کے الیٹرک۔۔۔ کارپوریٹ لٹیرا

460

ویسے تو پوری کی پوری عمرانی حکومت ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے، بات اگر صرف مذاق کی ہی ہوتی تو ہنس کھیل کر برداشت کرلیتے، جیسا کہ عمران خان حکومت کے یو ٹرنز کا معاملہ ہے۔ اب اُن کے کسی بھی وعدے پر بندہ سوائے ہنسنے اور اپنا سر پیٹنے کے کچھ نہیں کرسکتا۔
عوام کے ساتھ کیے جانے والے قومی خطاب ہوں یا بین الاقوامی فورمز پر خان صاحب کے خطاب‘ کوئی نہ کوئی ایک دو بھنڈ ایسے ضرور مارتے ہیں جس سے پوری قوم ہفتوں محظوظ ہوتی ہے۔
لیکن معاملات بھنڈ اور ’’مذاقیات خان‘‘ سے بہت آگے نکل چکی ہے‘ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ویسے ویسے عمران خان صاحب کی حکومت ’’سیکورٹی رسک‘‘ بنتی جارہی ہے۔
عمرانی حکومت کے وزیر ہوا بازی کے بچکانہ بیان نے پاکستان کی قومی ائر لائن کو دنیا بھر میں بند کروادیا اور اس کے اثرات سے لاتعلق ہوکر قومی ائر لائن کا دنیا بھر میں مذاق بنوا دیا گیا اور اب عالم یہ ہے کہ ہماری ائر لائن محض لوکل سروس بن کر رہ گئی ہے۔ تمام بڑے ممالک نے پاکستانی پائیلٹوں کو ملازمت سے نکالنے میں ایک دو دن سے زیادہ کا وقت نہیں لیا۔
اس ایک بیان نے پاکستان کی معیشت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ راتوں رات پائیلٹس کے مشکوک لائسنس کے حوالے سے وفاقی وزیر کے غلام سرور خان کے اثرات آنا شروع ہو گئے اور یورپی یونین و برطانیہ کی جانب سے پی آئی اے کی پروازوں پر چھ ماہ کی پابندی لگ چکی ہے جب کہ متحدہ عرب امارات نے بھی مذکورہ صورت حال پر وضاحت کے لیے نوٹس بھیج دیا۔ حالات یہاں تک خراب ہوگئے کہ موجودہ صورت حال میں پائیلٹس کے ساتھ ساتھ انجینئرز اور دیگر ٹیکنیکل ماہرین کے لائسنس بھی مشکوک ہو چکے ہیں۔
کیا وفاقی وزیر کو بغیر کسی تحقیقاتی عمل کے ایسا بیان اسمبلی کے فلور پر دینا چاہیے تھا؟ جب کہ اب صورت حال واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ سوائے تین مشکوک لائسنس کے‘ تمام لائسنس اصلی ثابت ہوچکے ہیں، مگر عمران خان اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ اس بے وقوفی والے بیان کی کیا ضرورت تھی؟ اس نقصان کا ذمے دار کون ہے جو پاکستان کی معیشت کو دانستہ طور پر پہنچایا گیا؟
دوسری جانب پاکستان کی قومی اسٹیل مل کو بتدریج نقصان میں پہنچا کر بالآخر بند کروا دیا گیا اور دس ہزار سے زائد ملازمین کو فارغ کرنے کا عندیہ دے دیا گیا۔
اس کے علاوہ بھی بے شمار واقعات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان غیر اعلانیہ طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے، اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امیرن کہانی کی تین سالہ حکومت میں اب تک 10 ہزار ارب کا قرضہ لے چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق وفاقی حکومت کا قرض مئی کے آخر تک اوسطاً 14.2 ارب یومیہ کے حساب سے 34.5 کھرب روپے ہو گیا ہے۔ وفاقی حکومت کا 34.5 کھرب روپے کا قرض ان واجبات کے علاوہ ہے جس کے لیے حکومت بالواسطہ قرض دہندگان کے مقروض ہے‘ اس طرح مجموعی ملکی قرض مرکزی حکومت کے قرض سے کہیں زیادہ ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد مجموعی طور پر ملکی قرضوں میں 10.2 ٹریلین روپے سے زیادہ کا اضافہ کر چکی ہے‘ قرضوں میں یہ 44 فیصد کا اضافہ ملک کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔ ان سب سے بڑا فراڈ جو پاکستان کے لیے اب ناسور بن چکا ہے وہ ہے کے الیکٹرک جس کے فراڈ اس قدر بھیانک ہیں کہ پاکستان کے اور کراچی کے مستقبل سے خوف آنے لگا ہے۔
کے الیکٹرک نامی کمپنی وہ انوکھا لاڈلا ہے جس نے جب جب اور جو جو فرمائشیں کیں وہ ہر حکومت نے پوری کیں۔ آخر کے الیکٹرک کی انتظامیہ کے پاس وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ چاہے نون لیگی حکومت ہو یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کی حکومت ہو‘ سب کے سب اس کی زلف کے اسیر ہوئے بنا نہیں رہ پاتے؟
کراچی کے عوام ’’لوڈ مینجمنٹ‘‘ کے نام پر آج بھی سخت گرمی اور حبس کے موسم میں10سے 12گھنٹے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں۔ گورنر سندھ‘ وفاقی وزرا اور حکومتی ارکان پارلیمنٹ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے دعوے اور وعدے کر رہے ہیں جو مسلسل جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔

مراعات کی بارش

بدترین پرائیوٹائزیشن کے نتیجے میں قومی خزانے سے اربوں روپے کی لوٹ ما ر کی گئی‘ 15سال گزر جانے کے بعد بھی لوڈ شیڈنگ‘ مہنگی بجلی اور اوور بلنگ کے سوا کراچی کے شہریوں کو کچھ نہیں ملا۔
ایک اور بھیانک مذاق یہ کہ ’کے الیکٹرک‘ ایک پرائیویٹ ادارہ ہونے کے باوجود حکومت اسے90 ارب سالانہ سبسڈی فراہم کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت اپنی جیب سے نہیں بلکہ کراچی کے شہریوں کی جیب سے وصول کرکے ’کے الیکٹرک‘ کو دے رہی ہے۔ اور اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی کہ ’ابراج گروپ‘ کے سی ای او عارف نقوی عمران خان کے وہ ذاتی دوست ہیں جنہوں نے PTI کو الیکشن کے موقع پر فنڈزفراہم کیے۔
آج بھی شہر کے بیشتر علاقوں میں لوڈ مینجمنٹ کے نام پر اعلانیہ وغیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ جاری ہے‘ گلشن اقبال، ملیر، شاہ فیصل کالونی، گلستان جوہر، نیوکراچی، اورنگی ٹائون ، لیاری سمیت کئی علاقوں سے لوڈشیڈنگ کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔
اوور بلنگ، ہر ماہ اضافی بل اور حالیہ تین روپے فی یونٹ کا اضافہ اور ڈویلپمنٹ چارجز کے نام پر ہر ماہ اربوں روپے کی وصولی۔ یہ سب ہورہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کراچی میں تحریک انصاف‘ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کی ملی بھگت سے ہورہا ہے۔
آخر کراچی والوں کے ساتھ کیا گیم کھیلا جارہا ہے؟ اس راز سے بھی بلآخر پردہ ا ٹھ چکا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا بھلا ہو کہ اُن کی مستقل محنت اور ان کی ٹیم کی تحقیقاتی رپورٹنگ کا‘ کہ جس کی بہ دولت بہت بڑے فراڈ سے آگاہی حاصل ہوئی۔
آج سے پہلے کراچی کے شہریوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ’کے الیکٹرک‘ سالانہ اربوں روپے ’ڈویلپمنٹ چارجز‘ جو کہ وہ اپنے بل میں کراچی کے شہریوں سے بھتے کی صورت میں وصول کرتا ہے اور اس میں سے سندھ حکومت کو دس ارب روپے ’منہ بند‘ رکھنے کے لیے ادا کرتا ہے۔ اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ حکومت کے الیکٹرک کے خلاف کیوں بات نہیں کرتی۔
کوئی ’کے الیکٹرک‘ سے پوچھے کہ کون سی ڈویلپمنٹ کر رہے ہیں؟ آج سے پندرہ سال پہلے کراچی کے پاس جب یہ ادارہ تھا‘ اُس وقت آج سے زیادہ بجلی پیدا ہورہی تھی اور پندرہ سال ہوگئے اس کو نجی سیکٹر اور ابراج گروپ کے حوالے کیے ہوئے‘ مگر آج پہلے سے بھی کم بجلی پیدا کی جارہی ہے۔
اضافی گیس ، سبسڈی‘ فرنس آئل اور واپڈا گرڈ سے 900 میگا واٹ کی صورت میں مراعات کیوں فراہم کی جارہی ہیںجبکہ کے الیکٹرک ایک نجی ادارہ ہے‘ اگر سبسڈی کا حق بنتا ہے تو وہ اسٹیل مل تھی‘ کہ جسے قومی ادارہ ہونے کی وجہ سے سبسڈی دی جانی چاہیے تھی مگر ایسا کرنے کے بجائے ایک ایسی کمپنی پر جو کہ آف شور رجسرڈ کمپنی ہے‘ مراعات کی بارش برسائی کی جارہی ہے۔ اور تو اور اس کمپنی کے بانی سی ای او عارف نقوی کوجو کہ عمران خان کے ذاتی دوست اور ان کی مالیاتی کمیٹی کے اہم رکن ہیں‘ مزید نوازنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
یہ بات تو اب پرانی ہوچکی ہے کہ عارف نقوی دنیا بھر میں ’ڈکلیرڈ مجرم‘ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے‘ جو لندن اور دبئی کی اعلیٰ عدالتوں سے سزا یافتہ ہے‘ اُس کی کمپنی کو کیوں اتنا نوازا گیا؟ حد تو یہ ہے کہ جب کراچی کے عوام ایک بڑے احتجاج کے موڈ میں دکھائی دیے تو فوری طور پر وفاقی وزیر اسد عمر اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کے الیکٹرک کو بچانے پہنچ گئے۔ اسد عمر نے کے الیکٹرک کے سی ای او کے ساتھ گورنر ہاؤس میں ہنگامی پریس کانفرنس میں کراچی کے شہریوں کو دھوکہ دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’کل سے کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔‘‘حکومتی اراکین نے اس پر خوب بغلیں بجائیں اور واہ واہ کرتے ہوئے گورنر ہا ؤس سے باہر نکل آئے۔
مگر جماعت اسلامی کی قیادت اور حافظ نعیم الرحمن نے اس ’’ٹوپی ڈرامے‘‘ کو سمجھ لیا اور شارع فیصل پر ہونے والے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کو تین دن کا وقت دیا۔
جب لوڈ ؎شیڈنگ ختم ہونے کے بجائے دگنی ہو گئی تو کے الیکٹرک نے پے در پے جھوٹ بولنا شروع کیے۔

