فحاشی کی روک تھام :اسلامی ریاست کا اہم قدم

مسلم معاشرہ پاکیزہ، اور خرابیوں سے پاک ہوتا ہے، اس لیے اس معاشرے میں تمام معاملات کی بنیاد حسنِِ ظن پر ہونی چاہیے۔ سوئے ظن صرف اس حالت میں جائز ہے جب کہ اس کے لیے کوئی واضح ثبوت اور بنیاد ہو۔ ہر شخص کو بے گناہ تصور کیا جانا چاہیے جب تک کہ اس کے مجرم ہونے یا اس پر جرم کا شبہ کرنے کا کوئی معقول اور واضح ثبوت نہ ہو، اور ہر مسلمان کو اُس وقت تک سچا سمجھنا چاہیے جب تک اُس کی بے اعتباری کی کوئی دلیل نہ ہو۔ جو لوگ مسلم معاشرے میں بداخلاقی پھیلانے اور امتِ مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو سزا دینا لازمی ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ بداخلاقی کی ترغیب دینے والے، اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، بدکاری کے اڈے چلانے والوں اور جنسی جذبات کو ابھارنے والے ہر عمل پر سزا ہونی چاہیے۔ وہ کلب یا ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ مجرم ہیں اور نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی انہیں سخت سزا ملنی چاہیے۔ لہٰذا اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعتِ فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سدِباب کرے۔ اس کے قانون تعزیراتِ میں ان تمام افعال کو قابلِ دست اندازی پولیس ہونا چاہیے جن کو قرآن میں جرائم کہا گیا ہے، اور ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔
فحاشی اور بدکاری کے سدباب کے لیے سب سے اہم چیز عورت کا باپردہ ہونا ہے۔ اجنبی عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی دید سے اور آزادانہ میل جول سے روکا جائے۔ عورتوں کو محرموں کے سوا غیر محرموں کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ آنے سے منع کیا جائے۔ قحبہ گری کا سختی سے انسداد کیا جائے۔ مردوں اور عورتوں کو مجرد نہ رہنے دیا۔ شریعتِ الٰہی کسی برائی کو محض حرام کردینے یا جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ وہ ان اسباب کا سدباب کرنے کی کوشش کرتی ہے جو کسی شخص کو اس برائی میں مبتلا ہونے پر اکساتے ہیں، یعنی شریعت جرم کے ساتھ اسبابِ جرم، محرکاتِ جرم، وسائلِ جرم اور ذرائع جرائم پر بھی پابندی لگاتی ہے۔
شریعتِ الٰہی صرف محتسب نہیں ہے بلکہ وہ ہمدرد، مصلح اور مددگار بھی ہے، اس لیے وہ تمام تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو برائیوں سے بچنے میں مدد کی جائے۔ اس لیے کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے صاحبِ خانہ کی اجازت لینا ضروری ہے۔ اس کے لیے کسی دوسرے کے گھر میں جھانکنا، دوسرے کا خط بغیر اجازت پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط پر نظر دوڑائی، وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے۔
قرآن کی سورہ نور میں جب اجازت طلب کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے ناواقف تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آیا اور دروازے سے پکارنے لگا ’’کیا میں گھس آئوں؟‘‘ آپؐ نے اپنی لونڈی سے فرمایا ’’یہ شخص اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا، ذرا اُٹھ کر اسے بتا کہ یوں کہنا چاہیے ’’السلام علیکم أ ادخل؟‘‘ (ابو دائود) جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے مرحوم والد کے قرضوں کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپؐ نے پوچھا ’’کون ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں ہوں‘‘۔ آپؐ نے دو، تین مرتبہ دریافت فرمایا۔ میں نے کہا ’’میں ہوں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’میں ہوں؟ یعنی اس ’میں ہوں‘ سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو؟ اجازت لینے کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ آدمی اپنا نام بتا کر اجازت طلب کرے۔‘‘ اجازت لینے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کردی اور فرمایا کہ ’’اگر تیسری مرتبہ پکارنے پر بھی جواب نہ آئے تو واپس آجائو‘‘ (بخاری، مسلم، ابو دائود)۔ یہی آپؐ کا اپنا طریقہ بھی تھا۔ ایک مرتبہ آپؐ حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاں گئے اور السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہہ کر دو دفعہ اجازت طلب کی، مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپؐ واپس ہوگئے۔ حضرت سعدؓ اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپؐ کی آواز سن رہا تھا مگر میرا دل چاہتا تھا کہ آپؐ کی زبان سے میرے لیے جتنی بار سلام و رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے، اس لیے میں آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا‘‘ (ابودائود، احمد)۔ یہ تین مرتبہ پکارنا پے درپے نہ ہونا چاہیے، بلکہ ذرا ٹھیر ٹھیر کر پکارنا چاہیے، تاکہ صاحبِ خانہ کو اگر کوئی مشغولیت ہو تو اُسے فارغ ہونے کا موقع مل جائے۔ اگر تین دفعہ اجازت لینے سے اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانا چاہیے۔
فحاشی کی روک تھام کے لیے ’’غضِ بصر‘‘ کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹا لی جائے۔ مردوں کا عورتوںکو نگاہ بھر کر دیکھنا یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا یا فحش مناظر کو پوری دل چسپی اور دل جمعی سے دیکھنا، یا نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا۔ یہ مفہوم ’’نظر بچانے‘‘ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹا لی جائے۔
قرآن کے اس حکم کی تشریح سنت میں اس طرح کی گئی ہے:۔
٭…آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں کشش دیکھی اور پھر وہاں نظر جما دی۔ آپؐ نے اس طرح کی دیدہ بازی کو بدکاری سے تعبیر کیا ہے۔
عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک ہے، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا اس کے بدلے اُسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔‘‘ ابو امامہؓ کی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حُسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کردیتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)۔
