے اور لوگوں کو اُن کی دہلیز پر سہولت دینے کے دعوے کیے تھے۔ کیا ہوا؟ کچھ نہیں۔ جب ہمارے حکمران اپنے کیے ہوئے وعدوں پر پورا نہ اتریں تو ہم پر بھی فرض نہیں کہ ہم ناجائز طور پر لگائے جانے والے ٹیکسوں اور بھتے کی صورت بھیجے جانے والے بجلی کے بلوں کی ادائیگیاں کرتے پھریں۔ میں نے سوچ لیا ہے ’کے الیکٹرک‘ کا کوئی نمائندہ اگرمیرے دروازے پر آیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔‘‘
………٭٭٭………
ایک قیوم بھائی کے نہیں بلکہ سارے شہر کے لوگوں کے یہی جذبات ہیں۔ ’کے الیکٹرک‘ نے یہاں رہنے والوں کو نہ صرف نفسیاتی مریض بنادیا ہے، ان کے ذہنوں میں تشدد کا عنصر پیدا کررہی ہے، بلکہ اس ادارے کی جانب سے کی جانے والی ناجائز بلنگ لوگوں کو بجلی چوری جیسے جرائم کی جانب بھی دھکیل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی شہر میں بسنے والے ہر دوسرے شخص کی ذہنی کیفیت کچھ اسی طرح کی نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے جس شہر میں 8 سے 10، جبکہ مضافاتی علاقوں میں 12 سے 14 گھنٹے اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہو، وہاں کے عوام ذہنی مریض نہ ہوں تو پھر کیا ہوں؟ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ یہاں بسنے والے ڈپریشن کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، لیاقت آباد، اورنگی ٹائون، سرجانی ٹاؤن، نئی کراچی، فیڈرل بی ایریا، شیر شاہ اور لیاری میں ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف احتجاج روز کا معمول بن چکے ہیں۔ اس پر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ’کے الیکٹرک‘ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے کبھی فرنس آئل تو کبھی گیس کی کمی، یہاں تک کہ موسم میں بڑھتی نمی کو لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار ٹھیراتی ہے، جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ سوئی سدرن گیس کمپنی ’کے الیکٹرک‘ کو نہ صرف کیے گئے معاہدے سے زیادہ گیس فراہم کررہی ہے، بلکہ پی ایس او کی جانب سے فرنس آئل کی بھی سپلائی مستقل طور پر جاری ہے۔
یہ وہ ادارہ ہے جس نے اپنی حرکتوں سے ثابت کیا ہے کہ یہ وہ غیر سرکاری کمپنی ہے جو بجلی بنانے اور اسے صارفین تک پہنچانے کا کام محض منافع کے حصول کے لیے ہی کرتی ہے، کسی کی پریشانی سے اسے کیا غرض؟ اس کی اندھی کمائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ادارے نے 2018ء میں اپنا منافع 29 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر ظاہر کیا تھا۔ پاکستانی روپے میں اس کمپنی کا ریونیو 217 ارب روپے سے زائد، جب کہ خالص منافع 13 ارب 70 کروڑ روپے ریکارڈ کیا گیا تھا جو گزشتہ سال سے 57 فی صد زیادہ تھا۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ کراچی ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں 20 فیصد، ٹیکس ریونیو میں تقریباً 45 فیصد حصہ ادا کرتا ہے، جب کہ بڑے پیمانے کی صنعتوں سے وابستہ 60 فی صد ملازمین اسی شہر میں کام کررہے ہیں، اور ہر گزرتے سال کے ساتھ بجلی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے، یعنی2014ء میں سب سے زیادہ بجلی کی ایک ہی وقت میں طلب2929 میگاواٹ تھی، جو 2019ء میں 3530 میگاواٹ تک، جب کہ جون 2020ء کے پیک ٹائم میں بھی 3500 میگاواٹ ہی کے لگ بھگ ہے۔ اس بدترین صورتِ حال میں ضروری تو یہ تھا کہ ’کے الیکٹرک‘ اور حکومت اس بدترین صورت حال سے عوام کو نجات دلاتے، لیکن یہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔

حصہ