اسلامی انقلاب سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی میں

836

ہجرت کے دوسرے سال جہاد بالقتال کا مرحلہ آ گیا مکہ سے کفار و مشرکین کا ایک لشکر جرار یثرب کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے مکہ کی جانب چل دیا۔ آپ ﷺ بھی 313 انصار و مہاجر مجاہدین کے ساتھ یثرب سے نکلے سترہ رمضان المبارک کو دونوں فوجوں کا ٹکراؤ بدر کے مقام پر ہوا جنگِ بدر مشرکین کے ستر سردار مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے کفر و اسلام اور حق و باطل کا یہ پہلا معرکہ اللہ تعالیٰ کی حمایت و نصرت سے مسلمانوں نے جیت لیا۔ پورے عالم عرب پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اہل مکہ میں صف ماتم بچھ گئی۔مسلمانوں کی کامیابی پر یہودی دل ہی دل میں کڑھ رہے تھے۔ وہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قوت سے خوف زدہ ہو گئے۔ معاہدہ ہونے کے باوجود وہ مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہے اور جوش دلاتے رہے ۔مشرکین بھی ہار سے بہت پشیمان اور شرمندہ تھے وہ انتقام کی آگ میں جل رہے تھے بدلہ لینا چاہتے تھےانہوں نے زبردست جنگی تیاری کی اور تین ہزار کا لشکر لے کر ہجرت کے تیسرےسال مدینہ کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ بھی اہل مکہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھےآپﷺ نے لوگوں کو جمع کیا اور موجودہ صورت حال سے آگاہ کر کے مشورہ چاہا کہ دشمن سے کھلے میدان میں لڑیں یا دفاعی جنگ، زیادہ نوجوانوں کی رائے تھی کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے چند لوگوں کی رائے تھی کہ دفاعی جنگ کی جائے مگر فیصلہ کھلے میدان کا ہوا مسلمان ایک ہزار تھے آگے چل کر عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے آپ ﷺ سے کہا کہ آپ نے ہم سے رائے نہیں لی چند جذباتی نوجوانوں کی رائے کو اہمیت دی وہ اختلاف کر کے 300 آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گیا ۔سات سو مجاہدین مردانہ وار محاذ پر پہنچے صف بندی ہوئی آپ ﷺ نے ایک درہ پر 50 تیر اندازوں کو مقرر کیا اور سختی سے تاکید کی کہ جنگ کی صورت حال کچھ بھی ہو تمہیں کسی حال میں یہ جگہ نہیں چھوڑنی جنگ شروع ہوئی مسلمانوں کا پلہ بھاری تھااور مسلمان کفار پر حاوی ہو گئے وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے تو مسلمانوں نے مال غنیمت سمیٹنا شروع کر دیا۔ جب تیر اندازوں نے یہ دیکھا کہ ہم جنگ جیت گئے اورمسلمان مال غنیمت اکٹھا کررہے ہیں تو انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی ، درہ خالی پا کر کفار کے ایک دستہ نے جسکی تعداد 500 تھی عقب سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ مسلمان بدحواس ہو گئے اور یوں احد کی جیتی ہوئی جنگ ہار گئے آپ ﷺ اور کافی صحابہ زخمی ہوئے جبکہ 70 صحابہ کرام شہید ہوئے ۔ ابوسفیان جنگ کا فیصلہ ہوئے بغیر ہی اپنی فوج کو لیکر نعرے لگاتے ہوئے میدان جنگ سے چلاگیا، مسلمان بھی شہید صحابہ کی تدفین کے بعد مدینہ آ گئے۔ ابھی اچھی طرح سوئے بھی نہ تھے کہ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ مشرکین کا تعاقب کرنا ہے۔مسلمان جو زخموں سے چور تھے تھکے ہارے تھے شکست کے زخم نے ان کو بے حال کر دیا تھا مگر انہوں نے رسول خداﷺ کی آواز پر لبیک کہا اور آپﷺ کے ساتھ مشرکین کا تعاقب کیا گو مقابلہ نہیں ہوا مگر اللہ کی بارگاہ میں ان کا نام لکھا گیا۔