۔”اٹھو، آگے بڑھو ، کراچی”۔

482

کراچی کے شہریوں کو دیوار سے لگانے کا عمل چالیس سال پہلے شروع ہوا تھا، اب کراچی کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کو تیاری کرلی گئی ہے۔
روشنیوں کا شہر کہلانے والے شہر میں اس وقت تاریکیوں نے ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعت جو تین دہائیوں سے بلاشرکتِ غیرے کراچی کی نمائندگی کی دعویدار تھیں، آج ان کی زبانیں گنگ اور منہ میں لڈو ہیں۔
کوٹہ سسٹم سے شروع ہونے والا منحوس قانون اس شہر کے تمام اداروں کو لے ڈوبا ہے۔ کراچی میں تاریکیوں کے راج کو لانے والا پرویزمشرف تھا جس نے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (KESC) کو اونے پونے بیچ کر اپنے منظورِ نظر افراد کو نوازا اور ریگولیٹری اتھارٹی کا چیئرمین لگوایا، اس میں خود پرویزمشرف کا کتنا کمیشن تھا؟ فوج کے سابق سربراہ ہونے کی وجہ سے ایڈوانٹیج یہ ملا کہ ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی انکوائری کمیشن آج تک قائم نہیں کیا جاسکا۔ بتدریج بجلی کا قومی ادارہ فروخت ہوتے ہوتے ابراج گروپ کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
یہ ابراج گروپ کیا ہے؟ اس کا پاور جنریشن، یا ڈسٹری بیوشن سے کیا تعلق ہے؟ اس بارے میں کوئی کچھ نہیں بولتا۔
ہر آنے والی حکومت اس بارے میں خاموش ہی نہیں بلکہ درپردہ ان کی پشت پر موجود ہوتی ہے۔ ایک نجی مالیاتی کمپنی جس کا کام فنانسنگ کی حد تک تھا اُس کو پاکستان کا ایک ادارہ بیچ دیا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ تھا، مگر پیپلز پارٹی سمیت ہر سیاسی حکومتی جماعت نے اس بارے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ یہ وہی ابراج گروپ ہے جو تباہ حال پرائیویٹ ایکویٹی فرم ’’ابراج کیپٹل لمیٹڈ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، جس کے چیف ایگزیکٹو عارف نقوی اور منیجنگ پارٹنر کو اپنے سرمایہ کاروں سے فراڈ کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا تھا اور ان پر مجموعی طور پر 380 ارب روپے کی بدعنوانی ثابت ہوچکی، مگر یہ ہمارے وزیراعظم عمران خان کی آنکھوں کا تارا ہے اور ان کے قریبی معاونین میں شامل ہوکر کابینہ کے اجلاس میں شریک بھی ہوتا ہے۔ کوئی عمران خان سے پوچھے کہ آخر یہ کس حیثیت میں کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوتا ہے؟
عمران خان کو انتخابات میں ناجائز طریقوں سے جو رقوم ملیں، ان کا سب سے بڑا فنانسر یہی عارف نقوی تھا، جس کے بارے میں تحریک انصاف کے سابق نائب صدر جسٹس وجیہ بہت پہلے ہی انکشاف کرچکے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”عمران خان نے سختی سے منع کیا ہے کہ کے الیکٹرک کے خلاف کوئی بھی حکومتی عہدیدار بات نہیں کرے گا“۔ بالآخر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور ”فارن فنڈنگ کیس“ چلایا گیا۔ جب یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ فیصلہ شاید عمران خان کے خلاف جانے والا ہے اُسی وقت عمران خان نے عدالت سے درخواست کی کہ کارروائی بند کمرے میں کی جائے اور فیصلے کو روک لیا جائے۔
