تقریبِ نکاح

302

یہ اگست 2015ء کی ایک خوب صورت شام تھی جب گھر کے سبزہ زار میں بچی کے نکاح کی سادہ اور پُروقار تقریب تھی۔ خوشی کے اس موقع کو منور کرنے کے لیے تشریف لا رہے تھے سید منور حسن۔ نہ جانے کیسے میرے خوابوں کو تعبیر مل رہی تھی۔ اس عظیم درویش صفت ہستی کی قدم آوری کتنی خوش کن تھی۔ میں آج بھی اس تصور سے نہال ہوجایا کرتی ہوں۔
تقریب کے مہمان شہر کے وہ معززین تھے جو سید صاحب کی شخصیت اور سرگرمیوں سے تو بہ خوبی واقف تھے لیکن یوں اُن سے براہِ راست ملنے اور گفتگو کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ غیر متوقع طور پر اُن کو اتنے قریب پانا ان سب کے لیے ایک خوش گوار اچنبھا تھا۔ خطبۂ نکاح شروع ہوا اور سب ہمہ تن گوش ہوگئے۔
تقریر کرتے ہوئے سید صاحب نے ایک دل چسپ واقعہ سنایا جو اُن کے زمانۂ طالب علمی کا تھا۔ ذکر تھا ایک کالج کے ساتھی کا، جو نظریاتی اعتبار سے ملحد تھا اور آئے دن دین کی بنیادوں پر طنز و تحقیر کے تیر چلایا کرتا تھا۔ اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات تو ایک طرف، توحید ہی کا قائل نہ تھا۔ پھر ایک دن وہ آیا جب اس نے اپنی شادی کی تقریب میں سب دوستوں کو مدعو کیا۔
سید منورحسن صاحب کہتے ہیں کہ جیسے ہی قاضی نے خطبہ کے کلمات سنانے شروع کیے میں کھڑا ہو گیا اور بآوازِ بلند قاضی صاحب کو ایسا کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ دراصل میرے اس دوست کو نکاح کے ان کلماتِ خطبہ کی ضرورت نہیں، یہ اللہ کے وجود کو مانتے ہیں نہ رسولؐ کی سنت سے کوئی وابستگی ہے۔ تو اس سنت کی بھلا کیا ضرورت؟ ان سے کہیے کہ دلہن کا ہاتھ تھامیں اور اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کریں۔ لمحے بھر کو سناٹا چھا گیا۔ قریبی لوگوں نے میری بات کی تائید کی۔ وہ جو میرے دوست کے قریب تھے، اُس کے نظریات اور بودہ دلیلوں سے واقف تھے، لیکن اب کیا کیا جائے؟
لہٰذا مجھ سمیت سب کی طرف سے یہ تجویز آئی کہ دولہا موصوف کو کلمہ پڑھوایا جائے اور اقرارِ کلمہ پہلے ہو، اقرارِ نکاح بعد میں۔
الحمدللہ میرے دوست نے حق کی حقانیت کے پیغام کو قبول کیا۔ یوں ایک نہیں چھ کلمے پڑھ کر انہوں نے اعترافِ مسلمانیت کیا اور مبارک سلامت کی دعائوں سے نکاح انجام بخیر ہوا۔
اس وقت بھی سید صاحب کو نکاح پڑھانا تھا۔ ان کی شستہ زبان اور شگفتہ مزاجی نے سب کو مسحور کرلیا تھا کہ اس دوران نکاح کے مخصوص کلمات دہراتے ہوئے انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اپنی اردو دانی کی مہارت دکھاتے ہوئے دولہا کو بوکھلا دیا، جب وہ کہہ رہے تھے کہ آپ کو بہ عوض مہر فلاں فلاں بنتِ خالد بن منظورکی صاحبزادی منظور ہیں کہ قبول…؟ پتا یہ چلا کہ مارے گھبراہٹ کے دولہا نے برجستہ کہا ’’منظور بھی اور قبول بھی…‘‘ ساری محفل مسکرا اٹھی اور تین مرتبہ قبول کرنے کی شرط کے بغیر اقرارِ نکاح مضبوط بندھن میں بندھ گیا۔
سید صاحب کی انمٹ یادیں دلوں میں بس گئیں…

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

حصہ