وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق!۔

440

ومآ اُمِروا الّا لِیَعْبُدوا اللہَ مخلصینَ لہُ الدّین حُنَفاء
اِنّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذی فطَرَ السَّمٰوٰتِ والْارْضِ حَنیفاًُ
ان دونوں آیات کی تلاوت کرتے ہوئے”حنیف “اور”حنفاء “ کے لفظ کی تکرار، جبکہ بات آیت کے پچھلے حصہ میں مکمل ہو چکی ہو، دل کی دنیا کو کہیں اور ہی لے جاتی ہے۔ میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کردیا جو فاطر السماوات والارض ہے، اور پھر حنیفا کے لفظ کا اضافہ، رخ تو متعین ہو ہی گیا تھا اس پر یکسوئی بھی حاصل ہوگئی تب عبادت کی تکمیل ہوئی۔
یہ ساری تمہید کیا ہے؟ یہ ساری تمہید ہے ایک ایسی شخصیت کے متعلق قلم اٹھانے کی جو اب ہم میں نہیں رہا لیکن جس نے ہمارے ہی زمانے سے تعلق رکھتے ہوئے ہمیں ”حنیف“ کی بہترین تعریف دی۔ کس نے ہمیں”نصب العین “ کے بھاری بھرکم لفظ کی اس سے بھی بھاری ترکیب سمجھائی، ”آنکھ کا جماؤ“۔ جس پر آنکھ نصب ہوجائے۔
میں انھی کے گھر میں موجود ہوں اور پروگرام سننے کی کوشش کررہی ہوں لیکن چند انتہائی نامانوس الفاظ میں پھنس کر اپنی توجہ کھو رہی ہوں۔۔”بیاد سید منور حسن‘‘۔۔”تعزیتی ریفرینس‘‘۔۔ سید منور حسن”رحمت اللہ علیہ‘‘۔۔۔ بیاد؟!! تعزیت؟؟! رحمت اللہ علیہ!!! کیسے ممکن ہے؟!!! یہ الفاظ ایک جیتے جاگتے ہماری اب تک کی پوری زندگیوں کے ہر ہر مرحلہ میں شامل عزیز از جان فرد کے متعلق نہیں ہوسکتے! لیکن آس پاس بکھرے مرد و خواتین کی موجودگی، برابر میں بیٹھی عائشہ خالہ کا نڈھال چہرہ اور فاطمہ کی سوجی آنکھیں مجھے حال میں واپس کھینچ رہی ہیں۔۔
میں کوئی لکھاری ہونے کی غلط فہمی کا شکار ہوکر یہ تحریر نہیں لکھ رہی، اس لیے آپ لوگ بھی اس غلط فہمی میں نہ رہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ افشاں نوید، روبینہ ناز، عزیزی قدسیہ جبین، عزیزی تیمیہ صبیحہ، نجمہ ثاقب اور جویریہ سعید جیسے افراد کی اس پیج پر موجودگی میں قلم اٹھانے کی ہمت کرنا سہل نہیں ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کے وہ پہلو جو کسی اور نے نہیں دیکھے، شاید اب ان کا حق یہ ہے کہ ان کی کتابِ زندگی کے ان اوراق کو بھی منظرِ عام پر لایا جائے۔
مجھے یہ اس لیے بھی ضروری لگا کہ منور صاحب(جو رشتہ میں میرے خالو تھے) کی شخصیت کے متعلق شاید ان کے گرم مزاج اور ترش روئی کے پہلو کو لوگ ان کی اصل شخصیت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ میں جو جو واقعہ اپنے بچپن سے لے کر اب تک کا یاد کرتی ہوں، سوائے زبردست حسِّ مزاح، ظرافت، شگفتگی اور کمال شفقت و حسنِ سلوک کے، کچھ یاد کرنا مشکل ہے۔۔