یہی نہیں، آج تک یہ وضاحت بھی نہیں کی جارہی کہ اس گروپ کے اصل مالکان کون ہیں؟ ابراج گروپ کی پروفائل دیکھنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں اعلیٰ ترین عہدوں پر دو بھارتی ماہرین موجود ہیں جو ماضی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے لیے بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ ابراج گروپ کے زیرانتظام کے الیکٹرک کو سالانہ بنیاد پر سبسڈی بھی دی جارہی ہے۔ ماہانہ بنیادوں پر واپڈا گرڈ سے سستی بجلی جو چار روپے فی یونٹ بنتی ہے، دی جارہی ہے۔ آخر یہ سب عنایات کس بنیاد پر ہیں؟
سبسڈی کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ کمزور قومی ادارے جو خسارے میں جارہے ہیں اُن کو سبسڈی دے کر مدد کی جائے۔ کے الیکٹرک تو قومی ادارہ بھی نہیں ، نہ ہی یہ خسارے میں ہے۔ اس کے برعکس کے الیکٹرک کراچی کے شہریوں کا خون چوس چوس کر اربوں روپے کے فائدے میں ہے ، پھر اس قدر انعامات اور نوازشات کس کھاتے میں ؟
اب ان سے کوئی یہ پوچھے کہ انہوں نے کے ای ایس سی خریدنے کے بعد سے جب کے الیکٹرک وجود میں آئی تو کیا تیر مار لیا؟
کتنے یونٹ پیداوار بڑھائی؟ یا استعداد بہتر کی؟ یا نئے یونٹ لگائے؟ ان میں سے کارکردگی کے کسی بھی پیمانے پر ایک یونٹ کا اضافہ نہیں کیا گیا، الٹا ملازمین کو بے روزگار کیا گیا۔ پاکستان کی قدرتی گیس کو چوری اور دھوکہ دہی سے حاصل کیا، بن قاسم پلانٹ کے چھ یونٹ میں سے دو یونٹ بند کردیے یہ کہہ کر کہ ان کو کوئلے پر چلائیں گے، اور اس مقصد کے لیے حکومت سے مزید فنڈز حاصل کیے، مراعات حاصل کیں۔ فرنس آئل کی خریداری کے لیے اپنی پرائیویٹ کمپنیوں کو آگے لایا گیا، پی ایس او سے کم قیمت پر پیٹرول لے کر اپنی لائسنس یافتہ کمپنیوں کے ذریعے مارکیٹ میں مہنگا بیچتے رہے۔ حالیہ دنوں میں پیٹرول کے بحران اور قیمتوں میں اضافے سے مستفید ہونے والوں میں کے الیکٹرک ایک بڑا نام ہے۔
پھر گیس پر پلانٹ چلا کر فرنس آئل کی قیمت لگا کر صارفین سے بلوں کی وصولی۔۔۔ یہ بھی سونے پر سہاگہ ہے۔
طریقه واردات یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی اور دیگر پریشر گروپوں کے افراد کو ساتھ ملا کر یہ ان کو نوکریوں پر رکھ کر اپنے سرمائے کو چار گنا اور دس گنا کرتا ہے۔ لیاری میں عزیر بلوچ، بابا لاڈلا اور ان کے لوگوں کو ریکوری پر لگایا، گڈاپ میں حلیم عادل شیخ اور ان کے گماشتوں سے کام لیا جارہا ہے۔ الطاف حسین کے سگے ماموں سب سے بڑے ٹھیکیدار ہیں، اور فاروق ستار صاحب کے نام پر بھرتی کیے جانے والے بے شمار افراد کراچی کے عوام کا خون چوسنے میں کے الیکٹرک کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
ان تمام تر حقائق کو جانتے بوجھتے کوئی ایسا نہیں جو کے الیکٹرک کے خلاف منظم تحریک چلا سکے۔ مگر ایک جماعت جو روزِ اوّل سے آج تک اس ظلم کے خلاف بول رہی ہے وہ ہے جماعت اسلامی۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر جناب حافظ نعیم الرحمان نے مطالبہ کیا کہ کے الیکٹرک کی نااہلی، ناقص کارکردگی اور عوام کو پریشان کرنے پر اس کا لائسنس منسوخ کیا جائے اور فرانزک آڈٹ کیا جائے، موجودہ سخت ترین گرمی میں بھی کے الیکٹرک نے طویل لوڈشیڈنگ، اوور بلنگ اور جعلی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر شہریوں سے لوٹ مار جاری رکھی ہوئی ہے۔