گٹھری

205

۔’’بابا! مجھے چوڑیاں پہننی ہیں، نیا جوڑا لینا ہے، نئے جوتے پہننے ہیں‘‘۔ ننھی گڑیا کی آواز اب بھی اس کے کان میں گونج رہی تھی، چاہتا تو وہ بھی یہی تھا کہ اپنی گڑیا کی ہر خواہش اُس کے لبوں پر آنے سے پہلے ہی پوری کردے، مگر ستم یہ کہ نہ تو حالات اجازت دیتے اور نہ ہی اس کی روز بہ روز گرتی صحت۔
چھوٹا موٹا مزدور ہونے کے ناتے اسے کام بھی روز روز نہ مل پاتا۔ کتنی ہی بار ایسا ہوتا کہ گھر کا چولہا بھی نہ جل پاتا۔ ایسے میں ننھی گڑیا کی فرمائش پوری کرنا اس کے لیے بہت بڑا پہاڑ سر کرنے کے مترادف ہوتا جارہا تھا، اور اب تو صورتِ حال بھی برسات کی تھی۔ ہر جگہ پانی، کیچڑ، ندی، نالے… اور دوسرے اُسے نظر بھی کم آتا تھا۔ ایسے میں کام ملنا مزید مشکل ہوتا جارہا تھا، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔
’’صاحب جی! کوئی کام دے دیں، گھر پر بہت تنگی ہے جی‘‘۔ اس نے بڑی ہی لجاجت سے اپنی چھوٹی سی گٹھری کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
صاحب جی نے اوپر سے نیچے تک دیکھا ’’تم تو خود بیمار لگتے ہو، تم بھلا کیا کام کرو گے!‘‘
’’لو جی صاحب جی، بھلا کیا بیمار آدمی کا پیٹ نہیں ہوتا؟ دو وقت کی روٹی کی خاطر یہ چھوٹی موٹی بیماریاں ہم جیسوں کا کچھ نہیں بگاڑتیں صاحب۔‘‘ اس نے اپنے تئیں صاحب جی کو مطمئن کرنا چاہا۔ مگر صاحب جی کہاں مطمئن ہونے والے تھے، انہوں نے ایک نظر اُس پر اور اُس کی گٹھری پر ڈالی اور آگے کسی صحت مند مزدور کی تلاش میں نکل گئے۔
’’لگتا ہے آج بھی اپنی گڑیا کی فرمائش پوری نہیں کرپائوں گا‘‘۔ دو ننھے موتی اس کی آنکھوں میں چمکے جنہیں اس نے میلی آستین سے رگڑ ڈالا۔
صبح سے دوپہر، دوپہر سے شام اور شام سے اب رات ہو چلی تھی۔ ہر بار تھک ہار کر گھر جانے کا سوچتا مگر ننھی گڑیا اور اپنی گھر والی کا چہرہ آنکھوں میں گھوم جاتا۔
’’سنو، ایک کام ہے کرو گے؟‘‘ سامنے کھڑے شخص نے جب اس کی سوچوں کے محور کو توڑا تو وہ خوشی سے سرشار ہوگیا۔
’’جی صاحب جی، میں ہر کام کروں گا۔‘‘
آج وہ واقعی بہت خوش تھا، اگرچہ رات خاصی ہوگئی تھی، مگر وہ آج ہی سارا کام نمٹاکر اپنی ننھی گڑیا کی فرمائش پوری کرنا چاہتا تھا، اور اُس وقت تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہا جب وہ بازار سے اپنی گڑیا کے لیے رنگین چوڑیاں خرید رہا تھا۔ اس نے اپنی چھوٹی سی گٹھری میں اپنی گڑیا اور گھر والی کے لیے کچھ سامان خرید کر گٹھری کو سر پر رکھ لیا اور خوشی سے سرشار گھر کی طرف تیز تیز قدم بڑھانے لگا۔ رات کا اندھیرا تھا اور اس کی بینائی خاصی کم تھی، مگر ایک جذبہ تھا اپنی بیٹی کی آنکھوں میں چمکتی خوشی دیکھنے کا، مگر… تبھی وہ اندھیرے میں کسی چیز سے ٹکرا کر اس تنگ اندھیری گلی کے ایک گڑھے میں جا گرا۔ سر پر موجود اس کی محنت کی جمع پونجی والی گٹھری تو دور کہیں جا گری، مگر اس کے سر پر اس کے ہاتھ جیسے جم سے گئے تھے۔
تین روز بعد اس کی لاش ایدھی سینٹر سے ملی۔ یہ دن اس کے معصوم کنبے کے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ ننھی گڑیا کی آنکھوں میں نہ تو اب کوئی چمک رہی، نہ ہی کوئی حسرت۔

حصہ