اور جو اللہ کے نبیﷺ سے اختلاف کر کے جہاد چھوڑ کر چلے گئے وہ منافق کی حیثیت سے کم ہو گئے جن لوگوں کی خطا کی بناء پر مسلمان شکست سے دو چار ہوئے 70 صحابہ شہید ہوئےان سب کو یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ زخموں سے چور اور دل شکستہ ہونے کے باوجود بھی اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی آواز پر لبیک کہا وفاداروں اور غداروں کا انجام ایک جیسا نہیں ہو سکتا غلطی کرنے والے معاف کر دیے گئے اور نبی ﷺکو چھوڑنے والے ہمیشہ کے لیئے بے نام و نشان ہو گئے۔ مسلمان احد کی شکست سے دل شکستہ اور مایوس نہیں ہوئے وہ بھپرے ہوئے شیر کی طرح اٹھے اور دن رات محنت کر کے طاقت کا جھکاؤ اپنی طرف کر لیا ۔احد کے بعد جو ہوا اکھڑی تھی مشرکین کا تعاقب کر کے اسی وقت بحال کرنے کی کوشش کی گئی بعد میں انتھک محنت کر کے نہ صرف بحال کر لیا بلکہ آس پاس کے قبائل کو اپنا حلیف یا مطیع بنا لیا۔ جو یہودی بدعہدی پر اترے ہوئے تھے انہیں سیدھا کر دیا ساتھ ہی شریعت کا نفاذ بھی ہوتا رہا حرام و حلال کے جو احکامات آئے ان کو لوگوں پر فوری نافذ کر دیا ، ناانصافی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا،نظام عدل قائم کیا۔ آپ ﷺنے صحابہ کرام کے درمیان جو اخوت قائم کی تھی اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ مسلمان جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے مشرکین اور یہودیوں کی نفرت اور غصے میں اضافہ ہوتا گیا یہودیوں نے بنی پاک ﷺ کے خلاف پروپیگنڈہ کا محاذ کھول دیا جب بھی کسی قرانی حکم کا نفاذ ہوتاتو سب سے زیادہ یہودی شور مچاتے۔ تحویل قبلہ کے موقع پر انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔قرآن نے واضح کر دیاتھا کہ بنی اسرائیل کو منصب امامت سے معذول کر دیا گیا اور امت مسلمہ کو اس منصب پر فائز کر دیا گیا لہذا بیت المقدس پر بنی اسرائیل کا استحقاق نہیں بنتا۔
ہجرت کا چوتھا سال کام کو آگے بڑھانے یہود و منافقین کی شرانگیزیوں کا مقابلہ کرنے میں گزرا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور طاقت ان کے دلوں میں آگ بھڑکا رہی تھی ۔ ہجرت کے پانچویں سال کفار ، مشرکین اور یہودیوں کا 10 ہزار کا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہوا تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ مدینہ کے سامنے ایک گہری اور طویل خندق کھدی ہوئی ہےان کے وہم و گمان میں بھی نا تھا کیونکہ عربوں کی جنگ کا یہ قاعدہ کبھی نہیں رہا ، وہ خندق کو کسی صورت عبور نہیں کر سکتے تھے ان کا سب سے زیادہ طاقتور شہسوار خندق پار کر کے آیا اور دستور کے مطابق اس نے مقابلہ کے لیئے للکارا تو شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کے مقابلہ پر آئے اور اسے جہنم واصل کر دیا اور مسلمانوں نے جنگِ خندق میں فتح حاصل کی ،جب کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا تو یہودیوں نے اپنے یہودی بھائیوں کو مسلمانوں سے عہد توڑنے کے لیئے اکسایا اور وہ عہد توڑنے پر رضامند ہو گئے انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہمارا محمد ﷺ سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں رہا۔
مسلمانوں میں یہ بات پھیل گئی منافقین نے شورمچانا شروع کر دیا کہ ہم مارے گئے بچنے کی کوئی سبیل نہیں وہ محاذ جنگ سے واپسی اور بعض کفار و مشرکین سے ملنے پر آمادہ ہو گئے انہوں نے بچوں اور عورتوں کا بہانہ بنایا کہ وہ سب خطرے میں ہیں ہمیں رخصت دیں یہی نہیں بلکہ ان کے دل ایمان سے خالی ہو گئے۔ وہ رسول پاک ﷺ کی بشارتوں کا مذاق اڑانے لگے” کہ پیٹ میں روٹی نہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور صاحب کہتے ہیں کہ اسلامی فوجیں شام اور دمشق میں داخل ہو گئی ہیں” بچے تو سب کے خطرے میں تھے مگر منافقین کے سوا کسی کو کسی قسم کا کوئی خوف نہیں تھا اس موقع پر وحی کا نزول ہوا کہ