ایک ہفتے میں تین جھوٹ

٭ پہلا جھوٹ : پی ایس او نے فیول فراہم نہیں کیا اس لیے لوڈ شیڈنگ کرنی پڑ رہی ہے۔
٭ دوسرا جھوٹ: سوئی گیس کی قلت ہے‘ اس لیے لوڈ شیڈنگ کرنی پڑ رہی ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سو ئی گیس حکام کے مطابق: کے الیکٹرک کو بجلی کی جنریشن کے لیے متبادل فیول کے طور پر گیس کی مقدار190 MMCFD سے بڑھا کرMMCFD -290 کر دی گئی ، مگر اس کے باوجود کراچی میں بدستور لوڈ مینجمنٹ کے نام پر طویل دوراینے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے‘ یہی اضافی گیس پہلے 190MMCFD دی جارہی تھی ، مگر اب اس میں بھی اضافہ کیا گیا –
٭ تیسرا جھوٹ:بن قاسم تھرمل اسٹیشن کا ایک پلانٹ ایمرجنسی ٹرپ میں بند ہوگیا۔ (کے الیکٹرک کی جانب سے اب130میگا واٹ کے بن قاسم پاور پلانٹ میں خرابی کے باعث بند ہونے کا بہانہ بنایا گیا )- اس لیے لوڈ شیڈنگ کرنی پڑ رہی ہے۔
پہلے جھوٹ کا پول پی ایس او نے وضاحت جاری کر کے کھول دیا۔ پی ایس او کا آفیشل بیان دیکھیں‘ جو ویب سائٹ اور اخبارات کو جاری کیا گیا۔
پاکستان اسٹیٹ آئل کے مطابق کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود بھی کے الیکٹرک نے اپنی فیول کی ضروریات کے بارے میں بروقت آگاہ نہیں کیا۔ جبکہ فیول سپلائی معاہدے کے مطابق کم از کم 30 دن پہلے آئل کی مطلوبہ اسٹاک کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ کرنا لازمی ہوتا ہے۔ مگر ایسا دانستہ طور پر نہیں کیا گیا۔
اس بات کا اعتراف کے الیکٹرک کے موجودہ سی ای او مونس علوی نے نیپرا سماعت کے دوران کیا کہ کے الیکٹرک کے پاس ایک لاکھ بیس ہزار میٹرک ٹن آئل ذخیرہ کرنے کی سہولت موجود ہے‘ جو ایک ماہ تک آئل پر چلنے والے تمام پلانٹس کی آئل کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔
ظاہر ہے اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتی کہ کے الیکٹرک نے اخراجات بچانے اور زیادہ منافع کمانے کی خاطر جان بوجھ کر آئل کا ذخیرہ نہیں کیا اور آئل کی کمی کا بہانہ بنا کر شہر میں بدترین لوڈشیڈنگ شروع کر دی۔
اب تیسرے جھوٹ کا پول نیپرا کے اہل کاروں نے کھولا ‘ جو تحقیقات کے لیے آئے تھے‘ جب انہوں نے بن قاسم پلانٹ کا دورہ کیا‘ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت پلانٹ چالو حالت میں دیکھا گیا۔
ا ب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت ’کے الیکٹرک‘ کے ہر جھوٹ کے جواب میں کیوں منہ میں لڈو لے کر بیٹھی ہوئی ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ ’کے الیکٹرک‘ دراصل ایک کارپوریٹ لٹیرا ہے جس نے کراچی کے شہریوں کی جیب سے پیسہ اور جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کی قسم کھائی ہوئی ہے ۔

حصہ