کے الیکٹرک کا کبھی گیس نہ ملنے اور کبھی فرنس آئل نہ ملنے کا بہانہ بناکر لوڈشیڈنگ کرنا پرانا وتیرہ ہے۔ 2015ء میں ہیٹ ویو کے دوران بھی بدترین لوڈشیڈنگ کی گئی تھی جس میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے تھے، جس پر نیپرا نے کے الیکٹرک پر شدید گرمی اور ہیٹ ویوز کے دوران اپنے پلانٹ بند رکھنے پر ایک کروڑ کا جرمانہ عائد کیا تھا، اسی طرح جون 2017ء میں بھی سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر نیپرا ٹیم نے کراچی میں بدترین لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی کے بحران کی تحقیقات کی روشنی میں معاہدے کے مطابق بجلی کی پیداوار اور ترسیلی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری نہ کرنے پر ایک کروڑ کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ معاہدے کے مطابق بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہ کرنے، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن (T&D) نقصانات ہدف سے زیادہ ہونے اور ریکوری 100فیصد نہ ہونے کے باوجود بھی کے الیکٹرک ہر سال اربوں روپے منافع کما رہی ہے۔ کے الیکٹرک کے ناجائز منافع کی بنیاد زائد ٹیرف، اووربلنگ، جعلی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، تیز رفتار میٹر اور کراچی کے شہریوں اور اداروں کو 200 ارب سے زائد واجب الادا رقم کی عدم ادائیگی ہے۔ کورونا کی وبائی صورت حال کے دوران بھی شہریوں کو ریلیف دینے کے بجائے بدترین لوڈشیڈنگ میں بھی بل کم ہونے کے بجائے اوسط بلنگ اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر لوگوں کو اضافی بل بھیجے جارہے ہیں۔ ہزاروں صارفین روزانہ اپنے بل ٹھیک کروانے کے لیے متعلقہ آئی بی سی (IBC) میں دھکے کھارہے ہیں لیکن شنوائی نہیں ہورہی۔ فالٹز کی شکایات درج نہیں کی جارہی ہیں اور 12سے 24گھنٹوں سے زائد گزر جانے کے بعد بھی فالٹ درست نہیں کیے جارہے۔ نیا طریقه یہ نکالا ہے کہ لوڈشیڈنگ کی جگہ کہہ دیتے ہیں کہ مینٹی نینس ورک ہورہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان جنھوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے بجلی کے بل اس بنیاد پر جلادیے تھے کہ آٹھ روپے یونٹ بل تھا، مگر اب وہ کے الیکٹرک پر نوازشات کی برسات کررہے ہیں کہ بل سترہ روپے یونٹ آتا ہے۔ کوئی دین ایمان ہے، شرم وحیا ہے؟
بلا مبالغہ کراچی میں 75 لاکھ سے زائد میٹر لگے ہوئے ہیں۔ یہ 75 لاکھ صارفین کے الیکٹرک کے ستائے ہوئے ہیں۔ کسی ایک شہری بشمول کے الیکٹرک کے ملازمین کے، کے الیکٹرک کا تذکرہ کرکے دیکھ لیں، وہ پھٹ پڑے گا، مگر جب ان صارفین کے حقوق کے تحفظ کی بات ہوگی تو صرف اور صرف جماعت اسلامی کے کارکنان ہی میدان میں ہوں گے۔ وہی موسم کی سختی بھی برداشت کریں گے اور پولیس کا لاٹھی چارج اور آنسو گیس بھی۔ اگر ان 75 لاکھ صارفین کا ایک فیصد بھی سڑکوں پر آجائے تو کسی کو ان کا حق غصب کرنے کی ہمت ہی نہ ہو۔ ایسا نہیں چلے گا۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں اگر کراچی کے رہنے والے متحد ہوکر سامنے نہیں آئیں گے تو یہ مافیا پیٹرول، بجلی، چینی، آٹے کے نام پر سب کچھ چھین لیں گے۔ ہمیں یک زبان ہوکر کہنا ہوگا ”اٹھو آگے بڑھو۔ کراچی“

حصہ