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ القرآن
محاصرہ طویل ہو گیا ایک رات زبردست آندھی آئی کہ دشمن کے خیمے الٹ گئے اور سامان بکھر گیا جانور بدحواس ہو گئے اس صورت میں انہوں نے رات کو ہی اپنا بوریا بستر سمیٹا اور فرار ہو گئےصبح میدان خالی دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب یہ کبھی نہیں آئیں گےاب ہماری باری ہے ہم جائیں گے۔ جنگ احد کے بعد 3 ہجری سے 5 ہجری تک مسلمانوں نے دعوت و تبلیغ کے ساتھ جو مجاہدانہ کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ایک طرف مسلح جدوجہد کے ذریعے دشمنوں کا قلع قمع کیا گیا اور دوسری طرف اسلامی قوانین کے نفاذ نے دشمنوں کی نیندیں حرام کر دیں تھیں۔ یہودیوں اور مشرکین پر آخری ضرب جنگ احزاب اور اس کے بعد یہودیوں کی مکمل سرکوبی پر ہوئی۔
ہجرت کے چھٹے سال آپﷺ نے اعلان کیا کہ ہم عمرے پر جا رہے ہیں جو بھی چلنا چاہے وہ تیار ہو جائے اس کا مطلب یہ تھا ہم ممنوعہ علاقے میں جا رہے ہیں خون کے پیاسے دشمنوں کے علاقے میں جا رہے ہیں جس کو شہادت کی تمنا ہو وہ ہمارے ساتھ چلنے کو تیار ہو جائے چودہ سو صحابہ تیار ہوئے جب کاروان صحابہ مکہ کے قریب حدیبیہ کی مقام پر پہنچا تو اہل مکہ کا وفد آیا اور اس نے عمرہ کرنے سے منع کیا ۔ اہل مکہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارا مقصد جنگ کرنا نہیں۔ ہم عمرہ کرنے آئے ہیں۔ لیکن قریش مکہ کے ساتھ تمام بات چیت بے سود ثابت ہوئی۔ آخر رسول خدا ﷺ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر بھیجا کہ وہ قریش سے بات چیت کریں۔ قریش نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو مکہ میں روک لیا۔ اس سے مسلمانوں کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں حضرت عثمان کو شہید نہ کر دیا گیا ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تمام جانثاروں سے بیعت لی کہ جب تک حضرت عثمان کا قصاص نہیں لیں گے اس جگہ سے نہیں ہلیں گے۔ مرتے دم تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیں گے۔ اس بیعت کو بیعت الرضوان کہتے ہیں اور وہ درخت شجرۃ الرضوان کہلاتا ہے۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید نہیں کیا گیا تھا پھرکئی دنوں کی بحث کے بعد ایک معاہدہ طے پا گیا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ صحابہ کے نزدیک معاہدہ مسلمانوں کے خلاف تھا۔اس میں اہل مکہ کی بڑائی اور مسلمانوں کی کمزوری جھلک رہی تھی مگر آپ ﷺ نے اسے فتح مبین قرار دیا بعد میں آپ ﷺ کے سمجھانے پر مسلمانوں کا شرح صدر ہو گیا مسلمان معاہدہ کر کے واپس آ ئے اب پہلے سے زیادہ آزادی اور اطمیان سے کام کرنے لگے۔ ساتویں سال آپ ﷺ نے خیبر کا رخ کیا جو یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ اور مرکز تھا اور ایک بہت مضبوط قلعہ تھا۔ کئ دن کے محاصرے کے بعد بھی خیبر فتح نا ہوسکا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کل میں جھنڈا اس کے ہاتھ میں دونگا جو خیبر کو فتح کرے گا ہر ایک جھنڈے کا متمنی تھا مگر کاتبِ تقدیر نے فتح کا جھنڈا اس عظیم المرتبت ہستی کے نام لکھ دیا تھا جسکا سراپا اسلام تھا جس نے اسلام کے لیے اپنا سب کچھ لگادیا تھا جو خاتونِ جنت کے خاوند اور سرداران جنت کے والد گرامی ہیں یہ تھے شیرِخدا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ جنہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اپنے آہنی ہاتھوں سے در خیبر اکھاڑ پھینکا اور خیبر فتح ہوگیااس معرکہ میں صرف ان مجاہدین نے حصہ لیا جو عمرہ میں ساتھ گئے تھے۔