منور خالو کی گود اور سینہ پر ہم نے اپنے بچپن کا بڑا حصے گزارا۔ وہ اپنی مصروفیات کی بناء پر زیادہ تر باہر ہوتے اور خالہ اپنی کمزور صحت کیساتھ ہمارے گھر رہتیں۔ یوں ہم نے اپنا بچپن کا زمانہ اکٹھے ایک چھت تلے گزارا جہاں پہلے طلحہ اور پھر فاطمہ کا اضافہ ہوا۔ وہ جب کراچی میں ہوتے تو روزانہ کبھی صبح اور کبھی شام کو ہمارے گھر وقت گزارتے۔ ہماری یہ مجال نہ تھی کہ وہ آرہے ہوں اور کوئی بچہ چپل کے بغیر ہو۔ داخل ہوتے ہی بآوازِ بلند سلام کے ساتھ نظریں بچوں کے پیروں پر ہوتیں اور اگر اس وقت کوئی کھسیانی بلی جلدی جلدی چپل میں پیر گھسانے کی جدوجہد میں ہوتی اسکے پاس پہنچ کر کہتے”ننگے پیر! گندی بچی!” ہم بڑے ہوگئے لیکن یہ الفاظ جیسے سماعت میں محفوظ ہوں۔ ایک کتاب ہماری لائبریری میں ’’گھریلو ترکیبیں‘‘ کے عنوان سے موجود تھی۔ ایک مرتبہ اس پر نظر پڑی تو مجھ سے بولے”گھریلو ترکیبیں؟ بشریٰ(میری بڑی بہن) کو دوپٹہ اوڑھانے کی ترکیب، ثمرہ کو چپل پہنانے کی ترکیب۔۔” اور یہ سب باتیں وہ ایسا شرارتی منہ بنا کر کہتے کہ بڑے تو بڑے بچوں کی بھی ہنسی چھوٹ جاتی۔
میری امی کے ساتھ انکا رویہ بہت ہی احترام والا تھا جبکہ چھوٹی فہیم خالہ کے ساتھ شوخی اور ہنسی مذاق کی نوعیت مختلف اور انتہائی مزیدار ہوتی۔ ابھی کچھ ہی دن قبل امی نے ان سے پوچھا “بھائی جان وہ کتاب ’’دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات‘‘۔۔ آپ نے کتنی دفعہ پڑھی ہے؟” بولے “۱۹ دفعہ” امی نے کہا”ہاں مجھے یاد تھا آپ نے بتایا تھا لیکن تعداد یاد نہیں آرہی تھی۔” بہت شوخی سے بولے”ارے باجی آپکو بتانے کا کیا فائدہ؟ آپ پھر بھول جائیں گی!‘‘ امی برجستہ بولیں ’’میں پھر پوچھ لوں گی!آپکو بتاتے رہنا پڑے گا‘‘۔
یہی برجستگی تھی جا انکی شخصیت کا خاصہ بھی تھی اور اسی حاضر جوابی سے بہت خوش اور محظوظ بھی ہوتے تھے۔ایک مرتبہ کھانے کی میز پر میں چیزیں رکھنے اٹھانے میں مصروف تھی اور باقی لوگ کھانا شروع کر چکے تھے۔ خالو بار بار بلاتے رہے یہاں تک کہ میں آکر ان کے برابر کرسی کھینچ کر بیٹھنے لگی تو معلوم ہوا اس کرسی کا کشن عائشہ خالہ نے اٹھالیا ہے۔ مجھے کشن کی یوں بھی ضرورت نہ تھی لہٰذا ویسے ہی بیٹھ گئی۔ درمیان میں وہ بار بار کھانا میری طرف بڑھاتے جاتے۔ آخر میں بولے دیکھو بیچاری ثمرہ کو کچھ نہیں ملا۔ میں نے کہا نہیں خالو مجھے سب کچھ ملتا رہا۔ تو بولے”سب کچھ ملتا رہا؟ کرسی کی گدی تک تو ملی نہیں!‘‘ اس پر میری رگ پھڑکی اور میں نے ذو معنی انداز میں کہا” کرسی کی گدی کی ضرورت تو آپ لوگوں کو ہوتی ہے!‘‘ اس پر وہ بہت ہنسے اور بولے”تمہارے لئے کرسی ہی کافی ہے؟‘‘ میں نے کہا بالکل، تو خوب زور دے کربولے” لیکن کرسی ضروری ہے بھئی!‘‘
جس وقت اشتراکی نظریات کے حامی تھے اور نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے قائد بھی۔ بعد میں جب انّی وجھتُ وجھیَ کا اقرار کیا۔ چلتے پھرتے ترنم کے ساتھ تلاوت و دعائیں ایسے پڑھتے جیسے ہم کچن میں کام کے دوران گنگناتے ہیں۔ ہم نے قرآن کا ایک حصہ اور بہت سی دعائیں اسی طرح یاد کیں۔ نعیم صدیقی کی نظم ’’یروشلم یروشلم‘‘ میں نے بارہا فہیم خالہ کیساتھ بیٹھ کر ان سے سنی۔ فہیم خالہ فرمائش کرتی جاتیں اور وہ انتہائی خوبصورت لے میں سناتے جاتے۔ لہجہ اور آواز کے زیرو بم پر جو کمال درجہ کی مہارت تھی اسکے وجد میں ہم جھوم جھوم جاتے۔
