کیسا بندھن ہے یہ؟۔

448

گھر کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ ساس کی کراری آواز کانوں سے ٹکرائی’’لو آگئی مہارانی… رات کے آٹھ بجے تک کون سا دفتر کھلا رہتا ہے…؟ ہم تو چوکیدار ہیں ناں، سارا دن گھر کی چوکیداری کریں، اور یہ سیر سپاٹے کرے، دنیا سے نرالی بہو ہے بھئی ہماری تو…‘‘
نوشین کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا… وہ ایک بینک آفیسر تھی، آج کل ہیڈ آفس سے آڈیٹر آئے ہوئے تھے اسی لیے تمام ذمے دار ملازمین کو دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ صبر کا گھونٹ بھرا اور ساس کو سلام کرکے کہا ’’امی جان! آپ کو بتایا تو تھا کہ آج کل آڈیٹر آئے ہوئے ہیں، اس لیے دیر ہوجائے گی… میرے ساتھ میری دوسری کولیگ لڑکیاں بھی کام کے لیے رکتی ہیں۔‘‘
نوشین نے ساس کو یاد دلایا، مگر انہوں نے نوشین کی بات کو سنی ان سنی کردیا اور سلام کا جواب دینے کے بجائے ایک اور دکھڑا سنا ڈالا… ’’یہ جو تم نے اپنی بیٹی کے لیے آیا رکھی ہے اس کو تمیز سکھائو… ہر بات کا الٹا جواب دیتی ہے… آئندہ اس نے میرے سامنے سوال جواب کیا تو منہ توڑ دوں گی اس بدبخت عورت کا‘‘۔ انہوں نے بہت غصے سے کہا۔
’’لگتا ہے آج پھر آیا بے چاری ان کے زیر عتاب آگئی…‘‘ نوشین نے بیٹی کی پیدائش کے چند ماہ بعد جب نوکری پر جانا شروع کیا تو ساس نے حکم جاری کردیا کہ اپنی بچی کو ساتھ لے جائو یا ماں کے گھر چھوڑتی جاؤ، میری بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنی جان نہیں کہ سارا دن بچے کھلائوں۔ یہ الگ بات ہے کہ جب بھی وہ بیٹی کے گھر رہنے جاتیں تو بوڑھی ہڈیاں کسی طلسم سے جوان ہوجاتیں، اور پھر سارا دن وہاں دوڑ دوڑ کر کام کرتی نہ تھکتیں۔
بڑی مشکل سے آیا کا انتظام ہوا۔ وہ ایک چپ چاپ رہنے والی بیوہ عورت تھی۔ مگر نوشین کی ساس تو راہ چلتی ہوائوں کو بھی بخشنے والی نہ تھیں۔ چند دن بھی برداشت نہ کر پائیں اور بات بے بات اس بے چاری پر اپنا غصہ نکالتی رہتیں۔
’’جی امی جان سمجھا دوں گی…آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ نوشین نے ساس کے بگڑے تیور دیکھ کر مصالحانہ انداز میں جواب دیا۔
’’اے واہ بھئی، یہ بھی خوب کہی تم نے… سارا دن گھر میں ایک بدتمیز نوکرانی دندناتی رہے… اندر باہر جہاں دل چاہے منہ اٹھائے ٹپک جائے اور تم کہہ رہی ہو کہ پریشان نہ ہوں۔‘‘ ساس جی تابڑ توڑ حملے کرتی جا رہی تھیں۔
نوشین تمام دن دفتر میں سر کھپا کر اور شدید گرمی میں ٹریفک جام میں پھنس کر اب مزید کسی تکلیف دہ جرح سے بچنا چاہتی تھی… مگر اس کی ساس تو بالکل تازہ دَم ہوکر اپنے ترکش کے تیر چلائے جارہی تھیں۔
’’اچھا میں آپ کے لیے چائے بنا لائوں امی جان‘‘۔ نوشین نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی ایک اور کوشش کر ڈالی۔
’’تمہیں مبارک تمہاری بے وقت کی چائے…خود ہی پی لو… ہمارے وقتوں میں تو آٹھ بجے رات کا کھانا کھا لیا جاتا تھا‘‘۔ ساس نے ٹکا سا جواب دیا۔
