وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا

721

قدسیہ ملک
سید منور حسن صاحب ہسپتال میں ہیں۔ کل صبح تک بہتری کی طرف تھے اور امکان تھا کہ گھر شفٹ ہوجاتے۔ گھر پر تمام ضروری انتظامات بھی کرلیے تھے، لیکن کل دوپہر سے انھیں تکلیف بڑھ گئی اور رات انہیں آئی سی یو میں داخل کیا ہے۔ دوائیں اور ضروری علاج کیا جارہا ہے۔ ان شاء اللہ انفیکشن کم ہوتے ہی آئی سی یو سے واپس آجائیں گے۔ وہ وینٹی لیٹر پر نہیں ہیں، البتہ آکسیجن فراہم کی جارہی ہے۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔ تحریکی ڈاکٹرز پر مشتمل ٹیم مستقل نگرانی اور رابطے میں ہے۔ کراچی کے فزیشن پروفیسر سلیم اللہ صاحب ان کے معالج ہیں۔ سید صاحب کی صحت کے لیے جو ممکن ہوا ان شاء اللہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سید صاحب کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
ڈاکٹر واسع شاکر، نائب امیر جماعت اسلامی کراچی
11 جون کو ہر واٹس ایپ گروپ اس پیغام ہی سے متعلق خبریں دے رہا تھا۔ سید منور حسن بہت عرصے سے بیمار تھے لیکن ان کی بیماری کی شدت اتنی بڑھ جائے گی اس کا اندازہ ہمیں اس پیغام کے بعد ہوا۔
ایک انجانا سا خوف دل میں پیدا ہوا۔ دل ہی دل میں اس لمحے دعا کی کہ یااللہ ہمارے اکابرین اور مخلص ترین محب وطن اسلام پسند رہنماؤں کا سایہ ہم پر قائم رکھ۔ ایسے بہادر اور ظالم کو اس طرح للکارنے والے لوگ ویسے بھی ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ وہ موجود ہیں۔ اسی ڈھارس اور بھروسے پہ بندہ بڑے بڑے کام نمٹا لیتاہے۔ کسی بڑے قول و فعل کو جب سب ہی اپنے طنز و مخالفت کا نشانہ بنارہے ہوں انہیں اس بات کا یقین ہوتا کہ کوئی تو ایسا ہے جو رب تعالیٰ کے بعد ہمارا سہارا ہے۔ ہم ببانگِ دہل یہ بات کہتے ہیں کہ ہماری جماعت کی ہر لحظہ ظالم کو للکارنے و مظلوم کی مدد کے لیے سینہ سپر ہونے والی تمام کی تمام خصوصیات ایسے ہی بےتیغ، دلیر، نڈر اور مخلص ترین رہنماؤں کی بدولت ہم تک پہنچی ہیں۔ لیکن 26 جون کا سورج ایک دو نہیں، سینکڑوں سوگوار چھوڑ گیا۔ اللہ سید صاحب کو غریقِ رحمت کرے۔
ہم نے مختلف ادوار کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد سے سید صاحب کے بارے میں ان کے تاثرات لینے کی کوشش کی ہے۔
مشہور صحافی، کالم نگار احسان کوہاٹی عرف سیلانی کہتے ہیں: ”سید منور حسن دنیا سے بے نیاز تھے، انہوں نے اُس وقت اسلامک فاؤنڈیشن جیسے بڑے باوسائل ادارے کی برطانوی پاؤنڈز کی پُرکشش تنخواہ کو ٹھکرایا جب وہ محض 250 روپے ماہانہ کی تنخواہ لے رہے تھے۔ دوست سعید عثمانی بتاتے ہیں کہ یہ نعمت اللہ صاحب کے گھر کی چھت پر سرونٹ کوارٹر نما دو کمروں کے مکان میں رہتے تھے جس میں باورچی خانہ بھی نہ تھا، ایک کونے میں چولہا برتن رکھ کر باورچی خانے کا کام لیا جاتا تھا اور ان کے دوست ان کے گھر جاتے ہوئے راستے سے برف خریدنا نہ بھولتے تھے کہ سید کے گھر میں ریفریجریٹر نہ تھا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کے بیڈ روم میں ائر کنڈیشنر زندگی کے آخری دنوں میں اُس وقت لگا جب ان کی کمر بستر سے لگ گئی، ڈاکٹروں نے حبس زدہ کمرے میں ائرکنڈیشنر کو مریض کے لیے ضروری قرار دیا۔ ایسا قناعت پسند، صابر، شاکر، کھرا انسان اب سیاست میں کہاں دکھائی دیتا یے! آج کل احتساب اور خود احتسابی کا بڑا شور ہے، سید صاحب کی زندگی پر نظر ڈالیں تو خود احتسابی کے معنی سمجھ آتے ہیں۔ انہیں گھر بنانا تھا، ہاتھ تنگ تھا، مجبوراً دوستوں سے قرض لینا پڑا۔ قرض لینے کے بعد سید صاحب نے جماعت اسلامی کی شوریٰ میں اپنے اثاثے ڈکلیئر کرتے ہوئے بتایا کہ میرے اکاؤنٹ میں جو رقم ہے یہ دوستوں سے قرض لی ہوئی رقم ہے جو کہ گھر بنانے کے لیے لی۔ بعد میں جب قرض کی رقم چکا دی تو بھی شوریٰ کو آگاہ کیا کہ الحمدللہ قرض چکا دیا۔ اب ایسے افسانوی کردار کے لوگ کہاں ملیں گے! سید صاحب سراپا روشنی تھے، تمام عمر تاریکیوں سے لڑتے رہے۔ انہوں نے کبھی ظلمتِ شب کا شکوہ نہیں کیا بلکہ اپنے حصے کی شمع جلا کر اندھیروں کے لیے چیلنج بنے رہے۔“
مختلف کتب کے مصنف اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ فیروز احمد سمیع کہتے ہیں: ”گرچہ بہت قریب سے ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے، تاہم مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ ماہ رمضان میں اپنے گھر سے خود گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے نارتھ کراچی رقیہ فردوس صاحبہ کے گھر افطار لے کر جارہے تھے۔ مین سڑک تھی، اُس وقت ان کے نورانی چہرے کے تاثرات آج تک یاد ہیں۔ اسی طرح منصورہ لاہور میں قیام کے دوران (2000) فجر کی نماز میں شریک ہونے کی صورت میں ان کی قرآن فہمی و قرات سے اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہ تھا کہ انہیں اس کتاب سے کس قدر والہانہ لگاؤ ہے۔ اسی طرح جب میں جماعت اسلامی کے امیدوار رکنیت میں زیر تربیت تھا تو ہمارے ماہانہ اسٹڈی سرکل کی کلاسیں خود باقاعدہ طور پر لینے کا کہا اور کئی ماہ یعنی کئی کلاسیں لیں بھی- یہ ماہانہ امیدوارِ رکنیت کی کلاسیں نارتھ ناظم آباد کے جماعت اسلامی کے دفتر بلاک ایل میں ہوا کرتی تھیں (یہ غالباً 1984ء کی بات ہے) اور اس میں کئی نامور شخصیات بھی اس دوران امیدوار تھیں جن میں طاہر خان، زاہد عسکری، چودھری عبدالحمید وغیرہ شامل ۔ مجھے یاد ہےٍ ہماری نوٹ کاپی دیکھی اور اسے سب کے سامنے کافی سراہا۔ اسی طرح مظفر احمد ہاشمی کے دفتر میں جب میں ان کے آفس سیکرٹری کے عہدے پر کام کررہا تھا، کئی ملاقاتیں رہیں۔ بہرحال ایک سادہ دل انسان اور اپنے رب سے مربوط رشتوں سے منسلک رہے۔ اور ان کی سچائی کی پہچان تو وہی ہے اسامہ بن لادن کے بارے میں ان کے جو تاثرات تھے۔ ایک سچا انسان سچائی کو ضرور پہچانتا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ظاہر اور باطن میں یکساں تھے۔ ورنہ یہاں کون ہے جو عہدے سے دست بردار ہونا تو گوارا کرلے لیکن اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے، اور اپنے نقطہ نظر پر اخری وقت تک جما رہے۔“
ان سے 50 سالہ برادرانہ تعلق رکھنے والے مزدور رہنما، سید ابوالاعلیٰ مودودی کے قریبی ساتھی، مولانا محمد عبدالعزیز کے فرزند محمد عبدالملک کہتے ہیں: ”اسم بامسمٰی، اجلا اجلا، سفید پوش اندر اور باہر سے۔ ایک ڈر تو منور حسن سے ڈرتا تھا۔ وہ صبح منور، شام منور تھے۔

جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

وہ بولتے تو سارے مجمع کے دل و دماغ ان کی مٹھی میں ہوتے۔ وہ الفاظ بولتے نہیں، انہیں یادگار بنادیتے تھے۔ دورانِ خطابت کبھی جھرنا، کبھی چنگھاڑتا، شور مچاتا متلاطم دریا۔ بے خوفی کیا ہوتی ہے، اس کا مفہوم سید صاحب کو دیکھ کر اور سن کر سمجھ میں آیا۔ سید صاحب ہم تم سے محبت کرتے تھے، کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اے میرے رب سید منور حسن کے فیض کو جاری رکھنا۔
جنازے میں مَیں بھی موجود تھا اور میرے چاروں بیٹے و داماد بھی۔ سیدی مرتے دم تک ہم نے آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ تاقیامت کبھی ایک انچ بھی آپ کے چھوڑے ہوئے نقوشِ پا کو فراموش کریں گے۔ آپ سے پہلے، آپ کا مشن جو میرے باپ مولانا محمد عبدالعزیز کا مشن تھا، ہے اور رہے گا۔۔ ان شاء اللہ
آپ کی کبھی سخت، کبھی الفت و محبت بھری ڈانٹ بھی سنی، اور اس سے اپنے ایمانی ولولے کو جلا بخشی۔ کبھی تحسین بھری نگاہوں اور عقابی انداز سے حرارت پائی۔ میں نے پورے شعور میں آپ سے پانچ دہائیوں سے ولولہ تازہ، ٹکرانے کا جذبہ اور مزاحمت کا ہنر جانا ہے۔ وہ میرے پورے خاندان کے قابلِ فخر، متحرک قائد اور جرأت کا استعارہ تھے۔ ہم بالیقین کہتے ہیں اور رب کی رحمت سے یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ کی مسکراہٹ ہی قبر کی پہلی منزل کو منور کرگئی ہوگی۔ نہ دبنے والا، نہ جھکنے والا، نہ اقتدار کو خاطر میں لانے والا۔۔۔ استعمار اور طاغوت کے خلاف ہمہ وقت،ہمہ تن ہوشیار و بیدار، ہم دم تیار مردِ مومن،مردِ مجاہد۔۔۔نرم دم گفتگو،گرم دم جستجو کے مصداق کفار کے حلقوں میں بے چینی پھیلانےوالے:۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