٭… بعض اوقات چہرے پر پردہ ہونے کے باوجود ایسا موقع پیش آجاتا ہے جب مرد اور عورت کا آمنا سامنا ہوجاتا ہے۔ محض غضِ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو متلزم ہے۔ سورہ احزاب میں احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے پر رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا۔ ابودائود میں کتاب الجہاد کے باب میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُمِ خلاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہوگیا تھا، وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ بعض صحابہؓ نے حیرت کے ساتھ کہا ’’اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے؟‘‘ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا اور تم اس اطمینان کے ساتھ باپردہ آئی ہو؟ جواب میں اُمِ خلاد بولیں ’’میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھو دی۔‘‘
٭… احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتین مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتیں۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالتِ احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے، جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتیں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں، اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں۔ (ابودائود)۔
٭… غضِ بصر سے اس صورت میں استثنیٰ ہے جب کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو، مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو، اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے۔
٭… غضِ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ آپؐ نے فرمایا ’’کوئی مردکسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے، اور کوئی عورت کسی عورت کا ستر نہ دیکھے‘‘ (احمد، مسلم، ابودائو، ترمذی)۔ حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ’’کسی زندہ یا مُردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو‘‘ (ابو دائود، ابن ماجہ)۔ آپؐ نے فرمایا ’’مرد کا ستر اس کی ناف سے گھٹنے تک ہے۔‘‘
٭… عورتوں کے لیے بھی غضِ بصر کے وہی احکامات ہیں جو مردوں کے لیے ہیں، یعنی انہیں قصداً مردوں کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت میمونہؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، اتنے میں حضرت ابن اُمِ مکتوم آگئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا ’’ان سے پردہ کرو‘‘۔ بیویوں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ کیا یہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ ہمیں دیکھیں گے، نہ پہچانیں گے‘‘۔ فرمایا ’’کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں؟‘‘ حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں ’’یہ واقعہ اُس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آچکا تھا۔‘‘ (احمد، ابودائود، ترمذی)۔
٭… سورہ نور اور سورہ احزاب میں مسلمان عورتوں کے لیے پردے کے واضح احکام دیے گئے ہیں۔ سورہ نور کی اکتیسویں آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوا ہے: ’’اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں، بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے۔‘‘
٭… اسلام ایک پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کے لیے پاک دامن عورتوں اور پاک دامن مردوں کی سیرت کرنا چاہتا ہے۔ اظہارِ زینت کی آزادی صرف محرموں کے سامنے ہے۔ جن رشتے داروں سے ابدی حرمت کا رشتہ نہ ہو وہ اجنبیوں کے حکم میں شامل ہیں اور اُن سے عورتوں کا ویسا ہی مکمل پردہ کرنا ضروری ہے جیسا غیروں سے کیا جاتا ہے۔ اور جن رشتوں میں شبہ ہو وہاں محرم رشتہ داروں سے بھی احتیاطاً پردہ کرنا چاہیے۔ اسی آیت (سورہ نور کی اکتیسویں آیت) میں میل جول کی عورتوں سے پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ غیر مسلم عورتیں، خواہ ذمی ہوں یا کسی اور قسم کی، اُن سے مسلمان عورتوں کو اسی طرح پردہ کرنا چاہیے جس طرح مردوں سے کیا جاتا ہے۔
٭… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی جائز نہیں رکھا کہ کسی مرد کا ہاتھ کسی غیر محرم کے جسم کو لگے۔ چنانچہ آپؐ مردوں سے بیعت تو ہاتھ میں ہاتھ لے کر کرتے لیکن عورتوں سے بیعت لینے کا یہ طریقہ آپؐ نے کبھی اختیار نہیں فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی کسی غیر عورت کے جسم کو نہیں لگا، آپؐ عورت سے صرف زبانی عہد لیتے تھے، اور جب وہ عہد کرچکتی تھی تو فرماتے ’’جائو بس تمہاری بیعت ہوگئی۔‘‘ (ابو دائود)۔
٭… آپؐ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’کوئی مرد کسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔ اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک اُس کا کوئی محرم اُس کے ساتھ نہ ہو۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’کسی مومن عورت کے لیے، جو اللہ اور یومِ آخرت کو مانتی ہو، محرم کے بغیر سفر حلال نہیں ہے۔‘‘
ان واضح احکامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں مردوں اور عورتوں کی مخلوط محفلوں کی کس قدر ممانعت اور مخالفت آئی ہے۔ جو دین خدا کے گھر میں عبادت کے موقع پر دونوں اصناف کا خلط ملط ہونا پسند نہیں کرتا وہ کالج، دفتر، کلب اور جلسوں میں کیسے جائز کر سکتا ہے! ان احکامات کے خلاف مغربی معاشرے کو اپناکر منافقت کی زندگی بسر کرنا آخرت کی تباہی ہے، اور اس تباہی کے مختصر نمونے زلزلہ، سیلاب اچانک نمودار ہوکر خدا کی یاد دلاتے ہیں کہ شاید ابھی توبہ کا وقت ملّتِ اسلامیہ پر نہیں آیا، مگر جب وہ وقت اچانک آجائے گا تو توبہ کی مہلت بھی نصیب نہیں ہوگی۔