ابھی ’’استقبالیہ تقریب‘‘ جاری تھی کہ کمرے سے ننھی رمشا کے رونے کی آواز آئی۔ آیا خالہ شام کو جانے سے پہلے رمشا کو نہلا کر فیڈر دے کر سُلا کر جاتی تھیں۔ اس کی نیند پوری ہوچکی تھی۔ نوشین نے موقع غنیمت جانا اور کمرے کی جانب تیزی سے لپکی۔
روتی بلکتی بچی کو سینے سے لگاتے ہی نوشین کے بے قرار وجود کو چین آگیا اور نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ ماضی کے دریچے ایک ایک کرکے وا ہوتے چلے گئے۔
نوشین کی شادی کو بہ مشکل ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ اس مختصر سے وقت نے اسے بے شمار تلخ سبق سکھا دیے تھے۔ ماسٹرز تک تعلیم حاصل کرنے اور ایک خوش حال گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اس کی واجبی شکل صورت اور قدرے بھاری جسامت نے اس کی شادی کے مسئلے کو پیچیدہ بنا رکھا تھا۔ اَن گنت لڑکے والے چائے ناشتے سے لطف اندوز ہوکر جو جاتے تو پلٹ کے نہ آتے۔
’’معقول بَر‘‘ کے انتظار میں اس کی ریشمی زلفوں میں چاندی کے تار جھلکنے لگے تھے۔ بالآخر ’’آسمان پر بنا رشتہ‘‘ اسے مل ہی گیا۔
یوسف نیازی ایک درمیانی عمر کے خشک مزاج شخص تھے۔ کسی چھوٹی سی کمپنی میں چیف اکائونٹنٹ تھے۔ بیوہ ماں اور دو عدد بھائیوں کے واحد کفیل۔ اکلوتی بڑی بہن کی شادی کو 12 سال ہوچکے تھے۔
انہیں ’’کماؤ دلہن‘‘ کی تلاش تھی جو بیوی اور بہو کے فرائض بھی نبھائے اور گھر کے خرچے کا بوجھ بھی اٹھائے… ان کی شادی ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت ہوئی تھی۔ مہینے کے آغاز میں ہی اس کے ’’سرتاج‘‘ بھتے کی طرح اس کی تنخواہ وصول کرتے، کیوں کہ شادی سے پہلے نوشین کو وہ بتا چکے تھے کہ تمہاری معمولی شکل صورت کے باوجود تم سے شادی صرف اپنی معاشی مشکلات کی وجہ سے کررہا ہوں۔
نوشین اپنے والدین کی پریشانیوں سے بھی اچھی طرح واقف تھی، انہیں نوشین کے علاوہ تیزی سے بڑھتی عمر کی اپنی دو اور بیٹیوںکو بھی بیاہنا تھا، اسی لیے نوشین سب کچھ برداشت کرکے اپنے گھر کو بسائے رکھنا چاہتی تھی، اور یہی کمزوری اس کی ساس اور شوہر کو شیر بنارہی تھی۔
ننھی رمشا ماں کے لمس کو محسوس کرکے اس کی گود میں ہلکورے لے رہی تھی۔ اتنے میں ساس کی گرج دار آواز آئی ’’مہارانی صاحبہ آرام ختم ہوگیا ہو تو رات کے کھانے کے لیے چاول چڑھا دو… ہمارا نہیں تو کم از کم اپنے شوہر کا ہی احساس کرو… بے چارہ صبح سے بھوکا پیاسا، تھکا ہارا آتا ہے، کیسی عورت ہو، تمہیں اپنے آرام کی پڑی ہے میاں کی کوئی فکر نہیں۔‘‘
نوشین بھی تھک کر آئی تھی، پَر وہ جتنی تھکی ماندی ہو اُسے اپنے گھر کی ذمہ داریاں بھی نبھانی ہیں، کیوں کہ اس کے لیے کوئی رعایت نہیں۔
نوشین ’’ابھی آئی امی‘‘ کہہ کر بیٹی کو گود میں اٹھائے تھکے قدموں سے باورچی خانے کی طرف چل دی۔
ہمارے معاشرے میں عورت کی قدر ومنزلت، اس کی قربانیوں کا اعتراف کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ کاش کہ ہم اس روش کو بدل لیں۔ نہ جانے کتنی ہی نوشین جیسی خواتین نوکری کے ساتھ ساتھ گھر، گرہستی کے فرائض بھی نبھاتی ہیں اور اپنی زندگی خاندان کے استحکام کی خاطر وقف کردیتی ہیں، لیکن پھر بھی انہیں وہ عزت اور توقیر نہیں ملتی جس کی وہ حق دار ہیں۔

حصہ