کی عملی تصویرتھے۔
سیدی ہمارے دل رورہےہیں۔لیکن ہم رضائے الٰہی پرراضی ہیں۔ ہم دل فگار اور پُرنم آنکھوں سے تمہیں ربِ ذوالجلال والاکرام کے حوالے کرتےہیں۔
ریمندڈیوس ایک امریکی اہلکار جو لاہور میں امریکی ذیلی سفارت خانے کا ملازم تھا، جس نے 27 جنوری 2011ء کو مزنگ لاہور کی سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے دو موٹر سائیکل سوار نوجوانوں کو گولی مار کر قتل کردیا۔ ریمنڈڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے ایک نوجوان کی بیوہ نے انصاف فراہم نہ ہونے کے سبب 6 فروری کو احتجاجاً خودکشی کرلی۔ ریمنڈڈیوس پر نہ کوئی مقدمہ چلا، نہ اس نے کوئی دیت ادا کی، اور بآسانی رہائی ہوگئی۔ سابق پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطرفی کے بعد اعتراف کیا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارت کار کا درجہ حاصل نہیں۔ وہ ایک تجربہ کار جاسوس کے طور پر کام کررہا تھا۔ رہائی کے فوراً بعد امریکی ریمنڈ ڈیوس کو بذریعہ ہوائی جہاز افغانستان اور پھر امریکا روانہ کردیا گیا۔ رہائی کے بعد اس نے کتاب لکھی جس میں وہ لکھتا ہے: جس وقت پاکستان کے صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، حتیٰ کہ ڈی جی آئی ایس آئی بھی میری رہائی کے حق میں مہم چلانے اور مجھے بحفاظت رہا کروانے میں پیش پیش تھے اُس وقت یہی ایک 70 سالہ بوڑھا منوّرحسن تھا جو میری رہائی کے خلاف پورے پاکستان میں آگ لگانے کے درپے تھا، اور سچ بات یہ تھی کہ آئی ایس آئی چیف کی حمایت سے زیادہ مجھے اس بوڑھے کی مخالفت سے ڈر لگ رہا تھا۔ جیل میں کوئی بھی باریش شخص آتا تو مجھے دھڑکا لگ جاتا کہ کہیں یہ اس بوڑھے کی پارٹی کا حلف یافتہ کارکن نہ ہو۔
غیرت فروشوں کے اس بازار میں کوئی تو تھا جس کی بے باکی سے دشمن لرزاں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ریمنڈڈیوس نے اپنی کتاب کے سرِورق پر جماعت اسلامی کے مظاہرے اور جماعت کے جھنڈے کو نمایاں کیا ہے۔“
نوجوان مقرر اور ایچ آر پروفیشنل محمد اطیب سید صاحب کے بارے میں کہتے ہیں: ”زمانہ طالب علمی میں مقرری کا شوق ہونے کی وجہ سے لٹریچر اور تقاریر سے خاص شغف رہا۔ ہمیشہ سے سید منور حسن کی گفتگو کو رہنماء پایا۔ انگریزی زبان پر بھی کمال ملکہ حاصل تھا۔ آواز کا زیر و بم، الفاظ کا چناؤ، دلائل کی کاٹ سے لے کر قلم کی نوک تک ہر جگہ منور صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ آج بھی اُن کے الفاظ مشعل راہ ہیں اور آج بھی تحاریر تحریک اسلامی کے کارکنان کے جذبات کو مہمیز فراہم کررہی ہیں۔ جب بھی جمعیت کی سرگرمیوں کی دعوت دینے کے لیے یا کسی بھی کام سے اکیڈمی جانا ہوا ہمیشہ مشفق رویّے اور لطیف مزاح سے مزین منور صاحب کو زندہ دل پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی صلاحیتوں کے ذریعے حق کی ترویج کی توفیق فرمائے۔“
بلاگر، سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اور جی این این کاپی ایڈیٹر رضی اللہ خان سید صاحب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”سید منور حسن میں منفرد کیا تھا؟ پہلے بائیں بازو (این ایس ایف) کو ٹاپ سے لیڈ کرنا، تو پھر دائیں بازو (جمعیت، جماعت) کو بھی ٹاپ سے لیڈ کرنا۔ وہ سرخے تھے تب بھی نظریاتی تھے۔۔۔ اور جماعتیے بنے تب بھی انتہائی نظریاتی رہے۔ دو طرفہ لٹریچر انہوں نے گھول کر پیا ہوا تھا۔ ان کی گفتگو انٹلی لیکچوئل کی گفتگو ہوتی تھی۔ راستہ بدلا تھا تو کچھ پڑھ کر بدلا تھا۔ بائیں سے دائیں آتے ہوئے کسی سیاسی و ذاتی مفاد کو سامنے نہیں رکھا۔ برسوں سیاست میں گزار دیے۔ مرتے وقت تک کوئی الزام نہیں ہے۔ سید دہلی سے ہجرت کرکے کراچی آنے والے ایک جینیئن مہاجر تھے۔ انہوں نے ساری زندگی نسلی و لسانی تعصب کے خلاف جہدوجہد میں گزاری۔وہ جماعت اسلامی کے امیر رہے ۔ اپنے بعد اپنی اولاد کو جانشین مقرر کرکے نہیں گئے۔“
شاعرہ، کہانی، مضمون، افسانہ نویس، تخلیق کار ذہن کی مالک سمیرا غزل اپنے تاثرات لکھتی ہیں: ”سیدی! لوگ کہتے ہیں کہ آپ چلے گئے۔ نہیں، میں کہتی ہوں کہ آپ دلوں میں، دماغوں میں، نظاروں میں زندہ ہیں۔ فاطمہ کے علاوہ آپ کی بے شمار بیٹیاں ہیں، طلحہ کے علاوہ بے شمار بیٹے ہیں جو آپ کے مشن حنیفی کو تھامے ہوئے ہیں، جن کی نظریں مقصد پر گڑی ہیں کہ آپ نے انھیں یہی سکھایا۔ آپ ان سب کی صورت زندہ ہیں۔ آپ شہید ہوجانے والوں کے نقشِ پا اور ان کی اولاد کے اچھے اعمال کی صورت میں زندہ ہیں۔ دیکھیے سیدی ٹہل رہے ہیں۔ دیکھیے سیدی جنت کے بالا خانوں سے جھانک کر اپنے سپاہیوں کی پیشانی پر بوسے ثبت کررہے ہیں۔ وہ دنیا میں اپنے بنائے کرداروں میں زندہ ہیں۔ جنت میں خدا کے ناز و نعم میں تابندہ ہیں۔ کون کہتا ہے سیدی نہیں رہے! بڑا آدمی رب کی جنت میں بڑے مقام پر فائز ہوگیا ہے۔ سیدی زندہ ہیں۔ راہِ خدا پہ چلتے چلتے جان سے گزرنے والے مرتے نہیں ہیں۔۔۔ بات بس اتنی ہے کہ وہ اپنی نذر پوری کرچکے۔“

سچ ہے وہ اپنے قبیلے کا آخری شخص تھا جو بقول نعیم صدیقیؔ اب یہاں نہیں ملے گا:۔

نہیں وہ موجود گو بظاہر جگہ جگہ ہے سراغ اس کا
وہی ہے ساقی، اسی کی محفل ایاغ اس کا، چراغ اس کا
ہزاروں دل ہیں کہ جن کے اندر جھلک رہا ہے دماغ اس کا
نہ روئو اس کو کہ جلوہ فرما وہ کہکشاں تابہ کہکشاں ہے
فرازِ جنت کے سبزہ زاروں میں رونقِ بزمِ قدسیاں ہے
ہوا مقرب وہ انبیاؑ کا وہ آج مخدوم نوریاں ہے
وہ شخص اب یاں نہیں ملے گا

(جاری ہے)

حصہ