ہجرت کے ساتویں سال معاہدہ کے مطابق صحابہ عمرہ ادا کرنے گئے تو اہل مکہ تین دن کے لیئے شہر خالی کر گئے۔عمرہ سے واپسی پر کام کی رفتار تیز کر دی آس پاس کے علاقے زیرنگین آگئے،فتح خیبر کے بعد یہودیوں کا رول ختم ہو گیا جزیرہ العرب میں اب ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں بچی کفار و مشرکین نے دیکھا کہ اگر اس طرح مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا تو ان کو روکنا مشکل ہو جائے گا اس لئے ان سے وقت آنے سے پہلے دو دو ہاتھ ہو جائیں اور انہوں نے یکطرفہ طور پر معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ آپ ﷺ نے ان کو ذرا مہلت نہیں دی اور10 ہزار مجاہدین اسلام کا لشکر لے کر مکہ کی جانب روانہ ہو گئے 20 رمضان المبار 8 ہجری مکہ فتح ہو گیا اسلام سے پہلے جو ایک حبشی غلام تھا اسلام لانے کے بعد سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کہلائے نے خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اللہ کی کبریائی کا اعلان کر دیا. کعبتہ اللہ کو بتوں کی گندگی سے پاک کر دیا گیا ۔ وہ سب ظالم اور قاتل سر جھکائے آپ ﷺ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے وہ اپنے قتل کا انتظار کر رہے تھے، مگرنبی رحمت ﷺ یوں گویا ہوئے کہ آج میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا تم سب آزاد ہو۔تاریخ انسانی میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ اپنے خون کے پیاسوں اور بدترین دشمنوں کے ساتھ کسی نے ایسا سلوک کیا ہو ۔ آپ ﷺ کو اللہ رب العزت نے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا تھا۔ آپﷺ کا مقصد تھا انسانوں کو دوزخ کے راستے سے ہٹا کر جنت کی طرف لانا تمام لڑائیاں اسی مقصد کے تحت لڑئی گئیں کہ صرف ایک اللہ کی مان کر اسکی بندگی اختیار کریں بندوں کی غلامی سے نکل جائیں اگر آج ان کو قتل کر دیا جاتا تو سب جہنم میں جاتے مگر آپﷺ ان کو جنت میں لے جانا چاہتے تھے ۔اس لئے ان کو معاف کر دیا گیا۔ان کو اسلام قبول کرنے اور ایمان کے مطابق زندگی گزانے کا موقع عنایت کیا پھر وہ ایمان لائے اور اسلام کے غازی اور شہید کہلائے۔ فتح مکہ کے بعد جنگ حنین ہوئی اس میں وہ نو مسلم بھی شریک تھے جنہیں معافی ملی تھی جنگ میں فتح ہوئی مال غنیمت تقسیم ہوا اور اب مدینہ منورہ کی صورت حال تبدیل ہو چکی تھی لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے تھے مگر رومیوں اور فارسیوں کا ابھی خمار نہیں اترا تھا حجاز سے فارغ ہو کر مجاہدین اسلام نے روم و فارس کا رخ کیا اور پھر وہ معرکے رونما ہوئے جن کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ایسی لڑائیاں کبھی نہیں لڑی گئیں تھیں لاکھوں کی تعداد میں آراستہ بہترین اسلحہ سے لیس فوج کا مقابلہ چند ہزار مجاہدین سے ہوا اورمجاہدین فتح یاب ہوئے جہاد کا جذبہ اور شہادت کا شوق مسلمانوں کا سب سے بٖڑا ہتھیار تھا قدم قدم پر اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی کی اور ان کو فتح نصرت سے نوازا جنگ موتہ ہو، جنگ یرموک ہو یا جنگ قادسیہ ہو اپنے سے کئی گنا فوج پر غالب آئے ہر مقام پر اسلامی فو ج نے فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑے بہادری اور شجاعت کی وہ داستان رقم کی جن کی مثال پہلے ملتی ہے اور نہ بعد میں ملی۔ آپ ﷺ کی تمام پیشنگوئیاں ایک ایک کر کے سچ ثابت ہو رہی تھیں مسلمانوں کا جوش و خروش اپنے عروج پر تھا ۔

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے

(جاری ہے)

حصہ