ان کی والدہ بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتی تھیں اور خالو کے اپنی والدہ کے متعلق سنائے قصوں میں ایک ’’پنکھی‘‘ اور اسکے بے دریغ استعمال کا ذکر خوب سنا، کسی بھی زبان، اردو اور انگریزی کے کسی لفظ کے غلط تلفظ یا غلط استعمال پر ’’پنکھی‘‘ حرکت میں آجاتی۔ اسی لیے ان کی دونوں زبانیں آخر تک انتہائی شستہ اور نفیس رہیں۔ اماں بی اپنے بریلوی نظریات تو ان میں منتقل نہ کرسکیں لیکن نبی پاک کی محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری۔ اس محبت کی لاج شاید ان کے رب نے بھی رکھی اور ان کی شریک سفر کا نام بھی عائشہ اور پھر انھوں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا۔ گھر میں محبت نچھاور کرنے والے شفیق شوہر اور باپ تھے۔ بس بے اصولی کی کوئی بات نہ ہو۔ عین حدیث مبارکہ کی روشنی میں اپنا دامن جھاڑیوں سے بھرے راستہ سے بچا کر گزر جانے اور پھرمولانا مودودی کی ’’داعی‘‘ کی تعریف کی روشنی میں اپنا دامن کسی جھاڑی کے کانٹے سے الجھ جانے کی صورت میں دامن پھاڑ کر اپنی راہ لینے کی وہ عمدہ ترین مثال رہے! کانٹوں سے الجھنے میں کبھی وقت ضائع نہ کیا اسی لیے نفس مطمئنہ کی تصویر رہے۔ حد یہ کہ خاندان اور بچوں کے متعلق بھی اتنی ہی سعی کی جتنے کے مکلف تھے، غیر ضروری امور کے لیے کبھی اپنے آپ کو ہلکان نہ کیا۔ اب جبکہ ہم خود والدین بن چکے ہیں، ان کا یہ اسوہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔گھر کی اور گھر والوں کی محبت کبھی ان کے مقصد اور آنی وجھت وجھی کے عہد میں آڑے نہ آئی۔ یہ سب کھجوریں وہ اسی وقت پھینک چکے تھے جب انکو مولانا مودودی کے لٹریچر سے جنت کی خوشبو آئی تھی۔ لیکن ان تمام حقوق کے زبردست ادراک اور ان کو پورا کرنے کی کما حقہ سے کبھی بے پروا نہ ہوئے۔ فاطمہ جب چھوٹی تھی اور رات کے کسی پہر کسی ضرورت کے تحت اٹھ بیٹھتی تو اس سے پہلے وہ اٹھ بیٹھتے اور پوچھتے”کیا بات ہے بیٹا؟ امی کو مت اٹھانا‘‘۔ پھر جو اسکی ضرورت ہوتی خاموشی سے پوری کراتے کہ خالہ کی آنکھ نہ کھلے۔ فہیم خالہ امریکا میں مقیم تھیںجس دوران منور خالو کا امریکا کا دورہ ہوا۔چھوٹی سی فاطمہ کو فہیم خالہ نے سپانسر کرکے بلوالیا(جماعت کے نہیں اپنے خرچہ پر)۔ خالہ اس کو ڈزنی لینڈ فلوریڈا لے کر گئیں۔ منور خالو انتہائی نفیس طبیعت اور وضع دار آدمی لیکن فاطمہ کو کسی جھولے پر اکیلے بٹھانا گوارا نہ کیا۔ ہر طرح کے بے تکے جھولے پر اپنی قمیض شلوار اور داڑھی کو خاطر میں لائے بغیر فاطمہ کے ساتھ بیٹھے۔
ہماری شادیوں کے موقع پر ازواج کے انتخاب سے لے کر شادیوں کے بعد نئی جگہوں پر نئے افراد کے ساتھ نئے ماحول میں ایڈجسٹ منٹ کے مراحل تک،ہر قدم پر منور خالو اور عائشہ خالہ جس تن دہی سے اپنے مشوروں اور کوششوں کے ساتھ موجود رہے اس کو ہم مرتے دم تک نہیں بھول سکتے نہ اس کا حق ادا کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہماری امی کے لیے ان کی رائے اتنی اہم رہی کہ جس رشتہ کو خالو نے نامناسب سمجھا اسی امی نے بھی فوری رد کردیا اور جس کے لیے ان کی رائے بنی قرعہ فال اسی کے نام نکلا۔ پھر جب باجی(میری بڑی بہن) شادی کے بعد لندن روانہ ہونے لگیں تو صبح ۵ بجے ائیر پورٹ پر ان کو رخصت کرنے موجود تھے اور پورے وقت ہمارے سوگوار ماحول کو اپنی شگفتہ باتوں سے خوشگوار بناتے رہے۔ پھر جب میری شادی ہوئی تو اتفاق سے میرے نصف دیگر بھی برطانیہ میں ہی مقیم تھے، خدا جانتا ہے اس وقت کئی کرم فرماؤں نے فتوے لگائے کہ ان کی اپنی اولادیں باہر منتقل ہو جاتی ہیں۔ بعض اپنوں نے حب الوطنی پر سوالات اٹھائے۔ان پریشان کن فتووں کے دوسری طرف میں نے منور خالو کا رویہ دیکھا جو فکرمند ہوکر خالہ سے پوچھتے”بھئی یہ اپنے شوہر کے پاس کب جائے گی؟‘‘ اور اللہ جانتا ہے ان کے اس سوال نے میرے دل سے تمام واہموں اور احساسِ جرم کو رفع کردیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ منتقل ہونے کے بعد کاموں کی ایک نئی دنیا اور سینکڑوں نئے ذرائع اللہ نے سجھائے اور اپنی شخصیت کی ایک بالکل نئے رخ پر تعمیر کے وسائل عطا کیے۔ یہ منور خالو کی بے مثال بصیرت تھی جو ہر ایک کو اس کے ذاتی حالات کی روشنی میں پرکھ کر اس کے لیے بہتر فیصلہ دینے کے قابل بناتی تھی۔
پھر جب جب وہ برطانیہ آئے اور ہم نے ان سے اپنے دلی تعلق اور محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ان کی کچھ ضرورت کی چیزیں ان کے حوالہ کیں، اس تاکید کے ساتھ کیں کہ یہ آپ کو استعمال کرنی ہیں! ارے بھئی دوسروں کے تحفے آپ ضرور جمع کرائیں بیت المال میں، جیسے طلحہ فاطمہ کی شادی کے تحائف ٹرک بھر بھر کر دفتر جماعت روانہ کردئیے تھے۔لیکن ہم تو آپ کو گھر والوں کی حیثیت میں آپ کے استعمال کے لیے دے رہے ہیں۔ جواب میں وہی لحاظ اور محبت سے بھرپور ہلکا قہقہہ اور جھکی نظریں ہم پر واضح کردیتیں کہ نہیں جناب! یہ بندہ دو عالم سے خفا تیرے لیے ہے۔۔
ہماری تحریکی مصروفیات دیکھ کر وہ سیروں خون بڑھاتے۔ ایک مرتبہ (جبکہ میں مرکزی سیاسی سیل کی ٹیم کا حصہ تھی)انھوں نے کافی لیٹ ہمارے آفس فون کیا، ان دنوں الیکشن مہم درپیش تھی اور ہمارے آفس میں لوگوں کو سر کھجانے کی فرصت نہ ہوتی تھی۔اتفاق سے میں نے ہی انکا فون اٹھایا تو میری آواز سن کر بولے”ہیں! تمہیں ابھی تک چھٹی نہیں ملی؟” میں نے ہنس کر کہا نہیں تو بولے”تم نے سبق یاد کرلیا ہوگا!‘‘ (اسے چھٹی نہ ملی جس نےسبق یاد کیا۔۔) میں نے کہا”مجھے سبق یاد نہ کرنے کے باوجود چھٹی نہیں ملی‘‘۔اس پر میرا یہ جملہ دوہرا کر ہنستے رہے۔
ایک مزیدار واقعہ ہماری ایک عزیزہ (امی کی پھوپھی زاد بہن جو ان سے عمر میں کافی بڑی تھیں)کیساتھ پیش آیا جو ڈپریشن کی مریضہ ہونے کے ساتھ انتہائی پر محبت خاتون تھیں اور خالہ اور خالو پر جان چھڑکتی تھیں۔ ایک دن بڑی پریشانی کے عالم میں خالو سے پوچھا(کافی تمہید کے بعد) کہ منور! مجھ سے فلاں فلاں نے کہا کہ منور حسن لاہور میں اس لیے رہتے ہیں کیونکہ وہاں انھوں نے ایک اور شادی کررکھی ہے اور وہاں اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہتے ہیں۔۔(اس سے لوگوں کی بیمار ذہنیتوں کا بھی اندازہ لگائیے اور خالو کو درپیش ان گنت محاذوں کا بھی۔۔)خالو برجستہ بولے”ارے آپا! لاہور میں دوسری نہیں پہلی ہیں! دوسری تو عائشہ ہیں۔‘‘ وہ بیچاری آنکھوں میں آنسو بھر کر ہق تق خالہ کی طرف دیکھے گئیں۔ تو بولے”اب یہ تو آپ کی غلطی ہے آپ نے ہمارا انتخاب کرنے سے پہلے چھان بین نہ کرائی‘‘ آخر ان کی حالت پر ترس کھا کر کہا”بھئی پہلی بیوی تو جماعت اسلامی ہے‘‘۔
اب سے ایک ماہ قبل عائشہ خالہ کیساتھ مرکزی نشست کے سلسلہ میں ان کے یہاں جانا ہوا۔ خالو مسجد سے واپسی پر ہانپتے کانپتے اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو چہرہ پر تکلیف کے آثار تھے لیکن مجھے دیکھتے ہی کھل گئے اور بڑی خوشی سے “اچھاااااا” کہہ کر میرے گال کو تھپتپا کر پوچھا”یہ گڑیا کیوں رو رہی ہے؟‘‘ اس وقت میری چھوٹی بیٹی بیماری کی حالت میں میرے ساتھ تھی۔ میں نے بتایا تو کہنے لگے ’’نہیں وہ تمہاری گود میں ہے نا اس لیے رو رہی ہے۔‘‘
ادھر پردہ کے پیچھے بیٹھی خواتین حیران کہ منور صاحب گھر میں اتنی بذلہ سنج شخصیت ہیں!
وہ نفسِ مطمئنہ تھے۔ ہم نے اپنی پوری زندگی میں کبھی ان کو مایوس، پریشان یا کنفیوز نہیں دیکھا۔ سخت سے سخت حالات میں سخت سے سخت انٹرویو سے کر آرہے ہوں، چلتی گولیوں کے بیچوں بیچ اپنے پیاروں کے جنازے پڑھا کر آرہے ہوں یا صبر آزما الیکشن کے مایوس کن نتائج بھگت رہے ہوں، ایک اطمینان ہمیشہ ان کے چہرہ پر دیکھا۔ الیکشن کی نچوڑ دینے والی مہمات کے بعد مایوس کن نتائج کی خبروں کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے تھے تو رات کو شکرانہ ادا کرتے کہ اللہ نے بڑی ذمہ داری سے بچایا۔ ان کی اس عادت نے ایک طرف نہ صرف ہمیں بہت کچھ سکھایا وہیں دوسری طرف اپنی اصل کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مدد کی اور تیسری طرف ان زخموں پر مرہم رکھا جو قوم ہر دفعہ دیتی تھی۔ لیکن انکی چٹانوں جیسی استقامت، انتہا درجہ کی بصیرت اور الہامی اطمینان کی کیفیت پر عقل محوِ تماشائے لبِ بام ہی رہی۔ یہی سعادت کی زندگی کی علامت ہے اور شہادت کی موت ہمیشہ انھوں نے مانگی۔ وفات کے بعد سے قبر میں اتارے جانے تک گردن کے زخم سے جو خون مسلسل جاری رہا وہ ان کی دعا کی قبولیت کا غماز تھا۔
وہ اللہ ہی کی امانت تھی لیکن ہم پوری ذمہ داری اور دیانت کیساتھ گواہی دیتے ہیں کہ انھوں نے ایک مکمل رول ماڈل بن کر دکھایا۔ انھوں نے اپنے رب سے کیے گئے سودے کو آخری سانس تک چکایا اس پر تو قرآن ہمیں خوشیاں منانے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن دل کی حالت یہ ہے کہ:۔

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

اللہ تعالیٰ ان کے حق میں سب گواہیاں قبول کرے، خالہ کی صابرانہ رفاقت کے اعلی ترین نمونہ کو ہمارے لئے مشعل راہ بنائے اور جنت میں پھر سے ہمارے خاندان کو مکمل کردے جسکے بعد ہم کبھی جدا نہ ہوں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ وہ نظریہ اور مشن جو انھوں نے ہم تک منتقل کیا اس پر ہم بھی اسی طرح یکسوئی کے ساتھ چلیں اور اسکے علاوہ ساری کھجوریں پھینکتے چلے جائیں۔

حصہ